وظائف اور عملیات اس وقت کام آتے ہیں جب انسان جدوجہد اور شبانہ روز محنت کرتے کرتے تھک جاتا ہے لیکن ناکام اور نامراد رہتا ہے۔ یہاں یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ کوئی شخص بغیر عملی کوشش کے یہ توقع رکھے کہ وہ صرف وظیفوں اور عملیات سے ،دولت مند بن جائے گا تو یہ ممکن نہیں۔ ایسے ہی اگر کوئی طالب علم کتاب کو ہاتھ لگائے بغیر صرف دعا اور روحانی عمل کی قوت سے پاس ہونے کی امید رکھتا ہے تو اسے سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
وظیفے اور روحانی عمل کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب اللہ کے بندے کی اس کاوشوں کے باوجود ٹوٹ گئی ہو۔ امید سراب بن گئی ہو۔ پریشانیوں بے سروسامانیوں مایوسیوں اور بیماریوں سے نجات کا کوئی راستہ نظر نہ آتا ہو تب روحانیت مدد کے لئے آگے آتی ہے۔
ایک بنیادی حقیقت ذہن میں رکھیں جو ہمارا عقیدہ بھی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کوئی عمل کریں، کوئی بھی کام کریں بات اللہ تعالیٰ تک ضرور پہنچتی ہے۔ اس کی ذات باری تعالیٰ نے آخری فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ شفاءدینے والا ہر مصیبت کو ٹالنے والا اور ہر مشکل کو آسان کرنے والا اللہ ہی ہے۔
روحانی علوم اللہ کے ہی عطا کردہ ہیں۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ اللہ اپنے ہی عطا کئے ہوئے علم کی خلاف ورزی کرے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ نماز برائیوں سے بچاتی ہے لیکن میں نماز باقاعدگی سے ادا کرتا ہوں پھر بھی برے کام سے نجات حاصل نہیں کرسکتا۔ اس شخص کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو یہ کہے کہ میں نے رات کو ایک تولہ سنکھیا کھایا تھا تو میں زندہ کس طرح ہوں اس کے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس نے جو کچھ کھایا تھا وہ سنکھیا نہیں تھا اس سے ملتی جلتی کوئی اور چیز ہوگی۔ یہی جواب اس شخص کیلئے بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ وہ نماز باقاعدگی سے پڑھتا ہے لیکن برے کاموں سے نجات حاصل نہیں کرسکا۔ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ یہ شخص نماز نہیں پڑھتا بلکہ نماز جیسی حرکات و سکنات کرتا ہے۔ وہ نماز عادت پوری کرنے کے لئے پڑھتا ہے لیکن اس کے ذہن لاشعور میں گناہوں کی پرورش ہوتی رہتی ہے۔
یہی وہ نمازیں ہیں جن کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ نمازیں تمہارے منہ پر مار دیں جائیں گی۔ ہمارے وظیفے اور عملیات بھی ایسے ہی ہیں کہ ہمارے ذہن مجرمانہ خیالات اور دنیاوی مسائل سے بھرے ہوئے ہیں اور ہماری زبان اپنے آپ ہی وظیفے کے الفاظ دہراتی جاتی ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم اللہ کے حضور اپنی عرضداشت پیش کررہے ہیں۔ نماز میں ہم اللہ کی حمد و ثنا بیان کررہے ہوتے ہیں۔
ہماری زبان تو الفاظ دہرارہی ہوتی ہے لیکن ہمارا دھیان کہیں اور ہوتا ہے۔ وظیفے میں بھی یہی اصول کارفرما ہوتا ہے۔ بے روح نمازیں اور بے روح وظیفے کسی کام نہیں آتے۔ کبھی دنیا کو بھول کر نماز اور وظیفہ پڑھیں تو آپ کو نتائج حیران کردیں گے۔ ایک شخص نیکوکار ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ صرف ایک گناہ کرنے کا عادی ہے تو یقین جانیے کہ اس کی تمام نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں۔ اس شخص کا کوئی وظیفہ کامیاب نہیں ہوسکتا جو فریب کار ہے۔ فریب کاری سے دوسروں کے پیسے ہضم کرجاتا ہے۔ رشوت خور ہے۔ اس کی ہر حرکت حقوق العباد کے منافی ہے۔ یہاں تک کے وہ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کو بھی دھوکا دینے سے گریز نہیں کرتا۔ بدکار عورتوں اور مردوں کے ساتھ اس کے گہرے مراسم ہیں اور اسے وہ بڑا اعزاز سمجھتا ہے۔ کاروبار میں بددیانت ہے۔ جھوٹ اس کے خون میں شامل ہے۔ دنیاوی نمائش پسندی اور خودپسندی کے لئے ناجائز ذرائع سے پیسہ بٹورنا اور ناجائز کاموں میں اڑانا اس کا مشغلہ ہے۔ ایسا شخص دن رات وظیفے کرتا رہے۔ نمازیں اور تہجد بھی پڑھتا رہے۔ ان سے نہ صرف اسے کچھ حاصل ہوگا بلکہ یہی وظائف ایک شر بن کر اس کے ذہن اور دل پر مسلط ہوجائیں گے۔ ایسا شخص جب تک سچے دل سے گناہوں سے توبہ نہ کرے اپنے کردار کو نہ بدلے کفارہ ادا نہ کرے تب تک اس کیلئے نجات کے تمام راستے بند رہیں گے۔ انسان کا ذہن دوغلا ہے۔ ایک طرف تو محنت و مشقت کے ارادے کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی سہل پسند بھی ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک ارادہ کرلیا اور اس کے مطابق چل پڑے لیکن چند قدم ہی چلنے سے ذہن کا دوسرا پہلو بیدار ہوگیا اور قدم رکنے لگے۔ ذہن کے اس پہلو نے یقین کو شک میں بدل دیا اور ہم آگے بڑھنے کی بجائے الٹے قدم چل پڑے۔ یہ انسان کی کمزوری اور بدنصیبی ہے کہ اس کے ذہن میں وہم اور شک و شبہ بھی یقین کیساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بھی یہی حکم دیا تھا کہ شک میں نہ پڑنا لیکن ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کے دماغ میں شک ڈال دیا جس کے نتیجے میں حضرت آدم علیہ السلام جنت سے نکالے گئے۔ یہ نہ سمجھتے کہ وہم اور شک صرف روحانی قوتوں کو کمزور کرتا ہے بلکہ اس کے اثرات جسمانی بھی ہوتے ہیں۔ اگر انسان اللہ اور قرآن کے بتائے ہوئے طریقوں پر پورے یقین سے زندگی کے راستے متعین کرتا چلا جائے تو اس کے دماغ کے خلیے اپنا پورا کام کرتے رہیں گے اور اگر دماغ کو وہم اور شک میں الجھا لیا جائے تو دماغ کے خلیوں میں ٹوٹ پھوٹ ہونے لگتی ہے پھر جب دماغ کو انسان یقین اور وہم کی کشمکش میں مبتلا کرلیتا ہے تو دماغ کے خلیے تعمیری کام چھوڑ دیتے ہیں اور ان میں شکست و ریخت کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ انسان کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالتا ہے اور ان خوبیوں کا اظہار کرتا ہے جن سے اس کی شخصیت محروم ہے۔ علم روحانیت اتنا گہرا سمندر ہے جس کی تہہ کے راز پالینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لئے تارک الدنیا ہوکر شب و روز کے محنت کی ضرورت ہے جسے کوئی عام انسان دوچار دنوں کے لئے برداشت نہیں کرسکتا۔ علم روحانیت کے ساتھ آپ اتنا ہی تعلق رکھیں یہ نہ سوچنے لگیں کہ ان وظائف اور عملیات کا اثر کس طرح ہوتا ہے۔ صرف یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اثر نہیں ہوا تو کیوں نہیں ہوا تو کیوں نہیں ہوا۔ کیا اس میں کوئی کمی بیشی رہ گئی یا کوئی غلطی ہوگئی۔ اگر ہم دوران وظائف اپنے اخلاق کردار کی برائیوں کو سینے سے لگائے رکھیں گے اور اعمال بد سے اجتناب نہیں کریں گے تو یہ وظائف الٹا اثر کریں گے۔ یعنی مزاج غصہ زود پشیمانی چڑچڑاپن بے چینی وغیرہ جس کا بظاہر کوئی جواز نہیں ہوتا لیکن وہ اپنے گھر والوں کو دوستوں وغیرہ کو کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ یاد رکھئے کے آیات قرآنی اور وظائف کالے جادو کے الفاظ نہیں کہ آپ ذہن میں ہر طرح کی بدی اور نیت میں شیطانی رجحانات رکھ کر اللہ کے اس کلام کو دہراتے چلے جائیں گے اور ان سے آپ مطلوبہ نتائج حاصل کریں گے۔ آپ خوش ہوں گے آپ پر الٹے اثرات نہ ہوں۔ مثلاً اگر آپ کالے جادو سے اپنا کوئی مطلب نکلوارہے ہوں تو اس دوران آپ جتنے بھی برے کام اور اپنی نیت اور ذہنیت میں جتنی زیادہ شیطانیت سے منسوب ہے آپ کو اتنے ہی بہتر نتائج حاصل ہونگے کیونکہ کالا جادو شیطان سے منسوب ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی روحانی عمل یا کوئی وظیفہ بتایا جاتا ہے تو لازمی ہے کہ شر کے بجائے ذہن اور نیت میں خیر و خلوص اور خیالات میں پاکیزگی رکھی جائے۔ گناہوں سے توبہ کی جائے اور آئندہ گناہوں سے بچا جائے تو اس وظائف کے ایسے حیران کن نتائج نکلیں گے کہ عقل حیران رہ جائے گی۔ برائیوں میں جو سب سے پہلے بری عادت پیدا ہوتی ہے وہ ہے جھوٹ بولنا جھوٹ دین اور ایمان کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے۔ جھوٹ بولنے والے افراد کا کوئی وظیفہ یا روحانی عمل اثر نہیں دکھاتا۔ اسی طرح دوسری برائیاں دھوکہ بازی، فریب، کینہ، حسد، ماں باپ کی نافرمانی، غیبت اور دیگر برائیاں شامل ہیں۔ اگر آپ ان تمام برائیوں سے سچے دل سے توبہ کریں تو کامیابی ضرور ہوگی اور ضرور اچھے نتائج حاصل ہوں گے یہ توبہ اور اس پر عمل آپ کی کوشش کے بغیر ممکن نہیں۔ بیشتر خواتین و حضرات توقع رکھتے ہیں کہ خود انہیں کوئی جدوجہد نہ کرنی پڑے اور کوئی چھومنتر جیسا وظیفہ مل جائے۔ مثلاً ایک شخص نشے کا عادی ہے۔ نشہ چاہے کوئی بھی ہو۔ شراب، چرس، ہیروئن یا کسی عورت کے عشق کا بھی ہوسکتا ہے اور وہ شخص کسی روحانی عامل سے کہتا ہے کہ وہ فلاں نشے سے نجات چاہتا ہے تو عامل اس کے لئے نقش تیار کرتا ہے یا کچھ پڑھنے کے لئے بتاتا ہے۔ وہ شخص اس عامل کی ہدایت پر عمل تو کرتا ہے لیکن اپنی عادت ترک کرنے کی ذرا سی بھی کوشش نہیں کرتا۔ وہ دراصل اس عادت کو ترک کرنا ہی نہیں چاہتا۔ اس قسم کے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورة البقرہ میں فرمایا ہے ان کے دلوں میں بیماری ہے۔ جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھادیا اور جو جھوٹ بولتے ہیں۔ اس کی ان کے لئے درد ناک سزا ہے۔ یہ سزا انہیں دنیا میں ہی ملنا شروع ہوجاتی ہے۔ آخرت کی سزا الگ ہے۔ اگر آپ تمام برائیوں سے سچی توبہ کریں اور پھر وظائف پڑھیں پوری توجہ یقین کے ساتھ تو یقینا ایسے نتائج ملیں گے کہ عقل حیران کردے۔ لازمی شرط یہ ہے کہ آپ کوئی نقش یا وظیفہ شروع کریں تو اس کی زکوٰة فوراً ادا کریں۔ چاہے پانچ یا دس روپے ہی کیوں نہ ہو۔ اگ رتوفیق ہو تو زیادہ دیں۔ یہ زکوٰة کسی حاجت مند کے پاس جا نی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے وظائف قبول فرمائے اور کامیابی عطا فرمائے۔ آمین
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں