ایک بادشاہ نے اپنے ملک میں اعلان کروایا کہ جو شخص جھوٹ بولتا ہوا پایا گیا دیندار قاضی سے پوچھ کر اسے سخت سزا دی جائے گی۔ اعلان کا سننا تھا کہ لوگ ایک دوسرے سے بھاگنے لگے کہ کہیں جھوٹ کے الزام میں پکڑے نہ جائیں۔
بادشاہ اور وزیر دونوں بھیس بدل کر شہر میں گھومنے نکلے، ایک تاجر کے پاس سے ان کا گزر ہوا تو رک کر اس سے گپ شپ شروع کی۔
بادشاہ نے تاجر سے پوچھا۔آپ کی عمر کیا ہے؟
تاجر نے جواب دیا بیس سال۔
آپ کے پاس دولت کتنی ہے؟ بادشاہ نے پوچھا۔
تاجر نے کہا ستر ہزار۔
آپ کے لڑکے کتنے ہیں؟ بادشاہ نے تیسرا سوال کیا۔
تاجر نے کہا ایک۔
بادشاہ اور وزیر نے واپس آکر دفتر میں ریکارڈ دیکھا تو تاجر کے جوابات کو غلط پایا اور تاجر کو طلب کرلیا۔ آپ نے اپنی عمر بیس سال بتائی جو غلط ہے آپ کی اب یہ سزا ہے۔
تاجر۔ پہلے میری غلطی تو ثابت کیجئے۔
بادشاہ نے کہا سرکاری دفتر میں آپ کی عمر 65 سال درج ہے
تاجر بولا۔ جناب میری زندگی کے بیس سال ہی اطمینان و سکون سے گزرے ہیں۔ اس لئے میں اِسی کو اپنی عمر سمجھتا ہوں۔
پھر بادشاہ نے کہا، دولت بھی آپ نے غلط بتائی ہے۔ آپ کے پاس بے شمار دولت ہے جبکہ آپ کا کہنا ہے کہ صرف ستر ہزار ہیں۔
تاجرنے کہا میں نے ستر ہزار روپے مسجد کی تعمیر میں خرچ کئے ہیں اور میں اسی کو اپنی دولت سمجھتا ہوں جو آخرت میں میرے کام آجائے۔
بچوں کے متعلق بھی آ پ نے غلط کہا ہے۔ سرکاری رجسٹر میں آپ کے بچوں کی تعداد پانچ ہے جو آپ نے خود درج کرائی ہے۔
تاجرنے جواب دیا جناب میرے چار بچے نالائق، بداخلاق اور آوارہ ہیں بس ایک اچھے اخلاق و کردار کا ہے میں اسی کو اپنی اولاد سمجھتا ہوں کہ آخرت کے اعتبار سے انشاءاللہ وہی کام آئے گا۔
بادشاہ تاجر کے جوابات سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے تاجر سے کہا بے شک عمر وہی گننے کے لائق ہے جو اطمینان سے گزرے۔ دولت وہی گننے کے لائق ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ ہوئی ہو اور وہی اولاد، اولاد کہلانے کے لائق ہے جس کے اعمال و اخلاق اچھے ہوں۔
”یہاں وہاں“
خلیفہ ہارون رشید نے اپنے ایک نوکر کو بلایا اور اسے تین درہم دے کر کہا کہ جاﺅ ایک درہم یہاں اور وہاں، دوسرا یہاں نہ وہاں، تیسرا یہاں خرچ کرو۔
نوکر درہم لے کر چلا گیا۔ ایک مسجد تعمیر ہورہی تھی، اس نے ایک درہم دے دیا، آگے گیا تو ایک مداری تماشا دکھا رہا تھا اس نے ایک درہم دے دیا اور ایک درہم کے پھل لے آیا۔ واپس آکر اس نے خلیفہ ہارون رشید کو بتایا کہ ایک درہم اس نے مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا جو آپ کو یہاں (دنیا) اور وہاں (آخرت) میں کام آئے گا۔ دوسرا میں نے مداری کو دیا جو آپ کو یہاں نہ وہاں کام آئے گا۔ تیسرے درہم کے میں پھل لے آیا جو آپ کو یہاں کام آئیں گے۔ خلیفہ ہارون رشید نوکر کی عقلمندی سے بہت خوش ہوئے اور اسے انعام و اکرام سے نوازا۔
دل کو اللہ کے لئے فارغ رکھیں
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک طالب علم بہت دور دراز کا سفر کرکے حاضر ہوا۔ دیکھا، تو مالدار ہیں، نوابوں کے سے کارخانے ہیں، امیروں کی سی بارگاہ، نوکر چاکر۔اس شخص نے اپنے دل میں کہا کہ یہاں خدا پرستی کا کیا ذکر ہے، لیکن چونکہ دور سے آیا تھا، اس لئے قیام کیا، دونوں وقت شیخ کی خدمت میں جاتا، ایک روز شیخ کے نام کسی خادم کا خط آیا کہ فلاں جہاز جس پر لاکھوں روپے کا مال تجارت گیا تھا، ڈوب گیا۔ یہ سن کر شیخ نے فرمایا ”الحمدللہ“ پھر چند روز بعد اسی خادم کا خط آیا کہ وہ جہاز جو مال تجارت لے کر ڈوبا تھا ہمارا نہیں تھا اور مال کو بھی کچھ نقصان نہیں پہنچا۔ شیخ نے یہ سن کر فرمایا”الحمدللہ“ تب تو اس طالب سے رہا نہ گیا اور پوچھا ”اگر رارشاد ہو تو ایک شبہ عرض کروں“ فرمایا ”کہو“
اس نے عرض کیا کہ حضرت! یہ مال تجارت دوحال سے خالی نہیں۔ مال حلال ہے یا حرام۔ اگر حلال ہے تو اس کے تلف پر ”الحمدللہ“ کہنا کیا معنی؟ اور اگر حرام ہے تو اس کی بچ جانے پر شکر کیسا؟
شیخ نے مسکرا کر فرمایا ”مال تو حلال و طیب ہے، لیکن شکر نہ ضائع ہونے پر تھا، نہ ہی بچ جانے پر۔ جب مجھ کو تلف کی خبر ہوئی تو میں نے اپنے دل کی حالت پر نظر کی کہ دیکھوں اس نقصان نے کیا اثر پیدا کیا۔ غور کیا تو معلوم ہوا کہ دل پر مطلق اثر نہیں ہوا۔ پھر بچ جانے کے وقت بھی دل کا وہی حال پایا۔ پس میں نے دونوں حالتوں میں اس بات کا شکر ادا کیا کہ ”الحمدللہ“ دنیا کا نفع و نقصان میری نظر میں ہیچ ہے۔ بے شک دنیا کے تعلقات میں آلودہ رہ کر بے تعلق رہنا مردانِ حق کا کام ہے۔
تین چاند
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خواب دیکھا کہ ان کے حجرے میں تین چاند ٹوٹ کر گرے ہیں انہوں نے اس خواب کا ذکر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیا اس وقت تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب کی کوئی تعبیر نہ بتائی لیکن جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرے میں دفن ہوئے تب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ”ان تین چاندوں میں سے ایک یہ ہیں اور یہ ان میں سب سے بہتر ہیں۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں دفن ہوئے اور ان کے بعد حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دفن ہوئے گویا خواب کی تعبیر مکمل ہوئی اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ تین چاند کون کون سے ہیں‘ ان کے ساتھ ہی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت کو چار چاند لگ گئے کہ ان کے حجرے میں یہ تین چاند دفن ہیں۔
آج ہم اس مقام کو ”روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم “ کہتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ کو ”ریاض الجنة“ فرمایا‘ یعنی جنت کاباغ۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 907
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں