اللہ دیکھ رہا ہے
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک گاؤں میں ایک شخص رہتا تھا اس کا نام عبدالرحمن تھا۔اس کے تین بیٹے تھے تینوں اپنے والد سے بہت محبت کرتے تھے۔ عبدالرحمن بھی اپنے بیٹوں سے بہت محبت کرتا تھا۔ایک مرتبہ عبدالرحمن نے اپنے تینوں بیٹوں کو بلایا اور ان کو ایک ایک سیب دیا اور کہا کہ اس سیب کو ایسی جگہ جاکر کھاؤ جہاں تمہیں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ جو ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا میں اسے انعام دوں گا۔تینوں بیٹے والد کو اللہ حافظ کہہ کر اور ان سے دعائیں لے کر گھر سے نکلے۔
دوسرے دن عبدالرحمن نے پھر تینوں کو بلایا اور باری باری سب سے پوچھا۔ سب سے پہلے بڑے بیٹے عبداللہ سے پوچھا۔کیا تم اس کو ایسی جگہ کھانے میں کامیاب ہوگئے جہاں تمہیں کوئی نہ دیکھ رہا ہو؟عبداللہ نے جواب دیا ’’الحمدللہ ابا جان! میں نے وہ سیب ایک درخت کے پیچھے جاکر چھپ کر کھایا وہاں مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا تھا۔‘‘پھر عبدالرحمن نے اپنے دوسرے بیٹے سے پوچھا’’ یوسف! تم بتاؤ تم نے کیا کیا؟‘‘‘یوسف نے کہا! اباجان میں نے وہ سیب کمرے میں بند ہوکر اندھیرا کرکے کھایا اور مجھے یقین ہے کہ وہاں مجھے کسی نے نہیں دیکھا۔عبدالرحمن نے تیسرے بیٹے سے پوچھا سلیم! تم نے کیا کیا؟‘‘سلیم نے کہا اباجان! میں نے کتاب اسمائے الحسنیٰ میں پڑھا ہے اللہ کا ایک نام ہے البصیر ہر ایک کو ہرحال میں دیکھنے والا میں نے بہت سوچا اور تلاش کیا لیکن مجھے کوئی ایسی جگہ نہ ملی جہاں میرا اللہ مجھے نہ دیکھ رہا ہو‘ اللہ تو ہر جگہ دیکھتے ہیں اس لیے میں یہ سیب نہ کھاسکا۔عبدالرحمن اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کی عقلمندی پر بہت خوش ہوا اور اس کو انعام دیا۔ پھر عبدالرحمن نے اپنے بیٹوں سے کہا۔
میرے پیارے بیٹو! بے شک اللہ ہم سب کو ہروقت ہرجگہ دیکھتا ہے ہماری باتوں کو سنتا ہے اور جو خیالات ہمارے دل میں آتے ہیں ان کو بھی جانتا ہے۔ وہ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصَّدُوْرِ یعنی دلوں کے چھپے ہوئے رازوں کو بھی جانتا ہے۔
اللہ کی نافرمانی سے ہروقت بچو اور اللہ کے سارے احکامات پر عمل کرو جس پر اللہ تم سے راضی ہوجائے گا اور تمہیں دنیا میں راحت‘ سکون‘ اطمینان عطا کرے گا اور مرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جنت میں داخل کرے گا ۔
بھائی جان کے جوتے
بھائی جان کا اصل نام تو بلال تھا مگر امی ابو انہیں منے میاں ہی کہہ کر پکارتے تھے ان کے دوست انہیں بلال کے نام سے جانتے تھے۔میٹرک میں ہونے کی وجہ سے ان سے ایسی حرکت کی توقع نہیں تھی جیسی گزشتہ تین مہینوں سے کررہے تھے۔
بھائی جان مسلسل ہر ماہ اپنے جوتے گم کررہے تھے۔ تیسری بار جب وہ جوتوں کے بغیر سکول سے گھر آئے تو امی بے حد پریشان ہوئیں اور انہوں نے بھائی جان سے پوچھا۔ انہوں نے جو وجہ بتائی وہ امی سے مشکل ہی سے ہضم ہوپائی۔ رات کو سب ابو کے سامنے موجود تھے۔ ’’ہاں منے میاں! بتاؤ آج جوتے کہاں گئے؟‘‘ ابو نے پوچھا۔’’ ابو! میں نے امی کو بتا تو دیا ہے۔‘‘ بھائی جان نے رونی صورت بنا کر جواب دیا۔
’’مگر اس پر اعتبار کرنا تو مشکل ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سکول سے واپسی پر تم مسجد میں نماز پڑھنے گئے اور واپسی پر جوتے اپنی جگہ پر نہیں تھے۔ ہر بار جوتوں کے گم ہونے کی تم یہی وجہ بتاتے ہو۔‘‘
اس مسجد میں جہاں تم نماز پڑھتے ہو‘ میں بھی اکثر وہیں نماز پڑھتا ہوں مگر میرے تو کیا‘ کسی اور کے جوتے بھی وہاں گم نہیں ہوئے۔ منے میاں اصل بات بتاؤ۔ ہر بار ایک ہی بہانہ نہیں چلے گا۔’’جی ابو۔۔۔۔ ابو۔۔۔۔‘‘ بھائی جان ہکلائے۔ ابو نے اس کے بعد کچھ نہ کہا اور پھر ہم سب اپنے اپنے کمروں میں سونے کیلئے چلے گئے۔ دوسرے دن صبح ابو بھائی جان کے اسکول گئے اور پرنسپل صاحب سے مل کر انہیں ساری صورتحال بتائی۔ پرنسپل صاحب نے کلاس ٹیچر کو بھی اپنے کمرے میں بلایا اور انہیں بھی تمام صورت حال سے آگاہ کیا۔ کلاس ٹیچر نے اس بارے میں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ ابو مطمئن ہوکر وہاں سے دفتر چلے گئے۔ کلاس ٹیچر دوبارہ اپنی کلاس میں گئے تو انہوں نے خود بھائی جان کو اپنے پاس بلا کر بڑی آہستگی کے ساتھ جوتوں کے گم ہونے کے بارے میں پوچھا‘ مگر بھائی جان یہاں بھی بات گول کرگئے۔ دوسرے دن کلاس ٹیچر نے کسی خیال کے تحت ان تینوں بچوں کو اپنے پاس بلایا جنہیں کئی دنوں سے نئے جوتے پہن کر نہ آنے پر انہوں نے سزا دی تھی۔ ان تینوں کے والدین کی مالی حالت بھی اچھی نہیں تھی‘ اس لیے وہ نئے جوتے خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ یہ بات ٹیچر کو بھی معلوم تھی‘ مگر سکول کا نظم و ضبط قائم رکھنے اور بچوں کو صفائی کا پابند بنانے کیلئے انہوں نے ان بچوں کو سزا دینا ضروری سمجھا تھا۔ وہ تینوں مسلسل کئی دنوں سے پھٹے ہوئے جوتے پہن کرآرہے تھے۔ آج جب کلاس ٹیچر نے ان کے جوتے دیکھے تو وہ نئے معلوم ہوئے۔ انہوں نے ان تینوں کو پرنسپل صاحب کے کمرے میں بلالیا اور نئے جوتوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے سب کچھ صاف صاف بتادیا۔ کچھ دیر بعد کلاس ٹیچر نے فون پر ابو کو اصل حقیقت سے آگاہ کیا۔ ابو یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔
رات کو کھانے کے بعد ابو کے کمرے میں بھائی جان کی حاضری تھی۔ ابو کے کمرے میں صرف انہیں ہی بلایا گیا تھا۔ جب وہ کمرے میں سلام کرکے داخل ہوئے تو ابو نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا‘ پھر ابو بولے:’’ ہاں بھئی منے میاں! تمہارے جوتوں کے تین جوڑوں کے گم ہونے کی اطلاع اور اصل حقیقت تو مجھے معلوم ہوگئی ہے۔‘‘ ابو نے کہا اور کچھ دیر سانس لینے کیلئے رکے۔ ’’جی وہ ابو۔۔۔۔‘‘ بھائی جان نے کچھ کہنے کیلئے منہ کھولا۔ ’’مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ پہلی بار جوتے گم ہونے کا بہانہ بنا کر تم نے اپنے کلاس فیلو عبدالعزیز کی مدد کی‘ کیونکہ وہ ٹیچر کے کہنے کے باوجود نئے جوتے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا‘ دوسری بار یہی تجربہ تم نے ساتھی مدثر اور تیسری بار شاہد کیلئے کیا۔ ابو کچھ دیر رکے اور پھر کہا: ’’بیٹا! مجھے خوشی ہے کہ تم اپنے دوستوں اور ہم جماعت ساتھیوں کا اس قدر خیال رکھتے ہو مگر اس میں ایک غلطی ہوگئی تم نے اس سارے معاملے میں جھوٹ کا سہارا لیا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ تم مجھے اور اپنی امی کو اعتماد میں لیتے تو ہم تمہیں کبھی اس کام سے نہ روکتے۔ منے میاں! تم نے کتابوں میں پڑھا ہوگا کہ ہمارا مذہب اسلام ہم سے یہ چاہتا ہے کہ جو چیز ہمارے پاس ضرورت سے زائد ہے اس پر دوسروں کا حق سمجھیں۔ آج ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ کرم ہے کہ اس نے ہمیں اپنی ضرورتوں سے زیادہ عطا کیا ہے۔ اس لیے اپنے اطراف کے لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔‘‘
’’جی ابو! میں آئندہ خیال رکھوں گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بھائی جان کو ایسا محسوس ہوا جیسے ان کے سر سے منوں بوجھ اتر گیا‘ پھر وہ اجازت لے کر کمرے سے باہر آگئے۔ یوں کئی دنوں سے زیر بحث رہنے والا جوتوں کا معاملہ بالآخر حل ہوگیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں