بس سے اتر کر میں نے سڑک پار کی۔ پھر روہی نالے کے ساتھ کچے راستے پر مٹی سے بچتی بچاتی کچھ فاصلے پر بنے تنہا مکان کے دروازے پر دستک دی۔ ہماری زمینوں پر بنی مسجد میں مغرب کی اذان گونج رہی تھی۔ ڈاکٹر شفیع نے مجھے گیارہ بجے آنے کیلئے کہا تھا ‘ ہمارا گاﺅں لاہور سے چالیس کلو میٹر دو رائیونڈ کے نواح میں واقع تھا۔ وہ سردیوں کے دن تھے۔ مجھے منہ اندھیرے اٹھنا پڑا۔ نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر میں نے ناشتہ تیار کیا۔ جب میں تیار ہو کر گھر سے باہر کچی پگڈنڈی پر چلتی ہوئی سڑک پر آئی۔ اس وقت نو بج رہے تھے۔دس پندرہ منٹ کے بعد بس آئی۔ رش کے باوجود میں نے سوار ہونے میں عافیت سمجھی۔
مانگا منڈی پہنچ کر مجھے ایک اور بس میں سوار ہونا پڑا۔ اس وقت گیارہ بج رہے تھے جب بس بادامی باغ پہنچی۔ گلبرگ جانے والی ویگن میں سوار ہوتے ہی ویگن نے چلنے کا ہارن دیا۔ مجھے ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ ملی۔ میں نے ڈرائیور سے درخواست کی کہ مجھے بارہ بجے سے پہلے یو سی ایچ پہنچنا ہے ورنہ ڈاکٹر نہیں ملے گا۔وہ بولا فکر نہ کریں آپ کو دس منٹ پہلے پہنچا دیں گے۔ اس نے مجھے مطمئن کر دیا۔ ویگن چلی جا رہی تھی۔ عین بارہ بجنے میں پانچ منٹ تھے جب میں نے ویگن رکتے ہی چھلانگ لگائی اور ”شکریہ ڈرائیور بھائی“ کہہ کر تقریباً بھاگتی ہوئی کارڈ والی کھڑکی پر پہنچی ۔ کلرک کاﺅنٹر سے چیزیں اور کارڈ وغیرہ سمیٹ رہا تھا۔ میں نے پھولے سانس سے اپنا کارڈ نکلوایا اور ڈاکٹر سے دوا کی پرچی لکھوائی۔ پھر بازار سے اپنے لئے دوائیں خرید کر میں انار کلی چلی گئی۔
واپسی کیلئے میں نے لوہاری سے رائیونڈ کی بس لی ۔ سڑک پر دوڑتی بس کی نشست پر گھنٹہ بھر ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے رہنے سے میری کمر میں درد ہو رہا تھا۔ خدا خدا کر کے بس مانگا منڈی رکی ۔ میرے ساتھ چند اور مسافر بس سے اتر آئے۔ میں نے اپنا سامان سنبھالتے ہوئے رائیونڈ جانے والی بس کی تلاش کی۔ آدھی بس بھر چکی تھی۔ میرے ساتھ ایک تھیلا اور ایک بیگ تھا۔ پرس میرے بازو میں تھا۔کنڈیکٹر نے روہی نالے کا پل آنے سے پہلے آواز لگائی ”نور پور‘ نور پور“۔ میں نے سامان اٹھایا اور بس سے نیچے اتر آئی۔
میری ساتھ والی نشست پر ایک دیہاتی عورت بیٹھی تھی۔ اس بس کا آخری سٹاپ رائیونڈ تھا۔ بس سے اتر کر میں نے سڑک پار کی۔ پھر روہی نالے کے ساتھ کچے راستے پر مٹی سے بچتی بچاتی کچھ فاصلے پر بنے تنہا مکان کے دروازے پر دستک دی۔ ہماری زمینوں پر بنی مسجد میں مغرب کی اذان گونج رہی تھی۔ میرے دستک دینے پر بچوں نے دروازہ کھولا۔ اندر داخل ہو کر میں نے سامان صحن میں بچھی چار پائی پر رکھا۔ بچے شوق سے میرے سامان سے کھانے کی چیزیں تلاش کرنے لگے۔ میں جب گھر کی طرف روانہ ہوئی تو میں نے بس کو رائیونڈ کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ اب دس منٹ کے بعد میری نظر باہر کی طرف اٹھ گئی ۔ اسی مخصوص رنگ کی بس کو میں نے پل پر کھڑے دیکھا۔ بچوں کو چیزیں دکھانے کے شوق میں ایک چیز میں بس میں بھول آئی تھی۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ وہی دیہاتی سا نوجوان کنڈیکٹر سامنے تھا‘ میں نے اسے پہچان لیا۔ میں نے کرایہ تو دے دیا تھا“۔ دوسرے لمحے میری نظر اس کے ہاتھ میں پکڑے میرے پرس پر چلی گئی۔ آپ کا پرس رہ گیا تھا دوسری روہی سے ہمیں بس واپس لانی پڑی ۔میں نے آپ کو پہلے بھی ایک دفعہ اس گھر میں جاتے دیکھا تھا ورنہ ہم آپ کو کہاں ڈھونڈتے پھرتے“۔ پرس اس نے میرے ہاتھ میں تھمایا۔ ڈاکٹر کا نسخہ اور دوائیں جو آج کے دن کی خواری کے بعد میں نے حاصل کی تھیں‘ پرس میں تھیں۔ اس کے علاوہ میرے کانوں کے بندے‘ سونے کی انگوٹھی‘ گھر اور الماری کی چابیاں‘ کئی ہزار کی چیزیں تھیں۔ سیٹ پر رکھا پرس میرے ساتھ والی عورت بھی آسانی سے چھپا سکتی تھی۔ مگر ایماندار کنڈیکٹر کی نظر پرس پر جا پڑی اور وہ بس موڑ کر میرے گھر تک واپس لے آیا۔ وہ پرس جس کے کھونے کا ابھی مجھے ادراک بھی نہیں ہوا تھا۔ میں نے پرس کی تلاشی لی‘ کوئی چیزایسی ضروری تھی کہ یہ پرس واپس میرے پاس آ گیا ۔ پرس کی ایک پاکٹ میں چھوٹے سائز کا قرآن پاک یعنی اللہ کا کلام رکھا تھا۔ یہ کئی سال سے میرے پرس میں رہتا تھا اور میں اس کو وقتاً فوقتاً پڑھتی رہتی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس کلام پاک کی برکت سے میرا گمشدہ پرس مجھے دوبارہ مل گیا۔ ورنہ ایک دفعہ کوئی چیز کھو جائے تو دوبارہ کبھی واپس نہیں ملتی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں