سوچ انسان کی وہ صفت ہے جس نے اسے اشرف المخلوقات بنایاہے۔ اسی سوچ سے دانشوروں، مفکروں اور نقاشوں نے اس کائنات میں رنگ بھرے ہیں۔ یہی وہ سو چ ہے جس سے نیوٹن، ارشمیدس ، آئن سٹائن اور دوسرے سائنس دانوں نے قدرت کے بے شمار اسرار کو افشاں کیا ہے لیکن قدرت کی بھی یہی عجیب ستم ظریفی ہے کہ بعض اوقات یہی سوچ انسان کے لیے سوہان روح اور اس کے دماغ کے لیے اذیت ناک عذاب بن جاتی ہے اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ سو چ اپنا کنٹرول کھو بیٹھتی ہے وہ مسلسل، بلا وجہ، بے مقصد اور بے اختیار دماغ میں پید اہونے لگتی ہے۔ وہ فضول، بے تکی اور پریشان کن ہوتی ہے اور اس طرح دماغ سے چمٹ جاتی ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود اس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہوتا۔ یہی نہیں بلکہ ان سوچوں کے طابع لوگ ایسے کام اور ایسی حرکتیں بار بار کرنے لگتے ہیںجو ان کی سوچ کی مانند بے معنی، بے مقصد اور پاگل پن کے مشابہ ہوتی ہے۔ تعجب یہ ہے کہ انہیں خود اپنی اس کیفیت اور حرکات کا شدت سے احساس ہوتا ہے اور چاہتے ہیں کہ وہ سب کچھ نہ کریں مگر ان سوچوں نے انہیں ایسا جکڑا ہوتا ہے کہ وہ ان کے پنجے سے بالکل نہیں نکل پاتے۔ سوچ بھری اس بیماری کا نام ماہرین نے O.C.D رکھا ہے۔ O.C.D کی بیماری ان دنوں میں اس قدر عام ہوگئی ہے کہ اس کا جاننا اور سمجھنا ہم سب کے لیے بہت ہی ضروری ہوگیا ہے۔ ناواقفیت کی بنا پر ہم ان مظلوم لوگوں کو ہروقت یہی تلقین کرتے رہتے ہیں کہ وہ سوچنا چھوڑ دیں، فکر کرنا چھوڑدیں۔ کسی نے بھی انہیں نفسیاتی بیمار سمجھ کر انہیں معقول علاج کرانے کی ترغیب نہیں دی۔ O.C.D کی بیما ری کسی بھی عمر میں ہوسکتی ہے۔ اکثر یہ نوجوانی کی عمر ہی سے شروع ہوجا تی ہے اور چونکہ اس عمر میں شرم، ڈر، ندامت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے یہ نوجوان اپنی بیماری چھپاتے رہتے ہیں۔ کسی سے اپنی بے بسی کا ذکر نہیں کرتے مگر جب بیماری بڑھ جاتی ہے تو ان کی عجیب و غریب حرکتیں چھپائے نہیں چھپتیں۔ گھروالو ں کو آخر اس کا علم ہوہی جاتا ہے۔ پہلے تو والدین ان کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں، پھر سمجھاتے ہیں لیکن جب یہ حرکتیں پاگل پن کی حد تک پہنچ جاتی ہیں تو پھر مجبوراً ڈاکٹروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ O.C.D میں فضول سوچیں مختلف انداز سے دماغ میں آنے لگتی ہیں۔ ذیل میں ہم آپ کو ایسے مریضوں کی بتائی ہوئی چند سوچیں مختلف عنوان سے پیش کرتے ہیں۔
ایک ہی لفظ بار با ر دماغ میں آتا ہے؟
ایک ہی فقرہ بار بار ذہن میں آتا ہے؟
مثلاً: آسمان پھٹ پڑے گا۔ زمین ریزہ ریزہ ہوجائیگی۔
فلسفیا نہ سو چ : الف : آنکھیں کیوں گھومتی ہیں۔
مثلاً: ہم کیوں پید ا ہوتے ہیں۔
خواہشات : بار بار کچھ کر بیٹھنے کی شدید خواہش دماغ میں پیدا ہوتی ہے۔ الف: بس کے سامنے آجاو ں۔
مثلاً:چھری لے کر اپنے آپ کو یا کسی کو مار دوں۔
ت: چھت پر سے چھلانگ لگادوں۔
یہ خواہشات اتنی شدید ہوتی ہیں کہ وہ بس کے پاس یا کسی کچن کے نزدیک یا چھت پر نہیں جاتے مبادا کہ وہ یہ عمل کر بیٹھیں۔
دماغ میں T.V کی طرح فلمیں آنا: ان کی سوچ تصویروں اور فلموں کی طرح دماغ میں آتی ہے۔
الف: اپنے قریبی رشتہ داروں کو ناگوار حالت میں اپنے دماغ میں دیکھتا ہوں۔
ناخوشگوار اور نفرت انگیز سوچ:
الف :کفر کے خیالات ذہن میں آتے ہیں۔
ب: بے شرمی اور بے حیائی کے خیالات آتے ہیں۔
متضاد تکرار :ایک ہی موضوع پر ہا ں یا نہیں کی تکرار دماغ میں ہوتی رہتی ہے۔
الف: گھر سے بھاگ جاﺅں، اچھا ہے، نہیں گھر سے نہ بھاگو، یہ برا ہے۔
ب :سگریٹ پینا چھوڑ دوں، نہیں کیوں چھوڑ دوں۔ پیوںگا۔
گندگی، صفائی کاخیال: باربار ذہن میں پاکی اور ناپاکی کا خیال آتاہے، اس لیے بار بار غسل خانے میں جا کر اپنے اوپر گھنٹوں پانی ڈالتے رہتے ہیں کسی چیز کو ہا تھ نہیں لگاتے۔ مبادا کہ ہاتھ ناپاک یا میلے نہ ہوجائیں۔ کسی سے اگر ہا تھ ملا لیا یا کسی کو چھولیا تو باربار ہاتھ دھوتے ہیں۔
بے اطمینانی: دروازو ں کو، پانی کے نلکوں کو، گیس کے چولہوں کو جا کر بار بار دیکھتے ہیں کہ کہیں کھلے تو نہیں رہ گئے۔ اطمینان ہی نہیں ہوتا کہ انہیں صحیح بند کیا ہے یا نہیں۔
چیکنگ: اوپر بیان کی گئی حرکتوں کے علاوہ اور بہت سی چھوٹی موٹی حرکتیں (O.C.D) کے زمرہ میں آتی ہیں۔ آپ نے شاید کبھی ان لوگوں کو بھی دیکھا ہوگا جو سڑک پر لگے ہوئے کھمبے کو چھو کر گزرتے ہیں یافٹ پاتھ پر لگی ہوئی ہر اینٹ پر پاﺅں رکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔ اگر ایک بھی کھمبا چھوٹ جائے یا ایک بھی اینٹ پر پاﺅں رکھنا بھول جائیں تو واپس آئیں گے اور اپنا عمل دہرا کر ہی اطمینان پائیں گے۔
دوسری نفسیا تی بیماریوں کی طرح O.C.D کی اصل وجہ اب تک دریافت نہیںہوئی ہے۔ ماہرین کا مشاہدہ ہے کہ جن والدین کو یہ بیما ری ہے، ان کے بچو ں میں دوسرے بچوں کی نسبت یہ بیماری کئی گناہ زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ T C. اور P.E.T اسکینگ کے ذریعہ اس بیماری میں دماغ کے کچھ حصوںمیں نمایاں تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ ما ہرین اس مرض میں Supportive سائیکو تھراپی کا بھی بہت کامیابی سے استعمال کرتے ہیں۔
اس طریقہ ہائے علاج سے ایک تہائی سے زیادہ مریض بالکل صحت مند ہوجاتے ہیں۔ ایک تہائی وہ ہیں جو بار بار اس مرض میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔ اس میں کچھ ایسے بھی ہیں جن پر دوائیں اثر نہیں کرتیں۔ انہیں ماہرین سرجری کی رائے دیتے ہیں۔ یہ مرض بڑا ہی تکلیف دہ اور پریشان کن ہوتا ہے۔ یہ مسلسل اور فضول سوچیں مریض کو اتنا تنگ کردیتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو پاگل محسوس کرتا ہے اور پھر پاگل سمجھ کر پاگلوں کی سی حرکتیں کرنے لگتاہے۔ براہِ کرم ایسے مریضوں کو بار باریہ نہ سمجھائیں کہ وہ ”سوچنا چھوڑدیں“ فکر کرنا چھوڑ دیں۔ یقین جانئے یہ اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ کبھی نہ سوچتے۔ یہ ان کے اختیار میں ہے ہی نہیں۔ یہ ایک بیماری ہے جس کا علاج انتہائی ضروری ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 336
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں