اسلام اور رواداری
(بحیثیت مسلمان ہم جس بااخلا ق نبی کے پیرو کا ر ہیں ان کا غیر مسلموں سے مندرجہ ذیل سلو ک کیا تھا ہم اپنے گریبان میں جھا نکیں ، ہمارا عمل ، سوچ اورجذبہ غیر مسلموں کے بارے میں کیا ہے ؟ فیصلہ آپ خود کریں۔ )
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین بھی انتہا ئی لجاجت پیشہ اور متعصب تھے اور انہوں نے جب یہ دیکھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ خانہ کعبہ میں داخل ہو گئے ہیں تو انہوں نے ایک بار پھر انہیں قتل کر نے کا منصوبہ بنایا ۔ اس مر تبہ عقبہ نامی شخص جو ایک چادر اٹھائے ہوئے تھابرہنہ پا خانہ کعبہ میں داخل ہوا۔ اگرچہ وہ ننگے پاﺅں تھا لیکن اس کے باوجود پنجوں کے بل چل رہا تھا تاکہ اس کے قدموں کی آواز سنائی نہ دے سکے ۔
دوسری طر ف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ کچھ اس طر ح اپنے خدا کی طرف مبذول تھی کہ انہیں اپنے گردو پیش کی خبر نہیں تھی اس لیے وہ عقبہ کے نزدیک آنے کی آواز نہ سن سکے ۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سجد ے میں گئے تو عقبہ نے بڑی پھرتی کے ساتھ اپنی چادر ان پر ڈال دی اور اتنا شدید حملہ کیا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ناک مبارک اور منہ مبارک سے خون جا ری ہو گیا ۔
عقبہ کوشش کر رہا تھا کہ سجدے سے سر اٹھا نے سے پہلے ہی وہ پے در پے وار کرکے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتمہ کر دے لیکن وہ اپنے مقصد میں کا میا ب نہ ہو سکا اور اس مر تبہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو حملہ آور کے ہا تھوں سے چھڑانے میں کا میا ب ہو گئے اور خون آلو د چہرے کے ساتھ گھر واپس لوٹ آئے ۔ گھر پہنچ کر انہوں نے اپنا چہرہ صاف کیا لیکن اپنے ہونٹوں پر کوئی شکایت نہ آنے دی کیونکہ جیسا کہ و ہ خود فرماتے تھے کہ انسان کو صرف اسی وقت اسی وقت درد ورنج کا احساس گراں محسوس ہوتا ہے جب اسے یہ علم نہ ہو کہ وہ کس کے لیے تکالیف اٹھا رہا ہے لیکن جب وہ یہ جان لے کہ یہ مصائب کس نصب العین کی راہ میں اس پر ٹوٹ رہے ہیں تو اسے درد و رنج کا خو ف نہیں رہتا اور نہ ہی اس کے ہونٹوں پر کوئی شکا یت آتی ہے ۔
یورپی قارئین جو ان سطور کو پڑھ رہے ہیں ہو سکتا ہے یہ سوال اٹھا ئیں کہ آیا یہ ماننے کی بات ہے کہ ابوجہل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سر عام قتل کرنے کی کو شش کرے اور وہاں پر مو جود قبیلہ قریش کے دوسرے افراد صرف تماشائی بنے رہیں اور ان کی نجا ت کے لیے کوئی اقدام نہ اٹھائیں؟ میں ( یعنی کونسٹن ویرژیل) ان کے جوا ب میں یہی کہوں گا کہ جی ہاں اس زمانے میں یہ واقعہ رونما ہوا ہے جیسا کہ آج بھی جب کہ بیسویں صدی کا زمانہ ہے اس قسم کے واقعات جزیرة العرب میں رونما ہوتے رہتے ہیں میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ یمن میں ایک چور کا ہاتھ کا ٹ دیا گیا اور ایک دفعہ یہ بھی دیکھا کہ ایک راہزن کی گردن سرعام اڑا دی گئی لیکن وہیں موجو د تما شائیوں کے چہرے پر کسی قسم کے ترحم یا ہمدردی کے آثار نمایاں نہیں ہوئے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک عرب اور خاص طو رپر ایک بدوی عرب کی نظر میں ” تر حم “ کا مطلب وہ نہیں ہو تا جیسا کہ ہم یورپ کے رہنے والے سمجھتے ہیں ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں