جڑی بوٹیوں کی جگہ نت نئی انسانی دریافت کی مصنوعات علاج کے نام پر مارکیٹ میں آنے لگیں اور ساتھ ہی علاج کے ساتھ ایک نئی بیماری بھی۔ ہر علاج کامیاب ہوا لیکن ایک نئی بیماری کو جنم دے کر۔ یعنی بیماری نے اپنا آپ ٹرانسفر کردیا ایک اور بیماری میں
کلر تھراپی ایک مکمل مضمون ہے۔ اگر اس کو یونیورسٹی کی سطح پر یا کتاب کی شکل میں سبقاً سبقاً پڑھا جائے تو بہت آسانی سے دو سال کے عرصہ میں اس شعبے میں سپیشلائزیشن کیا جاسکتا ہے۔ ایم اے یا بی ایس سی کی سطح پر چار سال کے عرصے میں اس میں بہت کام کیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بین الاقوامی جریدے میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں بتایا گیا ہے کہ کروموپیتھی یا کلر تھراپی کا بہت باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے اور اس کومختلف ادوار میں تقسیم کرکے سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف کلر تھراپسٹ کے کام کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس مقالے کا مصنف اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ پاکستان میں بھی اس پر خاصا کام کیا گیا ہے۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ انسانی جسم میں موجود کام کرنے والے مختلف اینزائمز پر رنگین روشنیوں کا تجزیہ کیا گیا ہے اور تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ کینسر کے اینزائمز کیلئے لال (سرخ) رنگ کی روشنی کو بہترین قرار دیا گیا ہے۔
انسانی بدن اور بیماریاں
نوع انسانی نے ازل سے خود کو بہتر سمجھنا چاہا ہے اور بیماری اور موت سے ہر دم برسرپیکار ہے۔ نئے نئے وجود میں آنے والے طریقہ علاج اس بات کے عکاس ہیں کہ انسان خود کو بیماری کے موذی پنجے سے آزاد کرانے کا ہر دم خواہاں ہے لیکن جتنا طرز علاج بدلتا جارہا ہے ہم اپنی فطرت سے دور ہوتے جارہے ہے۔ اتنی ہی پیچیدگیاں بڑھتی جارہی ہیں۔
ذہن اتنے ہی آلام میں گرفتار ہیں۔ علاج ایک پیشہ بن چکا ہے جس میں خلوص اور نفرت سے ہم آہنگی ناپید ہے۔ فطرت سے اس چپقلش کے نتیجے میں ہم روزبروز ایک نئے آلام‘ ایک نئی بیماری‘ حتیٰ کہ لاعلاج بیماریوںمیں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔ روز افزوں نت نئے علاجوں میں ترقی اور علاج کے نام پر اس پیشے کو بدنام کیا جارہا ہے۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے جڑی بوٹیوں سے ان کے بارے میں دریافت کیا اور جڑی بوٹیوں نے خود کو حضرت لقمان علیہ السلام پر عیاں کیا۔ حضرت لقمان علیہ السلام کا مقصد یقینا کاروبار نہ تھا بلکہ نوع انسانی کی بھلائی اور خیر تھا۔ نتیجہ میں علاج فطرت کے ہم آہنگ رہا اور جڑی بوٹیاں انسان کا پہلا علاج قرار پائیں۔ وقت گزرتا رہا اور ان ہی جڑی بوٹیوں نے نوع انسانی کی خدمت میں کوئی کمی نہ رکھی اور پھر علاج کاروبار بن گیا۔
ان ہی جڑی بوٹیوں کی جگہ نت نئی انسانی دریافت کی مصنوعات علاج کے نام پر مارکیٹ میں آنے لگیں اور ساتھ ہی علاج کے ساتھ ایک نئی بیماری بھی۔ ہر علاج کامیاب ہوا لیکن ایک نئی بیماری کو جنم دے کر۔ یعنی بیماری نے اپنا آپ ٹرانسفر کردیا ایک اور بیماری میں۔ اس کی وجہ کیا ہے دراصل ہم علاج کے نام پر دھوکہ دیتے اور کھاتے چلے آئے ہیں۔ فطرت سے ہم آہنگی کو چھوڑ کر چکاچوند کے عادی ہوتے چلے گئے ہیں۔ سادگی کی جگہ دکھاوا آگیا جس سے ہمارے اندر کی توانائی بھل بھل جلنے لگی۔ مشقت کی جگہ عیش کوشی اور آرام طلبی نے ڈیرے ڈال لیے۔ لیکن چند لوگ ہمیشہ سے موجود رہے جو لوگوں کو فطرت کے اصولوں کے ہم آہنگ ہونے کا درس دیتے رہے۔ رنگ و روشنی سے علاج بھی حاصل فطرت سے ہم آہنگی کا دوسرا نام ہے۔ ہم علاج کے کاروباری جال سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اگر ہمیںیقین اور توانائی کے ذخیروں سے واقفیت پیدا ہوجائے توانائی کا ذخیرہ ہمارے اندر موجود ہے۔ صرف توجہ اس جانب مبذول کرنے کی ہے۔ توانائی رنگوں کی صورت میں ہمارے چاروں طرف بکھری پڑی ہے آئیے اس توانائی کے خزانے کی جانب اور فطرت سے ہم آہنگ ہوجائیے۔
کرومو تھراپی اور بیماریاں
انسانی جسم میں درکار رنگوں کی مقدار میں ایک خاص توازن اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے جب یہ توازن بگڑ جائے اور رنگوں کی مقدار اعتدال پر نہ رہے تو جسم انسانی میں ”رنگین لہروں“ کے نظام اور اس کے نتیجے میں بننے والی برقی رو کمی یا بیشی کا شکار ہوجاتی ہے۔ رنگوں کی مقدار میں بے اعتدالی کو عرف عام میں بیماری یا کروموتھراپی کی اصطلاح میں رنگوں کا ٹوٹنا کہتے ہیں۔
درحقیقت کسی مخصوص طول موج یا فریکوئنسی والی لہر کو رنگ کہا جاتا ہے جو ہماری نگاہ محسوس کرسکتی ہے۔ یہ لہر جسم انسانی میں داخل ہوکر عضلات اور اعصاب کے خلیوں کے مرکزوں میں موجود کروموسومز یعنی رنگین جس میں اس وقت فعال کردار ادا کرتے ہیں جب تک انہیں درکار توانائی کی مخصوص مقدار دستیاب رہتی ہے۔ جب ان کروموسومز کو درکار توانائی کی معین مقدار ملنا بند ہو جاتی ہے تو ان کی کارکردگی اور افعال متاثر ہونا شروع ہوجاتے ہیں ان کی کارکردگی میں بگاڑ کا اظہار مختلف امراض کی صورت میں ہوتا ہے۔ توانائی کی معین مقداریں کیسے کم ہوجاتی ہیں یا رنگوں کے ٹوٹنے کا عمل کیوں ہوتا ہے تو اس کی بنیادی طور پر دوبارہ تین وجوہات اہم ہیں۔
پہلی وجہ تو رنگوں کی لہروں کی عدم دستیابی ہے یعنی جب انسان لگاتار روشنی اور دھوپ سے دور رہتا ہے تو اس کو درکار رنگین لہریں دستیاب نہیں رہتیں تو اس کے اندر موجود ذخیرہ شدہ توانائی استعمال ہونا شروع ہوجاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب یہ ذخائر بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ اس وقت جسم ہنگامی حالت کا اعلان کردیتا ہے اس ہنگامی صورتحال کا اظہار جسم کے مختلف اعضاءمیں درد ہونے‘ کسی مرض کی علامت‘ جلدی امراض‘ خون کے امراض‘ پیشاب کی تکالیف یا پھر طبیعت میں میں الجھن‘ جھنجھلاہٹ‘ بیزاری وغیرہ کے طور پر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
قدرتی روشنی اور دھوپ سے دور رہنا اور مصنوعی روشنیوں میں زندگی گزارناآج کے انسان کا طرز زندگی بن چکا ہے‘ اس نے ایساطرز رہائش اپنالیا ہے کہ گھروں اور رہائش گاہوں دھوپ کا گزرکم ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہوگیا ہے۔
اس فرق کا اظہار بھی مختلف امراض کی صورت میں ہی ہوتا ہے۔ جب انسان توہمات کا شکار ہوجاتا ہے بے یقینی اور وسوسے اس کے ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ جذباتی عدم توازن اس کا رویہ بن جاتا ہے تو نت نئے امراض اس پر حملہ کردیتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں