طلاق کے عمل سے اللہ تعالیٰ کو شدید نفرت اور بغض ہے اور جو لوگ بلاوجہ یہ حرکت کرتے ہیں یعنی بغیر کسی ٹھوس سبب کے محض کسی نفسانی غرض کے تحت اپنی بیویوں کو طلاق دیتے ہیں، وہ بعد میں بدترین حالات سے دوچار ہوتے ہیں‘نئی بیویاں انہیں شدید ترین پریشانیوں میں مبتلا کرتی ہیں
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک حلال کاموں میں سب سے زیادہ مبغوض (یعنی قابل نفرت) کام طلاق ہے“۔ (ابوداﺅد)
اس حوالے سے بہت سے واقعات میرے سامنے آئے تو اندازہ ہوا کہ واقعتا طلاق کے عمل سے اللہ تعالیٰ کو شدید نفرت اور بغض ہے اور جو لوگ بلاوجہ یہ حرکت کرتے ہیں یعنی بغیر کسی ٹھوس سبب کے محض کسی نفسانی غرض کے تحت اپنی بیویوں کو طلاق دیتے ہیں، وہ بعد میں بدترین حالات سے دوچار ہوتے ہیں، نئی بیویاں انہیں شدید ترین پریشانیوں میں مبتلا کرتی ہیں، وہ اولاد کے حوالے سے طرح طرح کے مسائل میں گھر جاتے ہیں اور زندگی ان کے لیے مصیبت اور وبال بن کر رہ جاتی ہے۔ دیکھئے، نبی کریم کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ایک ایک بات اور ایک ایک وعید اپنے اندر کس قدر اٹل حقیقت رکھتی ہے۔
حاجی محمد علی پیشے کے اعتبار سے قصاب ہیں۔ لاہور کے ایک معروف علاقے میں کاروبار کرتے ہیں۔ بہت ایماندار اور زیرک انسان ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی شادی 1967ءمیں اپنی پھوپھی کی بیٹی سے ہوئی لیکن بدقسمتی سے میری بیوی کا میرے والدین سے نباہ نہ ہوا اور میں نے اسے طلاق دے دی۔
دوسری شادی 1971ءمیں ہوئی۔ اس خاتون سے میرے یکے بعد دیگرے تین بیٹے پیدا ہوئے اور تینوں فوت ہوگئے۔ چوتھی بیٹی تھی۔ وہ جوان ہوئی تو اس کی میں نے شادی کردی۔ اس کے دو بیٹے تھے کہ اسے طلاق ہوگئی اور اب وہ دونوں بیٹوں سمیت میرے گلے پڑی ہوئی ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ سزا میرے اس گناہ کی ہے جو میں نے پہلی بیوی کو طلاق دے کر کیا تھا۔
.2ڈاکٹر عطا الرحمن صاحب نے بتایامیرے ایک کزن ہیں۔ وہ پانچ بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ باپ فوت ہوچکے تھے۔ انہوں نے کمال ایثار سے کام لیا۔ خود تو میٹرک کرکے پرائمری اسکول ٹیچر ہوگئے مگر باقی چاروں بھائیوں کو اعلیٰ ترین تعلیم دلائی۔ اسی لئے ان کی شادی تاخیر سے ہوئی اور 36، 37 سال کی عمر میں وہ گھر بسا سکے۔ ان کی بیوی لاہور کی ایک معزز تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور یتیم تھی۔
شادی کے بعد اللہ نے انہیں ایک بیٹا عطا کردیا لیکن انہیں پتہ چلا کہ ان کی بیوی ٹی بی کی مریضہ ہے تو وہ بہت خوفزدہ اور بددل ہوئے۔ اصل میں حالات نے انہیں بہت کفایت شعار اور جزرس بنادیا تھا اور وہ پیسہ پیسہ بچانے کے عادی ہوگئے تھے۔ اس لئے جب انہیں اندازہ ہوا کہ ٹی بی کے علاج پر انہیں بہت خرچ کرنا پڑے گا اور بڑی بھاگ دوڑ کرنی ہوگی تو انہوں نے بیوی کو طلاق دے دی حالانکہ اس زمانے میں ٹی بی کا علاج سرکاری سطح پر مفت ہوتا تھا اور اس کا مریض شفایاب ہوجاتا تھا۔
بہرحال میرے کزن کی بیوی بے چاری دوبارہ اپنے بھائیوں اور بھابھیوں کی محتاج ہوگئی اور تھوڑی ہی مدت میں فوت ہوگئی، اس کے بعد جلد اس کا بچہ بھی وفات پاگیا۔
موصوف نے کچھ ہی عرصے کے بعد دوسری شادی کرلی، لیکن نئی بیوی نے ان کے گھر میں آتے ہی فساد برپا کردیا۔ اسے اعتراض تھا کہ یہ صاحب بہت کنجوس ہیں اور بخیل ہیں چنانچہ روز لڑائی ہونے لگی اور بمشکل دو ماہ گزرے تھے کہ وہ محترمہ تنگ آکر رسی تڑاکر بھاگ گئی اور اس نے طلاق لے لی۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایااب میرا یہ کزن رنڈوا ہوگیا اور دیر تک اسے نئی شادی کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ اس نے فرصت سے فائدہ اٹھایا، منشی فاضل کیا، ایف اے کیا، بی اے کیا اور گریڈ گیارہ میں اس کا تقرر ہوگیا۔ پھر اس نے ایم اے کیا اور اس کی ترقی سولویں گریڈ میں ہوگئی لیکن تقرر کے معاملے میں محکمے کے اہلکاروں سے اس کا جھگڑا ہوگیا، اس کی ترقی منسوخ ہوگئی اور گیارہویں گریڈ ہی میں اس کی تنزلی کردی گئی۔ اس نے احتجاج کے طور پر یہ تنزلی قبول نہ کی، گھر بیٹھ گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی ملازمت ختم کردی گئی۔
اس دوران میں اس نے تیسری شادی کرلی تھی اور اس سے ایک بیٹی بھی تھی۔
ملازمت سے برطرفی کے ساتھ نئی بدنصیبی یہ ہوئی کہ ایک حادثے میں اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور وہ کوئی ڈیڑھ سال تک زیر علاج رہے۔ زخم بار بار خراب ہوتا رہا اور بار بار اسے پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ موصوف کی عمر تقریباً 75 سال ہوگئی ہے۔ ملازمت کی مدت تقریباً 25 سال ہوگئی تھی اور اسے آسانی سے پنشن اور گریجویٹی وغیرہ مل سکتی تھی لیکن وہ ایک ٹانگ سے معذور ہے لنگڑا کر چلتا ہے اور بھاگ دوڑ نہیں کرسکتا۔ اس لئے مشکل اور پیچیدہ دفتری جھمیلوں سے عہدہ برآنہیں ہوسکا اور یہ معاملہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔
حالات نے اسے کئی امراض میں مبتلا کردیا ہے اور وہ ہائی بلڈپریشر کا مستقل مریض بن گیا ہے۔ اس کی راتوں کی نیند اڑگئی ہے اور اکلوتی جوان بیٹی کا سوچ سوچ کر وہ ہلکان ہوجاتا ہے، وہ اعتراف کرتا ہے کہ مشکلات اور مصائب کا یہ سارا وبال اس پر اس لیے پڑا کہ اس نے اپنی بے گناہ بیوی کو طلاق دی اور اس کے علاج پر خرچ کرنے میں کنجوسی کی۔ اس میں یہ عبرتناک بات ہے کہ بیوی کے علاج پر اس زمانے میں ڈیڑھ دو ہزار روپے خرچ ہونے تھے لیکن اس کے بدلے اسے اپنی ٹانگ ٹوٹنے پر کم از کم ساٹھ ہزار روپے خرچ کرنے پڑے۔ ہر تکلیف اور پریشانی اس پرسزا کے طور پر تھی ۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 363
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں