دل کی دنیا بدل گئی
حضرت ابراہیم بن ادہم فرما نروائے بلخ تھے اور بڑے شکوہ وجلا ل کے ساتھ سلطنت کر تے تھے۔ ایک روز دربارِ عالم میں ایک شخص دیوا نہ وار چلا آیا ۔ تمام اعیا ن حکو مت ،ارکان سلطنت اور خدام میں سے کسی کو جرات نہ ہو ئی، جو اُسے روکے۔ اس کے چہرے سے ہیبت طا ری تھی۔ تخت کے قریب آکر کھڑا ہو گیا توآپ نے پو چھا تو کون ہے اور کس غرض سے دربار میں آیا ہے؟ بولا سرائے میں ٹھہرنا چاہتا ہو ں ۔ فرمایا یہ تو محل ہے۔ بو لا اس سے پہلے اس میں کون رہتا تھا فرمایا میرابا پ ۔ وہ بولا ان سے پہلے، کہا میرے دا دا! سی طر ح وہ برابر سوال کر تا رہا اور آپ نا م بتا تے رہے ۔ بو لا پھر یہ سرائے نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک آتا ہے اور ایک جا تاہے ۔ یہ کہہ کر وہ با ہر نکل گیا ۔ آپ تخت سے اُٹھ کر پیچھے گئے اور جا کر پو چھا یہ فرمائیے کہ آپ کون بزر گ ہیں؟ جواب تھا خضر علیہ السلا م ! یہ سنتے ہی آپ کے دل میں آگ لگ گئی ۔ اس کے بعد آپ گھوڑے پر سوار ہو کر جنگل کی طر ف چل پڑے ۔ دل میں ایک آگ لگی ہوئی تھی ۔ برابر غیبی صدائیں سنتے چلے جا رہے تھے ۔ ہرن ۔ گھوڑا ۔ زین پوش۔ جدھر دیکھتے یہ صدا سنتے کہ ابراہیم تو اس کا م کے لیے پیدا نہیں ہوا ۔ بیدا ر ہو ،سنبھل ۔
رقت طا ری ہوئی ،دل ٹو ٹا، اتنے روئے کہ کپڑے تر ہو گئے۔ اب دیکھتے ہیں تو بیک زقندحد ناسوت طے کر کے عالم ملکو ت میں تھے ۔ تو بہ ورقت کے ساتھ ہی حجاب اٹھنے شر و ع ہو گئے ۔ تمام عالم ملکوت نگا ہو ں کے سامنے تھے ۔ اس سلطنت کے مشاہدے نے دنیو ی سلطنت کا خواب بھلا دیا۔
دنیائے عرفان کی تجلیا ت کی ایک جھلک میں وہ سر شاریاں ہیں کہ دنیا کی تمام لذات بحیثیت مجموعی بھی ان کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتیں ۔ آپ نے اپنا قیمتی لباس اور تا ج ایک چرواہے کے لباس سے بدل لیا اور جنگلوں اور وادیو ں میں گھومنے لگے ۔ اپنے گزشتہ گنا ہوں کو یا د کر کے روتے اور ادھر ادھر دوڑتے پھرتے ۔عجیب حالت طاری تھی ۔ دنیا اور دنیا وا لو ں سے بے را ز تھے۔
ار شا د ات عا لیہ
فرمایا جس کا دل تین موا قع پر حاضر و رجو ع نہ ہو، اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس پر دروازے بند ہو چکے ہیں ۔ اولا ً نما زکی حالت میں ۔ ثانیا ً تلا وت کلا م اللہ کے وقت ۔ ثالثاً ذکر وشغل کے عالم میں ۔۔۔ فرمایا کہ تین حجا بو ں کے اُٹھ جانے سے مالک کے دل کے دروازے کھل جا تے ۔ اول دو عالم کی سلطنت لیکر بھی اظہا ر مسرت نہ کرے۔ دوسرے اگر اس سے سب کچھ چھن جا ئے تو غمگین نہ ہو ۔ تیسرے کسی قسم کی عطا و تعریف پر فریفتہ نہ ہو ۔ کیو ں کہ مسرور ہونے سے اس کا حریص ہو نا۔ غمگین ہونے سے غصہ اور کمین ہونا اورتعریف پر فریفتگی سے پست ہمتی ، ثابت ہو تی ہے ۔ ایک شخص سے فرمایا جماعت اولیا ءمیں شمولیت کی آرزو ہے تو دنیا و آخرت کی بال برابر بھی پرا ہ نہ کرو۔ اور خدا کے سو اکسی کا خیا ل دل میں نہ آنے دے اور عباد ت میں مصروف رہے اور روزی حلا ل رکھے ۔ فرمایا خواہ را ت بھر نماز پڑھنے اور دن بھر روزہ رکھنے کی تو فیق نہ ہو مگر جو کھائے وہ حلا ل روزی سے پیدا کیا ہو ا ہو۔ کسی شخص کو بھی بلند مر تبہ، نماز، روزے ، حج اور جہا د سے نہیں ملا ۔ بلندی اسے حاصل ہوئی ہے اور کا میا بی اسے ہی ملی جس نے اپنی روزی کو پا ک رکھا اور یہ سمجھ لیا کہ وہ کیا کھا تا ہے۔ حرام لقمہ سے نہ دعا قبول ہو تی ہے اور نہ اطا عت و عبا دت میں ذوق شوق پیدا ہوتاہے ۔ یہ کتنی اہم تعلیم ہے اور آپ روزی حلا ل پر کتنا زور دے رہے ہیں ۔ مسلمانوں کو اسے ہر وقت پیش نظر رکھناچاہیے ۔
افضل عبا د ت : آپ نے خو د زندگی بھر گھا س اور لکڑیا ں فروخت کر کے اپنی روزی پیدا کی ۔ اورنگ زیب اور سلطان ناصر الدین محمود جلیل القدر با دشاہ ہو نے کے با وجود اس لیے اپنی روزی محنت سے پیدا کیا کرتے تھے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے ”افضل الجہا د “ افضل العبادت فرمایا اور بتا یا ہے ۔ ایک عیا ل دار آدمی کو دن بھر کی محنت اورتگ و دو کے باوجود کچھ بھی نہ ملا۔ شام کو نہا یت فکر مند اور غمگین چلا جا رہا تھا ۔ آپ کو بیٹھے دیکھ کربولا ابراہیم مجھے آپ کے اس اطمینا ن پر رشک آتا ہے ۔ آپ فارغ بیٹھے ہیں اور میں متفکر ہو ں ۔ فرمایا میں نے اپنی تمام عبا دات و خیرا ت تجھے بخشیں ۔ تم ان لمحوں کا غم مجھے دے دو۔ اس سے بھی وا ضح ہو تا ہے کہ اہل عیال کے لیے ” حلا ل روزی کا غم “ عبا دات مقبولہ سے بھی بہتر ہے گویا یہ افضل العبادات کی شرح ہے ۔
لوگو ں نے پو چھا : دل پر اللہ کی طر ف سے حجا بات کیو ں طا ری ہیں فرمایا وجہ یہ ہے کہ لو گ ان چیزوں کو دوست رکھتے ہیںجنہیں اللہ تعالیٰ پسند نہیں کر تا “ لہو و لعب دنیو ی میں مبتلا ہیں اور آخرت کو بھولے ہوئے ہیں ، اسی طر ح لو گ اُس زندگی اور اُس لذت سے محرو م ہیں جو غیر فا نی ہے ۔
فرمایا جب تک تو اپنی بیوی کو بیوہ ، بچو ں کو یتیم نہ سمجھے اور خا ک پر کتو ں کی طر ح نہ سوئے اس وقت تک مردوں کی صف میں بیٹھنے کی آرزو نہ کر ۔ اس کی روزی کھا کر اس کی نا فرمانی نہ کر ۔ یہ ایک عا شق ربانی کی تعلیمات کا ایک اجمالی خاکہ ہے اسے آنکھیں کھو ل کر پڑھیے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 264
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں