Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

حکمرانی کا خوبصورت انداز (محمد اویس‘ لاہور)

ماہنامہ عبقری - مئی 2011ء

مجاہدین کے کھانے میں برکت ایک غزوہ کے سفر میں جب بھوک نے مسلمان مجاہدین کو ستایا تو انہوں نے حضور ﷺ سے کچھ اونٹ ذبح کرنے کی اجازت لی اور عرض کیا‘ یہ گوشت کھانے سے اللہ تعالیٰ ہمیں اتنی طاقت دے دیں گے جس سے ہم منزل تک پہنچ جائیں گے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ حضور ﷺ نے کچھ اونٹ ذبح کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کرلیا ہے تو عرض کیا”یارسول اللہ!ﷺ کل جب ہم بھوکے اور پیدل دشمن کامقابلہ کریں گے تو ہمارا کیا حال ہوگا‘ اس لیے میری رائے یہ ہے کہ آپ مناسب سمجھیں تو لوگوں کے پاس جو توشے بچے ہوئے ہیں وہ منگوا کر جمع کرلیں اور پھر اللہ تعالیٰ سے اس میں برکت کی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی دعا سے کھانے میں برکت بھی دیں گے اور منزل تک بھی پہنچا دیں گے۔“ چنانچہ حضور ﷺ نے لوگوں سے ان کے بچے ہوئے توشے منگوائے تو لوگ لانے لگے کوئی مٹھی بھر کھانے کی چیز لایا اور کوئی اس سے زیادہ سب سے زیادہ ایک آدمی ساڑھے تین سیر کھجور لایا۔ حضورﷺ نے ان تمام چیزوں کو جمع کیا پھر کھڑے ہوکر کچھ دیر دعا کی پھر لشکر والوں سے فرمایا ”اپنے اپنے برتن لے آئو پھر اس میں سے ہاتھ بھر بھر کر نکال لو۔“ چنانچہ لشکر والوں نے اپنے تمام برتن بھرلیے اور کھانے کا جتنا سامان پہلے تھا اتنا پھر بچ گیا۔ اسے دیکھ کر حضور ﷺ اتنا مسکرائے کہ دانت مبارک نظر آنے لگے۔ آپ ﷺ نے فرمایا”میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں‘ جو بندہ ان دونوں باتوں پر ایمان رکھتا ہوگا وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ جہنم کے اس سے دور رہنے کا فیصلہ ہوچکا ہوگا۔ (احمد والنسائی) حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ایک یہودی ایک یہودی نے آکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ذرا یہ تو بتائیں کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”اور جنت جس کی وسعت ایسی ہے جیسے سب آسمان اور زمین“ (آل عمران133) جب سب جگہ جنت ہوگئی تو جہنم کہاں ہے؟؟؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا اسے جواب دو‘ لیکن ان میں سے کسی کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ذرا تم یہ بتائو جب رات آکر ساری زمین پر چھا جاتی ہے تو دن کہاں چلا جاتا ہے؟ اس یہودی نے کہا جہاں اللہ چاہتا ہے وہاں چلا جاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسے ہی جہنم بھی وہاں ہے جہاں اللہ چاہتا ہے۔ اس پر اس یہودی نے کہا اے امیرالمومنین! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب (تورات) میں بھی اسی طرح ہے جس طرح آپ نے فرمایا ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا خوف آخرت ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے چار ہزار درہم ادھار مانگے تو حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قاصد سے کہا جاکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہہ دو کہ ابھی وہ بیت المال سے چار ہزار لے لیں اور پھر بعد میں واپس کردیں“ جب قاصد نے آکر جواب بتایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بڑی گرانی ہوئی پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حضرت عبدالرحمن سے ملاقات ہوئی تو ان سے کہا تم نے کہا تھا کہ عمر چار ہزار درہم بیت المال سے لے لے اگر میں بیت المال سے ادھار لے کر تجارتی قافلہ کے ساتھ بھیج دوں اور پھر تجارتی قافلہ کی واپسی سے پہلے مرجائوں تو تم لوگ کہو گے کہ امیرالمومنین نے چارہزار لیے تھے اب ان کا انتقال ہوگیا ہے اس لیے ان کو یہ رقم معاف کردو (تم لوگ تو یہ رقم معاف کردوگے) اور میں ان کے بدلہ قیامت کے دن پکڑا جائوں گا۔ عمررضی اللہ عنہ جنت والوں میں سے ہیں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ابولولوہ نے زخمی کردیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے ۔ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو رہے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے امیرالمومنین! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں آسمان کے فیصلے کی وجہ سے رو رہا ہوں مجھے معلوم نہیں کہ مجھے جنت میں لے جایا جائےگا یا جہنم میں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا آپ رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت ہو‘ کیونکہ میں نے حضورﷺ کو بے شمار دفعہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما جنت کے بڑی عمر کے لوگوں کے سردار ہیں اور وہ دونوں عمدہ آدمی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے علی!رضی اللہ عنہ کیا تم میرے جنتی ہونے کے گواہ ہو؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہاں میں جواب دیا اور اپنے بیٹے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے حسن رضی اللہ عنہ تم اپنے باپ کے گواہ رہنا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ جنت والوں میں سے ہیں۔ دریائے نیل کے نام خط جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے مصر فتح کرلیا تو عجمی مہینوں میں سے بونہ مہینے کے شروع میںمصر والے ان کے پاس آئے اور کہا امیرصاحب! ہمارے اس دریائے نیل کی ایک عادت ہے جس کے بغیر یہ نہیں چلتا۔ وہ عادت کیا ہے؟ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا ”جب اس مہینہ کی بارہ راتیں گزر جاتی ہیں تو ہم ایسی کنواری لڑکی کی تلاش کرتے ہیں جو اپنے والدین کی اکلوتی لڑکی ہوتی ہے اس کے والدین کو راضی کرتے ہیں اور اسے سب سے اچھے کپڑے اور زیور پہنا کر دریائے نیل میں ڈال دیتے ہیں۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا یہ کام اسلام میں تو نہیں ہوسکتا‘ کیونکہ اسلام اپنے سے پہلے کے تمام (غلط )طریقوں کو مٹا دیتا ہے۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کے منع کرنے کے بسبب مصر والے بونہ‘ ابیب اور مسری تین مہینے ٹھہرے رہے اور آہستہ آہستہ دریائے نیل کا پانی بالکل ختم ہوگیا یہ صورتحال دیکھ کر مصروالوں نے مصر چھوڑ کر کہیں اور چلے جانے کا ارادہ کرلیا جب حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے یہ ماجرا دیکھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا اور ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ نے جواب میں لکھا کہ آپ نے بالکل ٹھیک کیا‘ بے شک اسلام اپنے سے پہلے کے تمام غلط طریقے ختم کردیتا ہے میں آپ کو ایک پرچہ بھیج رہا ہوں جب آپ کو میرا خط ملے تو آپ میرا وہ پرچہ دریائے نیل میں ڈال دیں۔ جب خط حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو وہ پرچہ کھولا اس میں لکھا ہوا تھا ”اللہ کے بندے امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے مصرکے دریائے نیل کے نام۔ امابعد! اگر تم اپنی مرضی سے چلتے ہوتو مت چلو اور اگر تمہیں اللہ واحد قہار چلاتے ہیں تو ہم اللہ واحد قہار سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تجھے چلادے“ چنانچہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے صلیب کے دن سے ایک دن پہلے یہ پرچہ دریائے نیل میں ڈالا۔ ادھر مصر والے مصر سے جانے کی تیاری کرچکے تھے کیونکہ ان کی ساری معیشت کا انحصار دریائے نیل پر تھا۔ صلیب کے دن صبح لوگوں نے دیکھا کہ دریائے نیل میں سولہ ہاتھ پانی چل رہا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ نے مصر والوں کی اس بری رسم کو ختم کردیا۔ ٭٭٭٭٭٭٭
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 164 reviews.