کمپیوٹر کے سامنے کسی سخت سی کرسی پر کئی کئی گھنٹوں تک بیٹھے رہنے والے نوجوان افراد۔۔۔۔روزانہ اپنے باورچی خانوں کے کام کاج میں جتی رہنے والی خواتین جو مسلسل جھک کر کھانا پکاتی ہیں۔۔۔۔آفس میں کام کرنے والے افراد جو گھنٹوں اپنی کرسیوں پر جھکے کاغذات سے سر کھپاتے رہتے ہیں اور اس دوران اپنی جگہ سے اٹھنے کا موقع بھی شاذو نادر پاتے ہیں۔
خواتین جو اونچی ایڑی کی سینڈلیں پہنتی اور بے تکے انداز میں چلتی ہیں۔ وہ لوگ جو کمر پر زور دیتے ہوئے بھاری بوجھ اٹھاتے ہیں۔ایسے لوگ جو حد درجہ نرم و گدیلے بستروں پر سوتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان تمام لوگوں میں کیا بات مشترک ہے؟ اور یہ تمام لوگ اپنی ریڑھ کی ہڈی کے دشمن کیوں بنے ہوئے ہیں؟
ریڑھ کی ہڈی نظام عصبی کا مرکز:ہمارا عصبی نظام دفاع اور حرام مغز سےمل کر بنا ہے ہمارا دفاع جاندار حالت میں ایک نیم مائع قسم کا عضو ہے جو ایک ٹھوس ہڈی کے خول میں محفوظ ہوتا ہے جسے کھوپڑی کہتے ہیں جبکہ حرام مغز ہماری ریڑھ کی ہڈی کے اندر ایک رسی کی مانند عضو ہے جو گردن سے ہوتا ہوا دماغ سے منسلک ہوتا ہے حرام مغز دراصل ہمارے جسم اور دماغ کے درمیان پیغام رسانی کی مرکزی گزر گاہ کے طور پر کام کرتا ہے اس میں لاتعداد اعصاب نکل کر ایک جال کی طرح جسم کے دیگر اعضاء کے ساتھ رشتہ استوار کیے ہوئے ہوتے ہیں ہم جو کچھ محسوس کرتے ہیں مثلاً تکلیف گرمی یا سردی وغیرہ کے احساسات تو اعصاب سب سے پہلے اس سے حرام مغز کو مطلع کرتے ہیں حرام مغز سے یہ احساس دماغ تک پہنچتا ہے جو اپنی ہدایت حرام مغز کے ذریعے متعلقہ عضو تک پہنچانے کیلئے ایک بار پھر ان ہی اعصاب کا سہارا لیتا ہے۔ یاد رکھیے کہ حرام مغز ایک طرح کا دماغ ہی ہے لیکن یہ سوچنے یا فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا حرام مغز بے شمار اعصاب کا مجموعہ ہے جبکہ جسم میں پھیلے ہوئے اعصاب دراصل کسی زنجیر کی طرح باہم جڑے ہوئے ہیں یہ بے شمار عصبی خلیوں کا مجموعہ ہوتے ہیں۔
ریڑھ کی ہڈی‘ فن قدرت کا ایک انمول نمونہ:ریڑھ کی ہڈی بلاشبہ قدرت کے فن کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہے یہ حد درجہ مضبوط اور مستحکم ہونے کےساتھ ساتھ لچکدار بھی ہے یہ ہماری چال کو سیدھا رکھتی ہے اور ہمیں ہر سمت میں مڑنے یا جھکنے کے قابل بناتی ہے یہ کئی چھوٹی چھوٹی ہڈیوں سے مل کر بنی ہوئی ہوتی ہے جو کسی زنجیر کی طرح ایک دوسرے سے منسلک ہوتی ہیں ان ہڈیوں کے درمیان ایک نرم اور چھوٹی سی ہڈی (ڈسک) ہوتی ہے جو کسی شدید احساس یا صدمے کو سہارنے کے کام آتی ہے۔ریڑھ کی ہڈی کئی اسکیٹل عضلات سے متعلق ہوتی ہے وزن سہارنے والے جوڑ ریڑھ کی ہڈی اور اسکیٹل عضلات ہماری جسمانی حرکات کا اثر قبول کرتے ہیں جسم کی حرکات مثلاً چلنا‘ بیٹھنا‘ اٹھنا اور لیٹناوغیرہ درست نہ ہوں تو اس سے بھی ان تینوں پر گہرا اثر پڑتا ہے کیونکہ ہم جو کچھ کرتے ہیں خواہ بوجھ اٹھائیں جھک کام کریں یا حادثاتی طور پر گرجائیں ان تمام حرکات کا دباؤ ہمارے جوڑوں اورریڑھ کی ہڈی کو سہنا پڑتا ہے۔ ہمارے عضلات وقتی طور پر متاثر ہوتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد پھر سے حرکت کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
ریڑھ کی ہڈی پر زیادہ دباؤ مت ڈالیے:ذیل میں چند ایسے طریقے بتائے جارہے ہیں جن کے ذریعے اس مسئلے سے بچا جاسکتاہے۔اگر آپ کا زیادہ تر کام بیٹھنے کا ہے تو اپنے لیے موزوں کرسی کا انتخاب کیجئے ہمیشہ سیدھا بیٹھیے اور چند گھنٹوں بعد چند منٹ کیلئے چہل قدمی کیجئے۔چلتے ہوئے اپنے جسم کو سیدھا رکھئے۔ اپنے سر کو تنا کر چلئے اور بات کی پروا مت کریں کہ ایسا کرنے سے لوگ آپ کو مغرور سمجھنے لگ جائیں گے۔کمر کو اس طرح جھکا کر مت بیٹھیے کہ سارا بوجھ آپ کی ریڑھ کی ہڈی پر پڑے۔ ہمیشہ متوازن ہوکر بیٹھیے اور بغیر کمر جھکائے آہستگی سے اٹھیے۔بے آرام یا بہت اونچی ایڑی کے جوتے ہرگز مت پہنے۔(خاص طور پر اگرآپ نوجوان ہیں۔)باورچی خانےمیں کام کرتے ہوئے خود کو وقتاً فوقتاً وارم اپ کرتے رہیے۔اگر آپ کا وزن زیادہ ہے تو اس پر قابو پائیے۔
اگر آپ کمر کی درد کا شکار ہوجائیں:تمام تر احتیاطوں کے باوجود اگر آپ کو کمر کا درد ہوجائے تو آپ اس کی وجہ وراثتی خصوصیات GENES نازک ہڈیوں یا صریح بدقسمتی کا قرار دے سکتے ہیں۔کمر کا درد اچانک ہوسکتا ہے۔ یہ کبھی شدید ہوتا ہے اور کبھی دھیما بعض اوقات یہ خاص اوقات میں ابھرتا ہے یہ بالائی اور زیریں کسی بھی جگہ شروع ہوسکتا ہے جب پہلی بار کمر کا درد ہو تو مزید کسی سنجیدہ مرض سے بچنے کیلئے فوراً اپنا میڈیکل چیک اپ کروالیں۔ تمام ممکنہ اسباب کا سدباب کرنے کے بعد اس وقت تک بستر پر آرام کریں تاوقت یہ کہ ابتدائی درد کا حملہ سرے سے معدوم ہوجائے۔طبی ماہرین کے مطابق ہلکی پھلکی ورزش کرنے سے کمر کے درد میں مبتلا افراد کو کافی آرام ملتا ہے وہ کہتے ہیںباقاعدگی سے ورزش آپ کے عضلات کو مستقل طور پر مضبوط بناتی ہے جس سے ریڑھ کی ہڈی کو کافی حد تک سہارا ملتا ہے۔ہڈیوں کی بافتوں کا ضیاع بالخصوص عورتوں میں دل کے امراض حرام مغز کے کچھ خاص عوارض حد درجہ موٹاپا‘ شدید ذہنی تناؤ‘ اعصابی بیماریاں کمر کے درد کا سبب بن سکتی ہیں۔ورزش اور اس کے اوقات کا تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس سلسلے میں کسی میڈیکل ڈاکٹر سے مشورہ لیا جائے تو ایک دو اور ڈاکٹر سے رائے طلب کریں کیونکہ اگر ایک ڈسک بھی سرجری کے ذریعے ہٹائی جاتی ہے تو بالائی اور زیریں DISKS کو زائد دباؤ برداشت کرنا پڑے گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں