پاکستان اور انڈیا بننے سے پہلے کی بات ہے کہ فیض آباد انڈیا میں بے تحاشا بندر تھے جن سے تمام لوگ تنگ تھے۔ بالآخر مسلم لوگوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ حلوہ بنا کر اس میں زہر مکس کردیں تاکہ بندر حلوہ کھا کر مرجائیں۔ حلوہ پکا کر اس میں زہر مکس کردیا گیا۔ حلوہ کافی بڑی کڑاھی میں پکایا گیا جو کہ تقریباً 2 من تھا۔ بہرحال جب پہلا بندر حلوے کے نزدیک آیا تو حلوہ سونگھ کر پیچھے ہوگیا اور اپنی زبان میں اور بندروں کو منع کیا اور خود کہیں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بندر کہیں سے ایک بوڑھے بندر کو لے کر آگیا جس کو دونوں سائیڈوں سے جوان بندروں نے بازو سے پکڑ رکھا تھا۔ جب وہ حلوے کے نزدیک آیا تو اس بوڑھے بندر نے حلوے کو سونگھا اس نے بھی ایک مخصوص چیخ ماری اور کچھ کہا تو تمام بندر اس بوڑھے بندر کو چھوڑ کر کہیں چلے گئے اور بوڑھا بندر انتظار کرنے لگا کچھ دیر بعد وہ تمام بندر ایک ایک ڈنڈا تھامے آگئے جو کہ بانس کی طرح تھے۔ انہوں نے مل کر اپنے اپنے ڈنڈے حلوے میں مارنا شروع کردئیے۔ تقریباً پانچ منٹ لگاتار مارنے کے بعد انہوں نے وہ ڈنڈے پھینک دئیے جیسے ہی انہوں نے وہ ڈنڈے پھینکے تو ان ڈنڈوں کو آگ لگ گئی۔ ایک مرتبہ پھر بوڑھے بندر نے آگے بڑھ کر حلوہ سونگھا اب کی بار تمام بندروں کو نہ صرف حلوہ کھانے کی اجازت مل گئی بلکہ اس بوڑھے بندر نے بھی حلوہ کھایا اور بندروں کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔
پھر ایک مرتبہ ایک آدمی کو کوڑھ کا مرض ہوگیا تمام حکیموں نے جواب دے دیا۔ آخر وہ آدمی تنگ ہوکر جنگل چلا گیا کیونکہ اس کے گھر والوں نے بھی اسے گھر سے نکال دیا تھا۔ وہ آدمی کئی مہینوں سے سویا نہ تھا۔ وہ جنگل میں جاکر ایک درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں ایک بندر اس کے قریب آیا اور اسے سونگھنا شروع کردیا پھر اس بندر نے ایک آواز لگائی تو سینکڑوں بندر بھاگتے ہوئے آگئے۔ یہ آدمی سمجھا شائد بیماری کی موت سے پہلے یہ بندر میرا کام تمام کردیں گے مگر اس بندر نے تمام بندروں سے کچھ کہا اور تمام بندر بھاگ گئے۔ کچھ دیر میں جب وہ واپس آئے تو ان کے ہاتھوں میں مختلف قسم کے پودے اور جڑی بوٹیاں تھیں پھر انہوں نے مل کر پتھر سے ان تمام جڑی بوٹیوں کو پیسا۔ اتنے میں ایک بندر ایک چھوٹی سی کھوپڑی میں کہیں سے پانی لایا۔ ان بوٹیوں میں مکس کرکے اس کا پیسٹ بنایا۔ آدمی بیٹھا یہ تمام تماشا دیکھ رہا تھا جب پیسٹ تیار ہوگیا تو اسے بندر کہیں کہ اب کپڑے ہٹا کر لیٹ جائو۔ خود لیٹ کر اسے سمجھائیں۔ آخر وہ آدمی برہنہ ہوکر لیٹ گیا تو ایک بندر نے تمام پیسٹ سر سے لے کر پائوں تک اسے مل دیا۔ وہ آدمی کیونکہ کافی عرصے سے سویا نہ تھا اور اس آدمی کا کہنا تھا مجھے یوں لگتا تھا جیسے مجھے آگ لگی ہو اور بندروں کی دوائی آگ پر ٹھنڈا یخ پانی کا کام کرگئی اور مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ میں منٹوں میں سوگیا۔
ایک ڈیڑھ ماہ میں لگاتار سویا رہا۔ جب میں جاگا وہ بھی مجھے بندروں نے زبردستی جگایا۔ جب اس آدمی نے دیکھا تو اس کی تمام جلد سر سے لے کر پائوں تک اکھڑ چکی تھی اور اس کی جگہ بالکل نئی اور خوبصورت اور چمکدار جلد موجود تھی پہلے وہ بیماری سے بوڑھا لگنے لگ گیا تھا مگر ہوش میں آنے کے بعد وہ 25 سال کا خوبصورت نوجوان تھا۔ خوشی کے مارے جب وہ فیض آباد بھاگا گیا تو پہلے ان حکیموں سے ملا جو اسے لاعلاج قرار دے چکے تھے وہ سب بے حد حیران جن میں سے ایک حکیم نے بتایا کہ تمہارے علاج کیلئے جڑی بوٹیاں تو الگ مگر 10 سال پہلے کے سانپ کی کھوپڑی میں بارش کا پانی پڑارہے وہ چاہیے تھا تو میں پانی کہاں سے لاتا۔ وہ بندر چھوٹی سی کھوپڑی میں پانی لایا تھا وہ سانپ کی تھی جو انہی کے علم میں تھا اور اس میں بارش کا پانی ہی ہوگا اس کے بعد اس آدمی نے اپنی دوسری زندگی شروع کی۔
اس طرح ایک مرتبہ ایک سپاہی ڈپٹی کمشنر کے آفس کے سامنے چوکیداری کررہا تھا۔ رات اور جنگل کااندھیرا ہونے کی وجہ سے چوکیدار سپاہی کو محسوس ہوا کہ کوئی آفس کی طرف آرہا ہے کیونکہ وہ تھے بھی انگریز تو پہلے اس نے آواز دی جو کوئی بھی ہے رک جائے پھر کہا پھر تیسری مرتبہ کہا اگر نہ رکے تو گولی ماردونگا۔ مگر کوئی مسلسل آگے بڑھتا رہا تو سپاہی نے گولی ماردی۔ جب صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ رات کو آنے والا کوئی انسان نہیں بندر تھا۔
بہرحال تمام بندروں نے مل کر اس بندر کی لاش ڈپٹی کمشنر کے آفس کے سامنے رکھ دی اور بیٹھ گئے اور اسی سپاہی جس کی گولی سے بندر مرا تھا اس کی طرف اشارہ کریں کہ یہ بندہ ہمیں دو۔ آفس میں نہ کسی کو آنے دیں اور نہ جانے دیں۔ ان کا مسلسل اصرار تھا کہ سپاہی ہمارے حوالے کردیں۔ آخر ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ چلے جائو بندر تمہارا کیا کرلیں گے مگر وہ سپاہی اندر سے ڈرتا تھا ڈپٹی کمشنر نے اس سپاہی کے ساتھ پانچ مزید سپاہی بمع اسلحہ روانہ کیے اب بندر لاش لیکر چل پڑے ایک بڑے سے میدان میں جاکر بندر کی لاش کو رکھا اور اس سپاہی کو کہیں کہ لیٹ جائو۔ اس کے دوستوں نے کہا کہ لیٹ جائو ہم تمہارے ساتھ ہیں اگر بندروں نے کچھ الٹ کیا تو ہم اسلحہ استعمال کریں گے۔ وہ سپاہی لیٹ گیا تمام بندر ایک ایک فٹ کی چھڑیاں لائے اور سپاہی کے اوپر رکھنا شروع کردیں۔ اوپر سے چھڑیوں سے بالکل سپاہی کو چھپا دیا اور خود سامنے بیٹھ گئے دوسری سائیڈ پر اس کے دوست بیٹھ گئے۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد وہ اٹھ کر بندر کی لاش اٹھا کر چلے گئے۔ اب باقی سپاہی اسے آواز دے کر کہنے لگے لو بندر چلے گئے ہیں اب تم بھی اٹھ جاو۔ مگر وہ سپاہی ٹس سے مس نہ ہوا تو ایک دوست نے شرارتاً اُسے چھوٹی سی کنکری ماری کہ بس یار اب اٹھ جا مگر وہ کنکر سپاہی کے جسم کے آر پار ہوگئی تو سب سپاہی اکٹھے ہوکر نزدیک گئے اوپر سے ایک چھڑی اٹھانے کی کوشش کی وہ چھڑی بظاہر ٹھیک دکھائی دے رہی تھی مگر پکڑنے پر محسوس ہوا کہ اب چھڑی کی جگہ صرف راکھ ہے۔ پھر اپنے دوست کو تھوڑا بڑا پتھر مارا تو وہ بھی جسم سے گزر گیا بظاہر وہ سپاہی لیٹا ہوا تھا مگر بندروں نے اپنے بندر کا یوں انتقام لیا کہ نہ صرف سپاہی مر گیا بلکہ وہ راکھ کا ڈھیر بن گیا۔
دیکھا قارئین! بندر کیسے حکیم ہیں اگر ان کے پاس زبان ہوتی تو نجانے کتنی بیماریوں کا علاج ممکن ہوتا کیونکہ ان کو انسانوں سے زیادہ جڑی بوٹیوں کی پہچان ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں