پاکستان بننے سے پہلے میرے ایک عزیز دہلی میں رہائش پذیر تھے آج کل کراچی میں رہتے ہیں۔ جب اکتوبر 1947ءمیں سارے پنجاب میں فسادات ہورہے تھے اور دہلی شہر بھی ان کی زد میں آچکا تھا تو وہ بھی اپنے گھر سے نکل کر‘ پرانے قلعہ دہلی میں رہے پھر وہاں سے بڑی مشکل سے ریلوے سٹیشن تک پہنچے اور لاہور جانے کیلئے دوسرے فساد زدہ لوگوں کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئے۔ ان کے پاس صرف ایک بیگ تھا جس میں چند کپڑے تھے ان کے علاوہ ایک چھوٹے سائز کا قرآن مجید تھا جس کو انہوں نے اپنے سینے سے باندھ رکھا تھا۔
گاڑی آہستہ آہستہ چلتی بلکہ رینگتی ہوئی تین دن میں امرتسر پہنچی۔ راستے میں کئی جگہ ہندو اور سکھ بلوائیوں نے حملے کیے اور مسلمانوں کے مال وجان کو نقصان پہنچایا مگر گاڑی کسی نہ کسی طرح آگے بڑھتی رہی لیکن امرتسر کے اسٹیشن پر رات کے وقت پہنچ کر ایسی رکی کہ دن کے نو بج گئے ڈرائیور اورگارڈ کا کہیں پتہ نہ تھا آخر ہندو اور سکھ فوج اور مسلح بلوائیوں کے گروہ اسٹیشن پہنچ گئے۔ انہوں نے پہلے تو تمام مسلمانوں کو گاڑی سے پلیٹ فارم پر اتار لیا۔ پھر رائفلوں‘ مشین گنوں اور برین گنوں سے مسلمانوں پر فائر کھول دیا۔ کیا قیامت کا سماں تھا۔ چاروں طرف مسلح ہندو اور سکھ اور دمیان میں نہتے مسلمان مرد‘ عورتیں اور بچے جو اپنا کوئی دفاع نہیں کرسکتے تھے سوائے اس کے کہ جس سے ہوسکا وہ زمین پر لیٹ گیا تاکہ گولیوں کی سیدھی بوچھاڑ سے بچ سکے۔ اس وقت اس کے سوا دفاع کا کوئی اور طریقہ ممکن ہی نہیں تھا لیکن میرے وہ عزیز کہتے ہیں کہ اس وقت مجھے خیال آیا کہ اگر میں بھی لیٹ گیا تو قرآن مجید کی جو میرے سینے سے بندھا ہوا ہے بے حرمتی ہوگی اور پھر میں خدا کے سامنے کیا منہ لے کر جائوں گا کہ میں نے اپنی جان کو کچھ عرصے تک بچانے کیلئے قرآن مجید کو زمین بوس کردیا اور جیتے جی قرآن کو سرنگوں ہونے دیا۔
یہ خیال آتے ہی میں نے دل میں پختہ ارادہ کرلیا کہ چاہے میری جان کو کتنا ہی خطرہ کیوں نہ ہو جب تک جان میں جان ہے میں قرآن مجید کو زمین پر نہیں لگنے دونگا یہ ارادہ کرکے میں گاڑی کے ساتھ پشت لگا کرکھڑا ہوگیا دو گھنٹے تک لگاتار گولیاں چلتی رہیں اور میرے دائیں بائیں اور اوپر سے گزرتی رہیں۔
ریل گاڑی کے اس ڈبے کے شیشے چکنا چور ہوگئے جس کے ساتھ میں کھڑا تھا لیکن نہ تو میرا قدم ڈگمگایا اور نہ ہی مجھے کوئی خراش آئی۔ جب فائرنگ بند ہوئی تو میں نے دیکھا کہ جس جگہ میں ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ اس کے علاوہ اس ڈبے کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جو گولیوں سے چھلنی نہ ہوچکا ہو۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی ماہر نشانہ باز نے اپنے معمول کو لکڑی کی دیوار کے ساتھ کھڑا کرکے اس کے گرد چاقو کا حصار کھینچ دیا ہو قرآن مجید کا یہ معجزہ مجھے کبھی نہیں بھول سکتا۔ افسوس! آج ہم خدا کی یاد سے غافل ہیں ورنہ خدا تو ہر دم ہمارا محافظ اور مددگار ہے۔
زہریلے سانپوں کے کاٹے ہوئے کا قرآنی آیات سے علاج
حیدرآباد (سندھ) کے نزدیک واقع تاج پور میں مقیم ایک مشہور شخصیت نواب محمد خان لغاری ”سانپوں کے بادشاہ“ کہلاتے ہیں وہ سانپوں کے بہت ماہر ہیں‘ انہوں نے تقربیاً چار ہزار سانپ پالے ہوئے ہیں اور سب کے دانت اور زہر کی تھیلیاں موجود ہیں۔ وہ مارگزیدائوں (سانپ کے کاٹے لوگ) کا علاج بغیر معاوضے کے کرتے ہیں اور ساتھ آنیوالوں کی رہائش اور اخراجات وغیرہ بھی خود ہی برداشت کرتے ہیں۔
وہ ایک عمل کے ذریعے مریضوں کا علاج کرتے ہیں جس میں سورہ کافرون نمایاں ہے اس کے علاوہ تعویذ اور دم کیا ہوا پانی بھی دیتے ہیں۔ بے شمار سانپوں کے کاٹے ہوئے لوگ ان کے علاج سے صحت یاب ہوچکے ہیں۔ 15 ستمبر 1977ءکو نواب محمد خان صاحب اور ان کے سانپوں کے بارے میں ایک نامورعلمی رسالے میں ایک تحریر بھی دی گئی ہے اس تحریر میں نواب صاحب کا انٹرویو ان کا طریقہ علاج اور ان کے شاگردوں اور سانپوں کے بارے میں حیرت انگیز تفصیلات بتائی گئی تھیں۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 531
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں