کہتے ہیں کے طلاق کے نام پر ”عرشِ معلّٰی“ بھی کانپ جاتا ہے۔ آقا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال کاموں میں سے سب سے بُرا کام ”طلاق“ کو ہی قرار دیا ۔ ہمارے معاشرے کو مادیت پرستی نے ایسا لپیٹ میں لے لیا کہ اب ”طلاق“ کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ راقم نے گذشتہ دو سالوں میں جتنی شادیوں میں شرکت کی ان میں سے اکثر کی تھوڑے دنوںمیں طلاق ہو گئی۔ چند واقعات حاضر خدمت ہیں۔ میرے محلے کی مسجد میں نوجوان خطیب جن کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا انتہائی نفیس انسان تھے۔ امامت کے ساتھ ساتھ وہ پیری فقیری بھی کرتے تھے۔ محلے میں ان کے کئی مرید تھے۔ امام صاحب نے کتابیں بھی تصنیف کی تھیں۔ ایک عالم دین نے لاہور کے ایک پوش علاقے کی مسجد کے خطیب کی بیٹی سے ان کا رشتہ طے کروایا۔ شادی انتہائی سادگی سے ہوئی۔ ولیمہ میں مَیں نے شرکت کی جو کہ مسجد کی کمیٹی کے ممبرکے گھر کی چھت پر ہوا ۔ میں اس محلے سے اپنی رہائش ساتھ والے محلے میں لے گیا تھا مگر دوست اور ہم عمر ہونے کی وجہ سے وہ اکثر مجھے ملنے میرے گھر آ جاتے۔ شادی کے تھوڑے ہی دنوں بعد وہ میرے گھر آئے اور سرائیکی لہجے میں کہنے لگے کہ نعیم صاحب میں تو شادی کر کے پچھتا رہا ہوں۔ میں نے مذاق میں ان سے کہا کہ یہ تو ہر مرد پچھتاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں لڑکی بہت چالاک ہے۔ فون پر کسی سے باتیں کرتی ہے مجھے نہیں بتاتی۔ میں غریب آدمی ہوں۔ ان کے مہمان بہت آتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ قاری صاحب اپنے دل کا غبار نکال کر چلے گئے ‘ تھوڑے دنوں بعد مجھے مسجد سے پتہ چلا کہ انہوں نے اپنی بیوی کو ”طلاق“ دے دی ہے اور مسجد کی امامت چھوڑ کر کہیں چلے گئے ہیں۔ دو تین ماہ بعد جب ان سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ لڑکی کا کسی دوسرے لڑکے سے چکر تھا میں نے اس لئے طلاق دی۔
شاہ عالمی عینک مارکیٹ میں دو باپ بیٹا انتہائی شریف اور عینک فٹنگ کے بہترین کاریگر ۔ باپ نے بڑے شوق سے بیٹے کی شادی کی۔ اسی دوران گھریلو جھگڑے ہوئے لڑکی نے اپنی ماں کے کہنے پر لڑکے کو اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے الگ ہونے کیلئے کہا جب لڑکے نے انکار کیا تو لڑکی کے گھر والوں نے کہا کہ ہم ہونے والے بچے کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتے۔ لڑکی نے شادی کے ایک سال میں سے آٹھ ماہ اپنی ماں کے گھر گزارے ‘ لڑکی کی اس دوران بیٹی پیدا ہوئی جو اس کا دادا پال رہا ہے۔ لڑکی نے طلاق لینے کے بعد اس لڑکے سے شادی کر لی جس لڑکے سے اس کا شادی سے پہلے چکر تھا‘ بقول اس کے پہلے شوہر کے ۔
تیسرا واقعہ میرے ایک قریبی دوست کے دوست کا ہے جو کہ مصری شاہ میں کباڑ کا کام کرتا ہے۔ اس کی جہاں دکان ہے وہاں اوپر مکان میں رہنے والے کرائے داروں کی لڑکی سے اس کی آنکھیں چار ہو گئیں۔ چونکہ وہ بلڈنگ اس کی آبائی تھی اس لئے شادی تک نوبت جلدی آ گئی۔ میں خود اس کے ولیمہ میں شریک ہوا۔ ولیمہ والے دن لڑکی کے گھر والوںنے جو کہ (اُردو سپیکنگ) تھے یہ پھڈا ڈالا ہوا تھا کہ لڑکا وہ بلڈنگ جہاں ہم کرائے دار ہیں لڑکی کے نام لگوائے۔ وہاں ان کو سمجھایا گیا کہ وہ بلڈنگ آبائی ہے اس میںبہت سارے حصے دار ہیں۔ شادی کے دو تین دن بعد لڑکا میرے سامنے میرے دوست کے پاس آیا اور اسے کہنے لگا کہ یار مجھے کسی حکیم کے پاس لے جا میری بیوی مجھے نامرد کہتی ہے۔ اس نے یہ بات اپنے گھر والوں کوبھی بتا دی ہے۔ میں بہت شرمندہ ہوں۔ میرے دوست نے کی اسے دوائی بنا کر دی ۔ لڑکی کے گھر والوں کے مطالبات بڑھتے چلے گئے اور آخر کار نوبت طلاق تک پہنچ گئی اور طلاق ہو گئی۔
اسی طرح اچھرہ کے رہائشی میرے ایک قریبی دوست نے مجھے اپنی شادی کا کارڈ دیا۔ میں گھریلو مصروفیات کی وجہ سے شادی والے دن تو نہ جا سکا البتہ ولیمہ کے دن میں وہاں پہنچا۔ محلے میں ہی ٹینٹ لگا کر کھانے کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ دلہن نے آدھے بازو والی قمیض پہنی ہوئی تھی۔ جب اس کے سسرال والے آئے تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دلہن اپنے گھر سے آنے والے تمام خواتین و حضرات کو گلے ملی۔ ٹھیک 27 دن بعد میرے دوست نے مجھے فون پر اطلاع دی کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ لڑکی انتہائی چالاک تھی ‘ اس کی ماں اس سے بھی چالاک تھی۔ جس عورت نے میرا رشتہ کروایا اس نے ہمیں کہا تھا کہ لڑکی گھریلو ہے اس نے کبھی کہیں نوکری نہیں کی۔ کیونکہ نوکری کرنے والی لڑکی سے رشتہ نہ کرنا ہماری شرط تھی۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ وہ کئی پراپرٹی ڈیلروں کے ہاں نوکری کر چکی ہے۔ شادی کے تین دن بعد اس نے کہا کہ میری ماں کی سالگرہ ہے آپ کو انہیں قیمتی سے قیمتی تحفہ دینا پڑے گا۔ دس دن بعد وہ تمام زیور ماں کے ہاں چھوڑ آئی۔ بس اسی طرح نوبت طلاق تک پہنچ گئی اور شادی ایک ماہ بھی برقرار نہ رہ سکی۔
طلاق کی بے شمار کہانیاں اور واقعات ہر محلے میں ہو رہے ہیں۔ ان سب کی وجہ دین سے دوری ہے۔ پہلے وقتوں میں لوگ لڑکے کی سیرت دیکھتے تھے۔ اب معیار صرف اور صرف پیسہ ہے۔ ایران سے امپورٹ ایکسپورٹ کا کام کرنے والے میرے ایک دوست کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ ان کے محلے میں ایک بندہ امریکہ سے واپس آیا۔ اس نے میرے دوست کی بہن سے شادی کی لڑکے والے لالچی تھے۔ امریکہ والا عیاش تھا۔ وہ دو ماہ رہ کر بعد میں امریکہ واپس چلا گیا۔ چار پانچ سال سے اس کا کوئی پتہ نہیں۔ اب شادیوں پر جو ویڈیو فلم بنتی ہے مائیں اپنی بیٹیوں کو خود کیمرے کے آگے کرتی ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ شادی کی فلم گھر گھر دیکھی جانی ہے ہو سکتا ہے ہماری بیٹی کے لئے کوئی اچھا رشتہ آ جائے۔ ماں باپ پیسہ اس لئے دیکھتے ہیں کہ ان کی بیٹی خوش رہے۔ مگر پیسہ ہر چیز نہیں دے سکتا۔ بالخصوص سکون۔ جیسے جیسے بے دینی بڑھتی جا رہی ہے ویسے ویسے یہ پریشانی بڑھتی جا رہی ہے ۔ جس شادی کو ہم شادی نہیں بنائیں گے اور مسنون طریقے سے روگردانی کریں گے تو اس کے نتائج ہمیں دنیا میں ہی بھگتنے پڑیں گے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 243
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں