(آپ بھی اپنے مشاہدات لکھیں، صدقہ جاریہ ہے۔ بے ربط ہی کیوں نہ ہوں، تحریر ہم سنوار لیں گے)
میری عمر تقریباً 12 سال کی تھی ، جب کہ میں اپنے رہائشی قصبہ کے مڈل اسکول میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ سالانہ امتحان میں صرف تین ماہ باقی تھے کہ نامراد مرض چیچک وبائی طور پر تمام قصبہ اور گردو نواح کے دیہات میں پھوٹ پڑا۔ میں بھی اس موذی مرض کا بری طرح شکار ہوا۔ تقریباًدو ہفتے کے شدید بخار کے بعد دانے (پھنسیاں) نکلنے شروع ہوئے۔ مگر بہت کم. درد سر، خارش گوش و چشم ، ہذبان اور نیم بیہوشی وغیرہ کی علامات شدید طورپر رہنے لگیں۔ آخر کار چار پانچ روز نیم مردہ نیم زندہ بسمل کی طرح تڑپنے کے بعد تمام بدن پر پھنسیاں ظاہر ہو گئیں۔دونوں کانوں اور بائیں آنکھ میں بھی دانے نکل آئے۔ کانوں کی پھنسیاں تو خیر دوا سے ٹھیک ہو گئیں ،مگر آنکھ میں از حد خارش رہنے لگی، ہر وقت پانی بہتا تھا۔ آنکھ روشنی تو کیا اندھیرے میں بھی نہیں کھل سکتی تھی۔ باوجود کافی علاج کے کوئی افاقہ نہ ہوا۔ آنکھ کی پھنسیوں میں پیپ پڑ کر زخم ہو گیا اور ڈیلے پر سفید سا پردہ چھا گیا۔
والد محترم صاحب نے ایک نہایت تیز دوا ”اشیاف بیض“ نامی، جس میں انڈے کی سفیدی بھی پڑی تھی، بنا کر آنکھ میں ڈال دی جس سے سفید سا پردہ تو دور ہو گیا مگر آنکھ میں شدید درد ہو کر پتلی باہر نکل آئی۔ یہاں یہ بیان کر دینا مناسب ہے کہ والد صاحب پنجاب یونیورسٹی کے گریجوایٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے حاذق حکیم بھی ہیں، مگر ایسے نازک موقع پر اچھے اچھے تجربہ کار حکیموں سے بھی بن نہیں پڑی۔آنکھ کی پتلی باہر نکل آنے پر والد صاحب نے مقامی سرکاری ڈسپنسری کے ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر درد بند نہ ہوا تو آنکھ کی تمام پتلی جڑ سے باہر نکال دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں اور ایک معمولی انگریزی دوا رسمی طور پر آنکھ میں ڈالنے کیلئے دے دی کہ کچھ نہ ڈالنے سے تو بہترہے۔ خدا کی قدرت کا کرشمہ دیکھئے۔کہ چند روز کے استعمال کے بعد درد بند ہو گیا اور پتلی آہستہ آہستہ حیرت انگیز طور پر اندر کی طرف جانے لگی اور اتنی اندر چلی گئی کہ آنکھ کی ظاہری حالت میں کوئی نمایاں فرق معلوم نہیں ہوتا تھا۔
سوائے اس کے کہ آنکھ کی سیاہی پر سفیدی پھر پیدا ہو گئی تھی، مگر آنکھ کی ظاہر ی شکل و شباہت کا اتنا ٹھیک ہو جانا بھی میرے لئے آنکھ کی قطعی باہر نکال دینے سے ہزار درجہ غنیمت تھا۔آخر تین ماہ کی سخت تکالیف برداشت کرنے کے بعد پھنسیوں کے زخم مند مل ہو گئے اور میں چار پائی پر تکیے کے سہارے بیٹھنے لگا۔اور پھر آہستہ آہستہ کھڑا ہونے لگا۔ مرض کی شدت کے دوران میں میری بائیں ٹانگ اور پاﺅں پر فالج پڑ گیا۔ یہ ٹانگ اور پاﺅں بھی کس حیرت انگیز طور پر ٹھیک ہوئے پھر کسی فرصت میں گوش گزار کروں گا۔ فی الحال صرف آنکھ کے متعلق سنئے۔
چلنے پھرنے کے قابل ہونے کے بعد میں ایک دن کمرے کے فرش کی دری پر لیٹا ہوا چھوٹے بھائی سے کھیل رہا تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو آہستہ آہستہ لاتیں مار رہے تھے کہ چھوٹے بھائی کے پاﺅں کی ایڑھی آہستہ سے میری خراب شدہ آنکھ پر لگی اور اوپر سے نیچے کی طرف نہایت آہستہ سے ملاش کی طرح رگڑتی ہوئی گزر گئی۔ جب میں اٹھ کر باہر گیا تو مجھے اچانک محسوس ہوا کہ اس آنکھ میں روشنی پیدا ہو گئی ہے۔ خیال ہوا کہ شاید مجھے وہم ہو گیا ہے، مگر دوسری آنکھ ہاتھ سے بند کر کے دیکھا تو واقعی نظر بالکل صاف اور ٹھیک تھی۔ میں بہت خوش ہوا اور والد صاحب کو بھی آنکھ دکھائی۔ انہوں نے دیکھ کر کہا کہ آنکھ کی سفیدی سمٹ کر نیچے آگئی ہے اور آنکھ خدا کے فضل سے بالکل ٹھیک ہو گئی ہے۔ میں نے خود بھی آئینہ لے کر دیکھا، واقعی آنکھ بالکل صاف تھی۔ صرف نیچے کونے میں ایک معمولی سفید سا نقطہ نظر آتا تھا اس کا چنداں خیال نہ کیا کہ یہ بھی خود ہی دور ہو جائے گا۔
اگلے روز جب صبح کو سو کر اٹھا تو محسوس ہوا کہ آنکھ میں روشنی نہیں۔ شیشہ لے کر دیکھا تو پھر وہی سفید پردہ پتلی کی سیاہی پر چھایا ہوا تھا۔ مایوس ہو کر دوڑ کر والد صاحب کو کیفیت بتاتے ہوئے آنکھ دکھائی۔ انہوں نے بھی دیکھ کر تائید کی کہ سفیدی پھر پیدا ہو گئی ہے۔ سب کو تعجب ہوا۔ دن گزرتے گئے اور اس واقعہ کی یاد آہستہ آہستہ فراموش ہو گئی۔ اس کے بعد بہت دوائیں استعمال کیں، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا، آخر کار اس مشہور مقولے کی صداقت پر یقین ہو گیا کہ چیچک کا پٹھولہ کسی دوا سے دور نہیں ہوتا۔
اب میں 27 سال کا نوجوان ہوں۔ اس عرصے میں آنکھ کی سفیدی دو تین دفعہ کسی نہ کسی اتفاقیہ دوا کے استعمال سے تھوڑی بہت سکڑ گئی اور پھر اصل صورت میں پھیل گئی اور بس۔آنکھوں کے مشہور ماہر معالجین کو دکھایا، جن میں مشہور آنکھ کے سرجن بھی شامل ہیں، مگر ان سب کا فتویٰ ہے کہ کسی صورت سے بھی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ آپریشن بھی نہیں ہو سکتا۔غالباً ہمدرد کے مشاورتی تشخٰیصی بورڈ کے ماہر حکماء بھی میرے اس نظریے سے اتفاق کریں گے کہ یہ سفیدی دراصل ناخونہ ہے جو کہ ایک مرض ہوتا ہے۔ سکڑنا اور بڑھنا جس کی خاصیت ہے۔ جس وقت یہ چھوٹے بھائی کی ایڑھی لگنے سے سکڑ کر ایک چھوٹے سفید نقطے کی شکل میں سمٹ کر نیچے آ گیا تو اس نقطے کو بھی کسی دوائی کے پھائے یا نرم کپڑے سے باہر نکال دینا چائیے تھا۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور رات میں پھر یہ پھیل کر اپنی اصل ہیئت پر آگیا۔ مگر میرا پختہ یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن خداوند تعالیٰ کی رحمت کاملہ سے کسی نہ کسی دوا سے میری آنکھ انشاءاللہ پھر بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں