(پریشان اور بدحال گھرانوں کے الجھے خطوط اور سلجھے جواب)
پیشہ کا انتخاب ( م۔ ج۔ ب )
میں ایک عرصے سے ایک فرم میں کا م کر رہا ہو ں ۔ دیا نت داری سے کام کر تا ہو ں اور محنت بھی کرنے کی کو شش کر تا ہوں۔ یعنی دفتر کا سارا وقت مصروف رہنے کی کی کو شش کر تا ہو ں لیکن اس کے باوجود ترقی نہیں کر سکا ۔ وہیں کا وہیں ہوں جہاں دس سال پہلے تھا۔ جب کہ میرے ساتھی بہت آگے بڑھ گئے ہیں ۔ حالا نکہ میری ایمان داری کی میرے افسر بھی قدر کر تے ہیں ۔ آخر کیاوجہ ہے؟ مجھے اپنی تر قی کے لیے کیا کرنا چاہیے ؟ کیا نوکری چھوڑ دو ں ؟
جو اب : ۔ آپ نے یہ نہیں لکھا کہ آپ کس حیثیت سے ملازم ہیں؟ آپ کے ذمے کوئی فنی کام ہے یا محض تحریری ۔ لیکن میں آپ کے خط سے جہا ں تک سمجھا ہو ں آپ کسی غیر فنی کا م پر مامور ہیں ۔ دوسری چیز جو آپ کی تحریر سے سمجھ سکا ہو ں وہ یہ ہے کہ آپ کو اپنے کام سے ذہنی لگا ﺅ نہیں ۔ آپ دیانت دارہیں ۔ محنت کرتے ہیں، لیکن یہ سب فرض سمجھ کر، اپنی طبیعت پر جبر کر کے پورا وقت کام کر تے ہیں ۔ فرض شناسی ایک بہترین خصوصیت ہے ، لیکن اس کے ساتھ اگر انسان کو اپنے کام سے دلچسپی بھی ہو، ذہنی لگاﺅ بھی ہو تو تر قی کے را ستے کھل جا تے ہیں اورکامیا بی قدم چومتی ہے ۔ دلچسپی ہی کام میں مہا رت کا ذریعہ بنتی ہے ۔ ایک چیز تو ہوتی ہے کا م کو پورا کر نا اور ایک چیزہوتی ہے کا م میں خو بی پیدا کرنا ، جدت پیدا کرنا ، نئے پہلو ڈھونڈنا ۔ اس خصوصیت کے لیے رجحان کے مطابق کام ہو نا چاہئے ۔ چنانچہ اگر میرا اندازہ صحیح ہے تو آپ کی مشکل کا حل یہ نہیں ہے کہ آپ نو کر ی چھوڑ دیں ، کیو ں کہ آپ کوکوئی دوسری نوکری یا کا رو بار تو کرنا ہی ہو گا۔وہ بھی آپ کے رجحان ِ طبع کے مطابق نہیں ہوا تو ا س میں بھی ترقی کے امکا نا ت نہیں ہیں ۔ سب سے پہلا کام آپ کو یہ کرنا چاہیے کہ اپنی دلچسپی کا صحیح اندا زہ کیجئے ۔ رجحان سمجھنے اور اگر موجو دہ کا م رجحان کے مطا بق نہیں ہے تو دوسرا کام رجحان کے مطابق سوچیے، تلا ش کیجئے اور ضرورت ہو تو دوستو ں سے مشورہ کیجئے ۔ پھر بے شک نو کری چھوڑنا مفید ہو گااور آپ اپنے پسندیدہ کام میں بہت جلد کامیابی اور ترقی حاصل کر لیں گے ۔
ایک بات اور ہے ، آپ کے تعلقات اپنے ساتھیو ں ، ماتحتو ں اور افسروں سے کیسے ہیں ؟ کیا آپ کو تعلقات خوش گوار رکھنے کا گُر آتا ہے ؟کیا آپ اختلا فات کو حُسن و خو بی سے حل کر لیتے ہیں ؟ذرا جا ئز ہ لیجئے کہیں تعلقات کی خرا بی توآپ کی راہ میں حائل نہیں ہے؟اگر آپ اپنے ساتھیوں سے خو ش نہیں ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ کے تعلقات اچھے نہیں ہیں اور آپ کو فوراً اپنے رویے پر نظر ثانی کرتے ہوئے تعلقات کو خو شگوار بنا نا چاہئے ۔
ناکامی اور بے چینی (محمد اسلم، فیصل آباد)
مجھے بچپن سے ہی سماجی فلا حی و بہبو د کے کا مو ں سے دلچسپی تھی ۔ اب وہ جذبہ جنو ن کی حد تک پہنچ چکا ہے ۔دوران تعلیم سیاسیات ( پو لٹیکل سائنس ) میرا خاص مضمو ن تھا ۔ جب تک ہمارا خاندان معا شی طور پر کا فی مضبوط تھا ،ہم دوسروں کی بھلائی کے لیے کا فی روپیہ خر چ کر تے رہے ۔ کئی سماجی جماعتیں بنائیں اور ان کے پروگروامو ں کو جاری رکھنے کے لیے ذاتی پیسہ خر چ کرتے رہے ۔ کا رکنوں کی بھی خاطر تواضع کر تے رہے ۔ پھر خاندانی اور گھریلو معاملات نے پہلو بدلا ۔ نفا ق نے اتفا ق کی جگہ لے لی اور ہماری معا شی حالت کمزور ہو گئی ۔ وہ کا رکن جو ہما رے گھر کھا نا کھا تے رہے ،غائب ہو گئے۔ وہ تنظیمیں دفن ہوگئیں ۔ تجارت میں ملا زمو ں نے دھو کا بازی کی اور ہزاروں کا نقصان ہوا اور اب راقم الحروف کو گزر اوقات کے لیے ملازمت کرنی پڑی ۔ جب بھی میں تنہا ہو تا ہو ں یا نما ز کا ارادہ کرتا ہوں، وہ گزرے ہوئے واقعات یاد آتے ہیں اور ذہنی سکون معطل ہو جا تاہے یا جب میں شہر میں نا انصافی یا کسی غریب پر زیا دتی دیکھتا ہو ں تو پھر خیالات آتے ہیںکہ معاشرتی برائیو ں کو دور کرنے کے لیے کام کروں، مگر حالات اجا زت نہیں دیتے ۔ دل مچلتا رہتا ہے ۔ چاہتا ہو ں کہ مزید تعلیم حاصل کر وں ، مگر دما غ میں وہی شو ق قیادت اور گزشتہ واقعات اور دوستوں کی اصلا ح کا خیا ل سما جاتاہے ۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ بے چینی کس طر ح ختم ہو سکتی ہے ۔ معاشر تی فلا ح و بہبو د کے کا مو ں میں نا کامی کے بعد بھی اپنی مسلسل جدو جہد کی پالیسی جاری رکھوں یا نہیں ۔
جوا ب: ۔ آپ کے خط میں بہت سی با تیں تشنہ ہیں ۔اگر آپ ذرا تفصیل سے اپنے خیا لات لکھتے تو مشورہ دینے میں زیا دہ سہولت ہو تی ۔ بہرحال آب بطور خود اپنے اور خاندان کے تمام حالات کا جائزہ لیجئے اور کاروبار میں نا کامی اور باہمی اختلا ف اور متعلقہ لو گو ں کی بے و فائی کے اسبا ب کا کھو ج لگانے کی کوشش کیجئے ۔ اس کو شش میں یہ پہلو بطور خاص ملحوظ رکھیے کہ اپنے آپ کو بے خطا ثابت کر نے کا جذبہ کار فرما نہ ہو ، بلکہ غیر جانب دارانہ جائزہ لیجئے کہ کس کی کتنی خطا تھی ۔ باہمی نفاق اور دوستوں و ملازموں کی دھوکے با زی کی وجوہ کیا تھیں؟کہیں آپ کی کسی عا دت، لفظ یا روئیے کو تو دخل نہ تھا؟اس جائزے کے نتیجے میں آپ آئندہ کے لیے آسانی سے راہِ عمل متعین کر سکیں گے ۔ آپ نے ایک لفظ ” شو ق قیادت “ استعمال کیا ہے ۔ کیا یہ شوق حد سے بڑھا ہوا ہے اور اس کا اظہار دوسرو ں کے لیے تکلیف دہ تو نہ تھا ۔ میں شوقِ قیادت کو بر انہیں کہہ رہا ہو ں، لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آپ کی کامیا بی اور ناکامی دونو ں میں اس شو ق کا حصہ کیا اور کتنا رہا ہے ۔ فی الحال میں آپ کویہی مشو رہ د وں گا ۔ آپ ناکامی کے احساس کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں۔ ہر کام میں اور زندگی کے ہر میدان میں شکست و فتح اور کامیا بی و ناکامی دونو ں ہی سے دوچا رہو نا پڑتا ہے۔ ایک با رکی نا کامی مستقل ناکامی کا لا ز مہ نہیں ہو تی بلکہ مضبو ط ارا دے کے لوگ نا کامی ہی کو کامیا بی کا زینہ بناتے ہیں ۔ ایک با ر کی ناکامی سے سبق سیکھتے ہیں ۔اور جو با تیں اس نا کامی کا سبب بنتی تھیں آئندہ ان سے احترا ز کرکے صحیح را ہِ عمل متعین کرتے ہیں ۔ آپ بھی مایو س نہ ہو ں بلکہ مستقل کامیا بی کے اسبا ب و حالات پیدا کرنے کی کو شش شروع کر دیجئے ۔ جتنے عرصے تک آپ کو ملازمت کرنا پڑے ، پوری دلچسپی اور توجہ سے اپنے فرائض انجام دیجئے اور فار غ اوقات میں مستقبل کے لیے جدو جہد کرتے رہییے ۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ تجا رت ہی کو اپنی کامیابی سمجھیں ، ممکن ہے کہ آپ ملا زمت ہی کے لیے زیا دہ موزوں ہوں اور اسی میں ترقی کر سکتے ہوں ۔ سماجی بہبو د کے کامو ں کے لیے بھی تجا رت ہی ضروری نہیں ہے۔ سما جی خدمت ہر طریقے سے اور ہر دائرے میں کی جا سکتی ہے اور وہ آپ ضرور کر تے رہیے ۔ ذہنی بے چینی دور کرنے اور روحانی سکون کے لیے سماجی خدمت اور بے لو ث کا مو ں سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں