Strict Standards: Non-static method Util::chkNumericInput() should not be called statically, assuming $this from incompatible context in /home/ubqari/httpdocs/ubqari2/core/Action/Article.php on line 36
Ubqari-- The Center for Peace and Spirituality
Strict Standards: Non-static method Util::getTitle() should not be called statically in /home/ubqari/httpdocs/ubqari2/lib/plugins/function.callback.php(24) : eval()'d code on line 1
فرقہ واریت اور رواداری(انوکھے بول،انمول سوچیں)-کنڈیارو درس 18 اکتوبر 2015ء (بذریعہ فون)   درس کیلئے کلک کریں

Strict Standards: Non-static method BizLogic_EditionController::getRecord() should not be called statically in /home/ubqari/httpdocs/ubqari2/lib/plugins/function.callback.php(24) : eval()'d code on line 1

Strict Standards: Non-static method Lib::formatDate() should not be called statically, assuming $this from incompatible context in /home/ubqari/httpdocs/ubqari2/core/BizLogic/Edition.php on line 47
اکتوبر 2010ء
Print Preview | Print
  نونہال کی صحت اور ماں کی ذمہ داری ( سدرہ بتول‘بہاولپور)  

نوزائیدہ بچوں میں بیماری کی تشخیص اور علاج ایک لحاظ سے کافی مشکل ہے‘ جیسے بڑی عمر کے لوگ اپنی تکلیف خود اپنے منہ سے بتاسکتے ہیں اور ذرا بڑے بچوں کے والدین بھی اسکی تکلیف ڈاکٹرکو بتاسکتے ہیں ایسا نوزائیدہ کے معاملے میں نہیں ہوتا کیونکہ اس کی ماں بھی اس کے جسم اور عادات سے متعلق ابھی زیادہ آگاہ نہیں ہوتی
نوزائیدہ کے ابتدائی دن بہت اہم ہوتے ہیں‘ پہلی دفعہ ماں بننے کے مراحل سے گزرنے والی خاتون کو ان دنوں کی اہم باتوں کا اگر پہلے سے علم نہ ہو تو کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ جن گھروں میں ماں اکیلی ہی بچے کی دیکھ بھال کی ذمے دار ہے وہاں گھر کے اور افراد بھی اس بات کے ذمے دار ہیں کہ انہیں بھی بچے کی دیکھ بھال کے متعلق بنیادی باتوں کا علم ہونا چاہیے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بچے کی نگہداشت کے متعلق باہر سے بھی انہیں مشورے ملیں گے۔ یہ فیصلہ کرنا کہ کون سا مشورہ قابل عمل ہے اور کون سا نہیں یہ بچے کے گھر والوں خصوصاً والدین کا کام ہے اور اس سلسلے میں انہیں اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کے علاوہ معلومات کے دیگر ذرائع بھی استعمال کرتے رہنا چاہیے۔

علامات جو اچھی نہیں
کسی بھی عمر میں انسانی جسم کا نارمل درجہ حرارت 37 ڈگری سینٹی گریڈ یا 98.4 فارن ہیٹ ہوتا ہے لیکن دن کے مختلف اوقات میں یہ درجہ حرارت کس قدر کم ہوتا اور بڑھتا ہے اس کا انحصار انسان کی سرگرمیوں پر ہے۔
ورزش کے دوران یہ قدرے بڑھ جاتا ہے اور سوتے ہوئے ذرا کم ہوجاتا ہے نوزائیدہ بچوں میں جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کا نظام بھی پوری طرح مستحکم نہیں ہوتا چنانچہ وہ بیماری یا بیرونی ماحول کے درجہ حرارت تبدیل ہونے سے فوراً متاثر ہوجاتے ہیں اس لیے ان کے جسم کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت یا بخار کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے اگر چھوٹے بچے کو بہت لپیٹ کر رکھا گیا تو بخار ہوسکتا ہے ایسا بچہ جو بخار کے باوجود بہت زیادہ بیمار بچے کی طرح دکھائی نہیں دیتا ٹھیک طرح سے دودھ پیتا ہے پاخانہ اور پیشاب ٹھیک کرتا ہے بیماری کی دیگر علامات بھی اس میں نہیں اسے اس کے وزن کے مطابق پیراسیٹا مول کا شربت دینے اور ماحول کی گرمی ختم کرنے سے بخار اتر جاتا ہے دوسرے وہ بچے ہیں جو واقعی بیمار ہیں ان وجوہات میں سب سے اہم جراثیم سے ہونے والی بیماری یا انفیکشن ہے جراثیم سے بیماری میں مبتلا ہونے والے بچے دودھ نہ پینا‘ پیشاب نہ کرنا یا کرتے ہوئے رونا‘ پاخانے بہت پتلے اور زیادہ مقدار میں آنا بہت زیادہ رونا یا بالکل نہ رو سکنا۔ دورے پڑنا‘ یرقان ہونا وغیرہ جیسی علامات میں کچھ موجود ہوسکتی ہیں۔

جسم ٹھنڈا ہوجانا
جیسے جسم کا درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھنے کو بچے کا جسم کنٹرول نہیں کرتا ویسے ہی بہت ٹھنڈا ہونے پر بھی قابو نہیں ہوسکتا۔ سردی کے موسم میں اگر بچے کے کپڑے ناکافی ہیں یا اسے اچھی طرح لپیٹا نہ گیا ہو‘ تو نارمل بچہ بھی بہت ٹھنڈا ہوسکتا ہے لیکن ٹھنڈا ہونا صرف ماحول کا درجہ حرارت کم ہونے کی ہی نشانی نہیں مختلف بیماریوں میں بھی بچے کا درجہ حرارت بہت کم ہوسکتا ہے۔ ٹھنڈا ہوجانے والے بچے کو سب سے پہلے فوراً گرم کرنا چاہیے‘ اچھی طرح لپیٹنا‘ گرم کپڑے پہنانا‘ گرم پانی کی بوتل یا ہیٹر کے قریب کرنے یا گود میں لینے سے بچے کے درجہ حرارت کو نارمل کیا جاسکتا ہے وہ بچہ جس کا درجہ حرارت بہتر ہونے پر نارمل بچے کی طرح ہوجائے‘ دودھ ٹھیک طرح سے پینے لگے اس میں مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں لیکن وہ بچہ جو گرم کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود ٹھنڈا رہے‘ دودھ نہ پی سکے یا بیماری کی دوسری علامات اس میں ظاہر ہو جائیں اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا اور مشورے کے مطابق علاج کرانا ضروری ہوجاتا ہے‘ اسی طرح وہ بچہ جو وقت سے پہلے پیدا ہوا ہو یا جس کا پیدائشی وزن بہت ہی کم عموماً 2.5 کلو گرام سے کم ہو اسے بھی ٹھنڈک سے بچانا بہت ضروری اور ٹھنڈا ہونے پر ڈاکٹر سے مشورہ لازمی ہوجاتا ہے۔

جسم نیلا ہونا
ابتدائی دنوں میں نہلانے دھلانے کے بعد نارمل بچوں کو بھی اگر پنکھے کے نیچے لے آئیں یا بیرونی ماحول بہت ٹھنڈا ہو اور بچے کے ہاتھ پاوں ننگے ہوں توہاتھ اور پاوں دونوں میں نیلاہٹ دکھائی دینے لگتی ہے۔ یہ نارمل بات ہے اور بعض بچوں میں کئی ماہ بلکہ کئی برسوں تک دکھائی دیتی ہے یعنی موجود رہتی لیکن اگر بچے کے ہونٹ‘ ناک کی نوک یا زبان نیلے رنگ کی دکھائی دے تو اسے سایانوسس کہتے ہیں اور یہ بیماری کی علامات ہیں۔ بچے کے دل میں پیدائشی طور پر ایسا نقص جس کی وجہ سے صاف اور گندا خون اکٹھے ہوجاتے ہوں یا پھیپھڑوں میں ایسی بیماری کہ گندا خون مکمل طور پر صاف نہ ہورہا ہو یا ایسی انفیکشنز کہ جن میں جسم کا دوران خون بری طرح متاثر ہورہا ہو کے نتیجے میں نیلاہٹ ایک علامت کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ ہونٹوں‘ ناخنوں اور زبان کی نیلاہٹ ایک خطرناک علامت ہے بچے کو فوراً مستند معالج کے پاس لے جانا چاہیے۔

سانسیں تیز یا بے ترتیب ہونا
ابتدائی چند ماہ میں بچے کی سانس کی رفتار بڑی عمر کے لوگوں کی نسبت کافی زیادہ ہوتی ہے پہلے دو ماہ میں بچہ تقریباً 80 بار فی منٹ کی رفتار سے سانس لیتا ہے اسی طرح پہلے ایک ماہ کے دوران بچے کی سانس کبھی بے ترتیب ہوسکتی ہے اور بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ اس کی سانس بالکل رک گئی ہے۔
اگر بچے کی سانس کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہو اور گنتی کرنے پر وہ 60 بار فی منٹ کی رفتار سے زیادہ نکلنے یا سانس کے ساتھ خرخراہٹ کی آواز سنائی دے یا دیکھنے میں ایسا محسوس ہو کہ بچے کو سانس میں تکلیف ہے یا سانس لینے پر چھاتی اور پیٹ کے درمیان گڑھا پڑرہا ہو تو یہ بیماری کی علامات ہیں‘ اسی طرح سانس روک لینے کا وقفہ اگر 10 سیکنڈ سے زیادہ ہو یہ کیفیت زیادہ تر وقت سے پہلے پیدا ہوجانے والے بچوں میں دیکھنے میں آتی ہے۔ یہ بھی تشویش کی بات ہے۔ سانس روک لینے والے بچے کو اگر تھوڑا ہلایا جائے وہ عموماً سانس لینا شروع کردیتا ہے لیکن اگر معاملہ شدید نوعیت کا ہو تو پھر ہلانے سے بھی کام نہیں بنتا‘ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے جاکر اس کا معائنہ کرایا جائے اور پھر اس کے مشورے پر عمل بھی کیا جائے۔

قے آنا
پہلے ایک دو دن میں بچے کے معدے میں موجود مادے جو کئی ماہ سے وہاں موجود تھے ان کی وجہ سے بچہ قے کرسکتا ہے اگرچہ ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ اپنی ضرورت سے زیادہ دودھ پی کر فالتو دودھ منہ سے نکال دینے کا عمل بھی چند دن بعد شروع ہوجاتا ہے بعض اوقات چھوٹے بچے کی خوراک کی نالی کا نچلا حصہ قدرے کمزور ہونے کی وجہ سے خوراک معدے میں جانے کے بعد واپس اس نالی میں آجاتی ہے اور قے کی صورت میں منہ سے نکل سکتی ہے۔ چھوٹے بچوں میں دودھ الٹنے کی بڑی وجہ ضرورت سے زیادہ دودھ پی لینا یا دودھ پلانے کے بعد ڈکار دلانے کا طریقہ ٹھیک نہ ہونا ہے۔ ابتدائی دنوں میں مسلسل قے ہو یا قے کی مقدار ہر بار بہت زیادہ ہو اور بچہ کمزور دکھائی دینے لگے یا اس کے پیٹ میں پہلے ہی ابھار نظر آئے تو بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے اور اس تکلیف کا علاج کرنے کی ضرورت ہے۔
June 2, 2024

سنیے عبقری

لایو براڈکاسٹ
براڈکاسٹ شیڈول

درس روحانیت و امن
تسبیح خانے سے براہ راست ہر جمعرات بعد نماز مغرب
(GMT +05.00)

Strict Standards: Non-static method BizLogic_EditionController::getDefault() should not be called statically in /home/ubqari/httpdocs/ubqari2/lib/plugins/function.callback.php(24) : eval()'d code on line 1

Strict Standards: Non-static method Lib::formatDate() should not be called statically, assuming $this from incompatible context in /home/ubqari/httpdocs/ubqari2/core/BizLogic/Edition.php on line 47
اہم اعلانات