اپنے وقت کا ایک بادشاہ اپنے وزیر سے کسی وجہ سے ناراض ہو جاتا ہے اور وزیر کو حکم جاری کرتا ہے کہ تم ان تین سوالوں کا جواب دے دو تو تجھے میں چھوڑ دوں گا اور تجھے انعامات سے بھی نواز دوں گا اور اگر جوابات نہ دیئے تو تجھے میں (بادشاہ) ہمیشہ کیلئے حوالات میں بند کر دوں گا اور مزید سزا بھی دوں گا۔ وزیر بڑے ادب سے کہتا ہے عالم پناہ وہ تین سوال کون سے ہیں‘ بادشاہ سوال کرتا ہے۔
1:۔ سچ کیا ہے۔ 2:۔ جھوٹ کیا ہے۔ 3:۔ غرض کیا ہے۔
ان تین سوالوں کا جواب دے دو وزیر عرض کرتا ہے کہ عالم پناہ ان تین سوالوں کے جواب میں ابھی نہیں دے سکتا مجھے کچھ وقت دے دیں۔ بادشاہ اسے سات دن کا وقت دیتا ہے وزیر اپنے گھر چلا آتا ہے اور بیوی سے کہتا ہے کہ تجھے ان تین سوالوں کا جواب معلوم ہے تو وزیر کی زوجہ نے عرض کی کونسے تین سوال؟ تو وزیر نے وہی تینوں سوال دہرائے تو اس کی زوجہ کہتی ہے مجھے ان تینوں سوالوں کے جوابات معلوم نہیں تو وزیر اپنی زوجہ محترمہ کو کہتا ہے کہ میرے لئے سفر کا سامان تیار کرو اور گھوڑے پر لاد دو ۔ وزیر کی زوجہ محترمہ نے ایسا ہی کیا۔ وزیر گھوڑے پر بیٹھ کر روانہ ہو جاتا ہے اور کافی پریشان ہوتا ہے تقریباً آدھے دن کا سفر طے کیا ہو گا کہ ایک کسان دیکھ کر ( جو کھیتوں میں کام کررہا ہوتا ہے) بھاگا بھاگا آتا ہے اور وزیر کو کہتا ہے کہ بھائی کیوں اتنے پریشان ہو اور کہاں جا رہے ہو۔ پھر وزیر گھوڑا روک کر سارا واقعہ سناتا ہے تو کسان کہتا ان تینوں سوالوں کا جواب مجھے معلوم ہے تم اپنے گھوڑے سے نیچے اتر آﺅ۔ وزیر ایسا ہی کرتا ہے کسان جو کھیت میں جتنا کام ادھورا چھوڑ آیا تھا وہ کام مکمل کر کے واپس وزیر کے پاس آجاتا ہے اور وزیر کو کہتا ہے کہ تمہارا پہلا سوال کون سا ہے وزیر عرض کرتا ہے میرا پہلا سوال ہے کہ سچ کیا ہے؟
کسان :۔ موت ایک دن آنی ہے‘ سب لوگوں نے مرنا ہے اور قیامت سچ ہے‘ میدان محشر لے گا۔
وزیر جواب سن کر بہت خوش ہوتا ہے ‘ کسان عرض کرتا ہے تمہارا دوسرا سوال کونسا ہے‘ وزیر پوچھتا ہے جھوٹ کیا ہے؟
کسان:۔اس دنیا میں دھن دولت‘ بلڈنگ‘ محل‘ بنگلے‘ سواریاں یہ سب کچھ جھوٹ ہیں۔ وزیر دوسرا جواب سن کر بہت خوش ہوتا ہے‘ کسان پھر پوچھتا ہے تیسرا سوال بھی بتاﺅ۔ وزیر پوچھتا ہے غرض کیا ہے ؟
کسان:۔ تم ایسے کرو میرے گھر آﺅ اس سوال کا جواب میں تمہیں اپنے گھر جا کر بتاﺅں گا ‘ وزیر کہتا ہے کہ تمہاری مہربانی ہو گی کہ اس کا جواب ادھر ہی دے دو‘ کسان انکار کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے گھر چلو اس کا جواب ادھر ہی دوں گا ورنہ نہیں۔
وزیر خاموشی سے کسان کے پیچھے چل دیا اور گھر آنے کے بعد گھر میں داخل ہو جاتا ہے۔ کسان کہتا ہے تجھے تیسرے سوال کا جواب چاہیے وزیر نے جلدی سے سر ہلا دیا! ہاں۔ تو کسان نے کہا کہ تمہارے سامنے ایک رسی سے کتا بندھا ہوا ہے ‘اس کے سامنے ایک پانی سے بھرا برتن ہے جس میں کتا پانی پیتا ہے تم اس برتن کو اٹھا کرپانی پیو ۔وزیر انکار کر دیتا ہے تو کسان تیسرے سوال کا جواب بتانے سے بھی انکار کر دیتا ہے۔ آخر کار وزیر کو خیال آتا ہے میرے اور کسان کے علاوہ کوئی تیسرا آدمی نہیں ‘ پانی پی لیتا ہوں اس میں حرج ہی کیا ہے وزیر کتے کا برتن اٹھا کر اس میں موجود پانی پینے لگا تو کسان نے پینے سے منع کر دیا اور اسے کہا کہ اسے غرض کہتے ہیں اور مزید کہا جو انسان جائز‘ ناجائز ‘ حلال‘ حرام کی تمیز نہیں رکھتا اپنی خواہشات‘ مشکلات‘ مصیبتوں کو پورا کرنے کیلئے ان چیزوں کی تمیز نہیں کرتا اسے ہی تو غرض کہتے ہیں۔ وزیرنے تینوں سوالوں کا جواب سن کرشکریہ ادا کیا اور خوش ہو کر چل دیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں