خودکشی دل کا ارمان نہیں ہوتی‘ زندگی جب موت اور جہنم سے بھیانک موڑ پر آکر رکتی ہے تو عقلِ انسانی اچھے یا برے ہر فعل کے آگے شکست تسلیم کرلیتی ہے ‘ جیتے جی آگے پیچھے قبرکی تاریکی چھاچکی ہو تو سانسوں سے نفرت اور موت کا سکوت آرزو بن جاتا ہے
وہ جب شادی ہو کر پیادیس سدھاری تو نئی زندگی کا ایک نشاط انگیز تصور اس کی ذات کے جھروکوں میں خوشیاں بکھیرنے لگا تھا۔ وہ تصور اس کی سانسوں کومہکا گیا تھا۔ افق سے پھوٹنے والی ہر نئی کرن اس کی ذات کے آنگن میں مسرتوں کے پھول نچھاور کرتی اور ہر آئندہ رات اپنے دامن میں تاروں کی بارات لاتی۔
دن رات کا تسلسل یونہی جاری رہا کہ ایک روز ایک ننھی پیاری سی کلی نے اس کی گود میں آنکھیںکھولیں تو مامتا کا پیار بھرا لمس مسکراہٹ بن کر اسکے ہونٹوں کو چھوگیا لیکن اردگرد سے جو سر گوشیاں اس کی سماعتوں سے ٹکرائیں وہ اسے تھرا گئیں۔ وحشت کا ایک گھنا سایہ اس کی آنکھوں میں لہرانے لگا۔ اس کے ”پیا صاحب“ کے تیور بھی یک لخت ہی بگڑ گئے۔ بہرحال اس کی پہلی مرتبہ کی ”خطا “ تو جیسے تیسے زہر مار کرلی گئی اور آئندہ بیٹا پیدا کرنے کی امید پر ضبط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا گیا لیکن اس پر قیامت تو تب ٹوٹنا شروع ہوئی جب تسلسل کے ساتھ ایک کے بعد دوسری بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ اہل خانہ اور دیگر لوگوں کے طعنے اور کاٹ دار باتوں پر ہی اس کا مقدر کیا ماتم کناں ہوتا اس کے ”پیا صاحب “کو بھی یہ کوکھ نحوست بھری معلوم ہونے لگی اور ہر وقت کی لعن طعن کے ساتھ ذہنی و جسمانی اذیت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔
بچیوں نے رفتہ رفتہ شعور میں قدم رکھا تو باپ کا رویہ ان کے معصوم سے دل کو چھلنی کرجاتا، وہ ماں کے پہلو میں بیٹھ کر سسک سسک کر روتیں اور پلو سے اپنی ماں کے آنسو بھی پونچھتی جاتیں۔ وقت گزرتا گیا لیکن ان کے باپ کے دل خراش میں کوئی کمی نہ آئی۔ رفتہ رفتہ انہیں بھی اپنا وجود منحوس نظر آنے لگا بالآخر انہوں نے اس ”کلنک کے ٹیکے“ کو اپنے سنگدل باپ کے ماتھے سے مٹانے کا تہیہ کرلیا۔
دونوں بڑی بہنوں نے مع اپنی معصوم بہن کے، اپنے جسموں کو ایک مضبوط رسی سے باندھا اور ایک رواں نہر میں ڈوب کر خود کشی کرلی۔
گھر سے یا ان کے پاس سے جو رقعہ برآمد ہوا اس میں انہوں نے جو بات یا خودکشی کے ارتکاب کاجو سبب بیان کیا، اس کی تفصیل و مفہوم اس با ت کے گرد گھومتی ہے جو کہ انہوں نے تحریر کی یعنی ان کا باپ ان کی ماں کو یہ طعنے دے دے کر اذیت دیتا ہے کہ اس نے بیٹیاں پیدا کردی ہیں۔
چند مہینے قبل یہ واقعہ سننے میں آیا تھا۔ یہ واقعہ کوئی ایک آدھ واقعہ نہیں بلکہ ایسے واقعات اور ان کے محرکات ہمارے معاشرے کے مزاج کا جزو بن چکے ہیں۔ کئی لوگوں نے تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے الٹا ان بہنوں کو موردہ الزام ٹھہرایا اور سنگدل قراردیا ہے۔ اقدامِ قتل یا خودکشی جیسے سنگین جرم کے ارتکاب کے پیچھے کتنے بھیانک اور کرب انگیز نفسیاتی عارضے اور معاشرتی مسائل ہوتے ہیں۔ خودکشی دل کا ارمان نہیں ہوتی۔ زندگی جب موت اور جہنم سے بھیانک موڑ پر آکر رکتی ہے تو عقلِ انسانی اچھے یا برے ہر فعل کے آگے شکست تسلیم کرلیتی ہے اور اس میں پورا معاشرہ ذمہ دار ہے۔
”بیٹیاں پیدا کردی ہیں“ ان الفاظ کے گرد گھومتی کہانی کا کوئی سنگدل شخص ہی نظارہ کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ ایسے مرد حضرات جو خواتین کو لڑکی یا لڑکا ہونے یا نہ ہونے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اگر ان کی” انا “ اور نام نہاد ” غیرت “ گوارا کرلے تو جدید سائنس کا طمانچہ سہہ کر اس بات کو جان لیں کہ لڑکی یا لڑکا پیدا ہونے کا تمام دارو مدار مرد پر ہے، عورت اس شے سے مستثنیٰ ہے کہ لڑکی ہوتی ہو یا لڑکا۔
وہ زندگی کا تصور ہی دل دہلا دینے کے لیے کافی ہے جب زندگی کی کال کوٹھڑی میں دور امید کے بند روشن دان سے کوئی کرن دامن پرنہ پڑتی ہو۔ یقینا ان کی خودکشی کا تمام وبال اور ذمہ داری ان کے جاہل باپ اور جہالت کی دلدل میں دھنسے اس معاشرے پر عائد ہوتی ہے۔ اول تو اس نام نہاد ”مسلم پاکستانی معا شرے“ میں بیٹی کا باپ ہونا ہی جرم ہے کیونکہ بیٹی کا بوجھ کوہ احد کے بوجھ سے کم نہیں سمجھا جاتا جو کہ ایک باپ پر ڈالاجاتا ہے۔
دوسری اوراہم بات یہ ہے کہ کسی بیٹی کے لیے انا کے ان غلام مردوں کی بیٹی ہونا جرم ہے جن کی اپنی خواہشات ِ نفسانی کی ماری ہوئی ”انا“ اور نام نہاد”غیرت“ کی اصلیت کھوکھلی سیپی سے زیا دہ حیثیت نہیں رکھتی۔ کبھی ان ”غیرت مند“ مردوں میں اس حقیقت سے نظریں چار کرنے کی ہمت ہوئی ہے کہ آج جو عورت ان کے لیے ”بوجھ ‘ ”انا کا مسئلہ“ اور ”بے غیرتی کا نشان“ ہے اور اس کے ساتھ حسن معاملہ کرنا ”نامردی ہے“ کل تک بے دست و پا اسی عورت کے احسانات کے تحت اس کا محتاج ہوتا تھا اور آج ”غیرت مند مرد“ بن گیا ہے اور وہی عورت اس کے لیے محسن اور قابلِ احترام ہونے کی بجائے اس کے پاﺅں کی جوتی اور زر خرید لونڈی ہے؟ آج اس کی انا، اس احسان فراموشی پر پیچ و تاب کیوں نہیں کھاتی؟
مائیں بہرحال تمام ہی عظیم ہوتی ہیں۔ ایک محنت کش کی ماں سے لے کر سلطنت کے تاجدار کی ماں سب ایک ہی درجہ رکھتی ہیں۔ ان تین لڑکیوں کا کیاقصور تھا جس کی انہوں نے اس قدر اذیت ناک سزا پائی؟ ان کا جرم صرف اور صرف ”لڑکی“ ہونا تھا اور ان کی ماں کا جرم لڑکی پیدا کرنا۔ وہ بھی یقینا اپنے عورت ہونے کے جرم کی پاداش پارہی ہے یقینا وہ بچیاں قیامت کے دن اپنے باپ کا گریبان پکڑیں گی اور اپنے رب سے فریاد کرینگی کہ اس شخص کی وجہ سے ہم نے اس حرام اور قبیح فعل کا ارتکاب کیا تھا۔ آج جو سزا ہماری ہے اس سے زیادہ کا یہ شخص حقدار ہے۔
اس سے مجھے وہ حدیثِ مبارکہ یادآرہی ہے جس کا مفہوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں کو باہم ملاتے ہوئے فرمایا کہ اگر کسی شخص کو اللہ عزوجل نے تین بیٹیاں دیں پھر اس نے ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی اور انہیں آسائش، شفقت اور حسن سلوک سے پالا پوسا۔ پھر اللہ عزوجل کا ڈر دل میں رکھتے ہوئے نکاح کرکے رخصت کیا تو وہ اور میں جنت میں ان دو انگلیو ں کی مانند نزدیک ہوں گے۔ کسی نے عرض کی ”یا رسول اللہ! اگر کسی کی دو بیٹیا ں ہوں تب بھی ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہاں! تب بھی “ اور ایک روایت کے مطا بق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیٹی کے متعلق بھی یہی فرمایا۔
ہمیں اپنی معاشر تی اقدار کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں استوار کرنا چاہیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اوہام پرستی کا قلع قمع کرنا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو مدنظر رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی بیٹیوں کے ساتھ برتی گئی شفقت اور حسن سلوک سے درس حاصل کرتے ہوئے اسے اپنانا چاہیے تاکہ ہمارا معاشرہ جس جہالت اور گمراہی کے آخری دہانے پر کھڑا ہے، اسے پھلانگنے سے قبل سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنالے اور مقدس اسلامی معاشرہ کی تشکیل نو ہوسکے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں