بچوں سے کبھی سگریٹ نہ منگوائیں
میرے والد سگریٹ پیتے تھے اور مجھ سے ہی منگواتے تھے۔ بڑا ہوا تو سگریٹ کی بو میرے لئے مانوس تھی۔ لہٰذا مجھے اس کی عادت پڑنے میں دیر نہ لگی۔ مجھے سگریٹ کی عادت ہے۔ اب سینے میں درد رہنے لگا ہے، کھانسی بھی بہت آتی ہے۔ میرے دوست کہتے ہیں کہ پھیپھڑے متاثر ہیں مگر مجھے یقین نہیں اور اتنی دنیا سگریٹ پی رہی ہے، کسی کو کچھ نہیں ہوتا، انجانے خوف کے سبب ٹیسٹ بھی نہیں کرواتا۔ (ریاض محمود، چکوال)
مشورہ:دنیا میں ہونے والی اموات میں اور خاص طور پر کینسر کی بیماری میں تمباکو نوشی کا بہت دخل ہے۔ اس سلسلے میں کی جانے والی تحقیقات کے مطابق سگریٹ نوشی انسان کی زندگی کے دن کم کرتی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ انسان کے جسم کے پورے نظام کو متاثر کرڈالتی ہے۔ سگریٹ بلاشبہ نشہ ہے۔ اگر اس کا استعمال بہت زیادہ ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے نشہ سمجھنا چھوڑ دیا جائے۔ اپنے بچوں سے کبھی سگریٹ نہ خریدوائیں بلکہ جہاں سگریٹ، پان اور نسوار جیسی مضر صحت چیزیں فروخت ہوتی ہوں، ایسی جگہ ان کوجانے بھی نہ دیں۔ بچوں کوشروع ہی سے ان چیزوں سے نفرت دلانی ضروری ہے اور اس کے لئے پہلے آپ کو سگریٹ چھوڑنا ہوگی۔ سینے میں درد، کھانسی وغیرہ کیلئے کسی بھی ڈاکٹر سے طبی معائنہ کروائیے تاکہ وجہ سامنے آئے۔ کبھی کبھی چھوٹی چھوٹی تکلیفیں بڑھ کر بڑی تکلیف کی صورت میں سامنے آجاتی ہیں۔
یہ حالات سے فرار ہے
میں نے اپنی چھوٹی سی زندگی میں یہ سمجھا کہ اگر گھر کے سرپرست کا رویہ بگڑا ہوا ہو تو سب گھر والوں کا رویہ بگڑ جاتا ہے۔ خاص طور پر شوہر بیوی سے لڑے جھگڑے، اس کی عزت نہ کرے تو بچے بھی ماں کا وہ احترام نہیں کرتے جو انہیں کرنا چاہئے۔ میں اپنے گھر کے ماحول سے بے حد پریشان ہوں۔ میرے دونوں بھائی والد کو والدہ سے لڑتے دیکھتے ہیں تو خود بھی بدتمیزی کرتے ہیں۔ چھوٹی بہن ہونے کی وجہ سے بڑے بھائیوں کو کچھ نہیں کہہ سکتی۔ امی بہت صبر کرنے والی ہیں۔ کبھی کچھ نہیں کہتیں۔ بھائی کام پر نہیں جاتا۔ دو دن کہیں کام کرتا ہے پھر چھوڑ دیتا ہے۔ میں ان حالات پر کڑھتی ہوں۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے، پھر بھی یہ لوگ ماں کی عزت نہیں کرتے۔ دل چاہتا ہے ان حالات پر خودکشی کرلوں۔ ( آرزو، پنجاب)
مشورہ:ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔ بھائی جو غلطی کررہے ہیں، اس پر انہیں سمجھایا جاسکتا ہے، وہ نہ مانیں تو آپ کو ان کیلئے پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ تکلیف دہ رویے پر تکلیف تو ہوتی ہے لیکن ایسی بھی نہیں کہ خود اپنی زندگی بے کشش محسوس ہونے لگے اور خودکشی کے بارے میں سوچا جائے۔ یہ تو حالات سے فرار ہے اور کیا اس طرح بھائیوں کی اصلاح ممکن ہے، یقینا نہیں بلکہ اس طرح تو آپ خودکو اور ماں کو بھی ہمیشہ کیلئے اذیت کا شکار بنادیں گی۔ لہٰذا اس انداز سے سوچنا ترک کردیں۔ آپ اپنا رویہ بہتر رکھیں اور خود کو اس لائق بنائیں کہ کسی پر بھی انحصار نہ رہے تاکہ والدہ کی بھی مدد کرسکیں اور انہیں خوش رکھنے کے قابل بنیں۔
آخر ناراض کیوں ہیں
آج سے پانچ سال پہلے جب میں نے کالج میں داخلہ لیا تو ایک شفیق اور رحمدل پروفیسر سے عقیدت ہوگئی۔ وہ بھی مجھے اپنوں کی طرح سمجھتے تھے اور تابعدار شاگرد ہی سمجھتے تھے۔ مجھے ان سے اتنی محبت تھی کہ ایک منٹ بھی جدا نہیں رہ سکتا تھا۔ پھر جب میں تھرڈ ائیر میں گیا تو کچھ عرصے بعدمیں ایک کیس میں جیل آگیا اور پھر مجھے عمر قید کی سزا ہوگئی۔ میں نے جیل سے ان کو کافی خطوط لکھے مگر انہوں نے مجھے کبھی ایک خط کا جواب نہ دیا۔ میں نے لوگوں سے ان کے بارے میں معلوم کروایا کہ آخر وہ میرے خط کا جواب کیوں نہیں دیتے، مجھ سے کیوں ناراض ہیں تو وہ خاموش ہوجاتے ہیں، شاید وہ میرے جیل میں ہونے کی وجہ سے ناراض ہیں اور مجھے جب بھی ان کی یاد آتی ہے تو بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو گرنے لگتے ہیں۔ لاکھ روکنے کے باوجود آنسو رکنے کا نام نہیں لیتے لیکن رونے سے بھی دل کو سکون نہیں ملتا۔ (محمود، راولپنڈی)
مشورہ:احترام کی حد تک ایک شاگرد کا اپنے استاد سے لگاﺅ رکھنا اچھی بات ہے لیکن ایک منٹ بھی جدا نہ ہونا درست رویہ نہیں۔ ایسے رشتوں میں محبت کا یہ انداز تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ محبت پر تو سب کا حق ہوتا ہے۔ بھائی بہن، عزیز و اقارب وغیرہ۔ آپ جس کسی وجہ سے جیل آئے، یہ بات انہیں پسند نہ ہوگی۔ ایک اچھا استاد اپنے شاگرد کو بھی اچھے مقام پر دیکھنا چاہتا ہے لیکن آپ کا معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ ہوسکتا ہے وہ اس وجہ سے آپ سے ملنے نہ آئے۔ بہرحال آپ کو بھی ان کا خیال چھوڑنا ہوگا۔ یوں بھی آج کل آپ شدید مایوسی کے دور سے گزررہے ہیں۔ لہٰذا آنسو تو نکلنا ہیں اور ایک شفیق ٹیچر کی یاد کے تحت ہی آنسو ہیں آپ کو رونے کی وجہ مل جاتی ہے جہاں تک سکون نہ آنے کی بات ہے تو جیل میں کیسے سکون آتا ہے، یہ تو جگہ ہے ہی بے سکون ہونے کی۔ یہاں اگر سکون نصیب ہوسکتا ہے تو غلطیوں اور گناہوں کی دل سے توبہ کرنے سے اور آئندہ کوئی غلطی نہ کرنے کا عہد کرکے ہی اطمینان ممکن ہے۔
پہلے والی بات نہیں
ہر چیز بری لگتی ہے میں نے سوچا شاید ٹھیک ہوجاﺅں گا لیکن طبیعت بگڑتی گئی۔ ڈاکٹر کو دکھایا، انہوں نے دوا دی جو اب تک لے رہا ہوں۔ میرے ڈاکٹر نے یہ بھی کہا تھا کہ ایسے لوگ خودکشی کرسکتے ہیں جنہیں ڈپریشن ہوتا ہے مگر خودکشی کرنے کو تو دل نہیں چاہتا، ہاں البتہ ڈر لگتا ہے کہ ایسی حالت نہ ہوجائے۔ میں جینا چاہتا ہوں۔ زندگی میں ترقی کرنیکی خواہش ہے مگر وہ پہلے والی بات نہیں یعنی ایک اذیت سی ہے۔ (رضوان شاہ، لاہور)
مشورہ:زندگی میں خوشی محسوس نہیں ہوتی، مگر ضروری نہیں کہ یہ لوگ خودکشی کرلیں۔ آپ کو کسی ڈاکٹر نے یہ کہا ہے تو آپ نے اپنے حوالے سے ایسی بات سوچنا شروع کردی جبکہ پہلے آپ کا اس طرف دھیان نہیں جاتا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ڈاکٹر کو بھی اس طرح کی بات نہیں کرنی چاہئے تھی۔ بہرحال آپ اپنی حالت کو خود بہتر محسوس کریں۔ جینے کی خواہش رکھیں اور خوشی سے جینے کی عملی کوشش بھی کریں۔ مثلاً کہیں سیر کھلی فضا میں چہل قدمی اور اپنے اہل خانہ کے مسائل و معاملات میں دلچسپی سے آپکی توجہ اپنی ذات کو مایوسی سے ضرور ہٹائے گی۔ زندگی کی خوشیاں خودبخود جھولی میں نہیں آگرتیں، انہیں حاصل کرنا پڑتا ہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 476
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں