بہترخانہ داری اور خاندان کے عزیز اور قریب از دل افراد کے علاوہ خود خاتون خانہ کی اپنی صحت ٹھیک اور مستحکم رہنا ضروری ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں بڑی بوڑھیوں کے بہت سے اصول تجربے کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں اور بہت سے جدید تحقیق اور تجربات کی روشنی میں اتنے درست ثابت نہیں ہوتے جتنے کہ سمجھے جاتے ہیں۔
مثلاً آلو کے کباب بنانے کیلئے انہیں چھیل کر ابالنے کا طریقہ اس حد تک تو درست تھا کہ اس طرح کھولتے پانی میں انہیں ڈالنے سے یہ جلد گل جاتے تھے لیکن اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ انہیں دھو کر بغیر چھیلے ٹھنڈے پانی میں ڈال کر ابالنا زیادہ درست ہوتا ہے کیونکہ اس طرح ان کا پچاس فیصد کے بجائے صرف 20 فیصد حیاتین ج (وٹامن سی) ضائع ہوتا ہے۔ اسی سے دوسری سبزیوں کے بارے میں بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہر بیٹی کو یہ چند اصول گرہ میں باندھ لینے چاہئیں۔
سبزیوں کے بیرونی چھلکے نہ اتارئیے:سبزیوں کے بیرونی چھلکوں یا پتوں میں غذائی اجزاء سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ آلو کے بارے میں آپ پڑھ چکے اسی طرح لوکی‘ توری‘ شلجم اور چقندر وغیرہ کے چھلکوں میں بھی غذائی اجزاء زیادہ ہوتے ہیں۔ لوکی دیکھ کر نرم لی جائے تو اسے چھلکے سمیت پکایا جاسکتا ہے۔ چقندر اور شلجم کا پتلا بیرونی چھلکا ابلنے کے بعد اتارا جاسکتا ہے۔
کم پانی کا استعمال:سبزیوں کے پکانے کیلئے پانی جتنا کم استعمال ہو‘ بہتر ہے۔ اس طرح زائد پانی پھینکنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور اس پانی میں حیاتین اور غذائی اجزاء زیادہ موجود ہوں گے۔ تجربہ کرکے دیکھئے آلو‘ لوکی‘ شلجم‘ مولی‘ گاجریں وغیرہ دھیمی آنچ پر خود اپنے پانی میں گل جاتے ہیں۔ انہیں ابالنے کے بجائے دم پر بھی پکایا جاسکتا ہے۔ آلو گرم راکھ میں اب بھی پکائے جاتے ہیں۔ اسی طرح پہلے گاجریں‘ بینگن وغیرہ بھی گرم راکھ میں بھلبھلا کر استعمال کیے جاتے تھے اور انہیں زیادہ قوت بخش سمجھا جاتا تھا۔ انہیں تھوڑے تیل میں بھون کر بھی گلایا جاسکتا ہے یا بھاپ پر بھی یہ گلائے جاسکتے ہیں۔ پکانے کیلئے زیادہ پانی استعمال کرنے سے حیاتین ج کے علاوہ پانی میں حل ہونے والے تمام حیاتین سبزی سے نکل کر پانی میں چلے جاتے ہیں۔ یہ پانی ٹھنڈا کرکے پودوں کو دیا جائے تو وہ خوب پھلتے پھولتے ہیں۔
سبزیاں کبھی نہ ابالیے:انہیں کسی برتن میں رکھ کر اس برتن کو ڈھک کر کھولتے پانی میں رکھ کر سبزیاں گلائیے۔ اب تو پریشر ککر کے ساتھ آنے والے ڈبوں سے بھی یہ کام لیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ابلی یا گلی سبزیوں میں حیاتین اور دیگر غذائی اجزا معدنی نمک وغیرہ دگنی مقدار میں محفوظ رہتےہیں۔
پانی نہ پھینکئے:سب سے پہلے تو یہ یاد رہے کہ سبزیاں کاٹنے سے پہلے اچھی طرح دھولی جائیں۔ انہیں کاٹ کر دھونے سے ان کے اہم غذائی اجزا خاصی مقدار میں پانی کے ساتھ ضائع ہوجائیں گے اور ابالنے کے بعد بچے ہوئے پانی کو ضائع کرنا صحت کے لحاظ سے مزید غذائی فضول خرچی میں آئے گا۔ ایسے پانی کو بطور سوپ پینا زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے یا پھر اسے کسی بھی ڈش کی تیاری میں پانی کی جگہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسی میں چاول گلائے جاسکتے ہیں۔ سبزی ترش نہ ہو تو بچوں کی غذا اس پانی میں تیار کی جاسکتی ہے۔
کم وقت میں تیار کیجئے:سبزیاں بہت کم وقت میں تیار ہوجاتی ہیں۔ انہیں دیر تک چولہے پر رکھنے سے ان کے غذائی اجزا اتنے ہی زیادہ ضائع ہوجاتے ہیں۔ ہر سبزی کے گلنے کا بالکل درست وقت کا اندازہ کرکے اتنے ہی وقت میں اسے تیار کیجئے۔ پریشر ککر اور مائیکرو ویو میں تو یہ چند منٹ ہی کی بات ہوتی ہے۔ اب تو ان کے ساتھ مختلف کھانوں کی تیاری کا ٹائم ٹیبل بھی آتا ہے۔
اپنی ناک سے کام لیجئے:جس طرح چاول دم ہونے کا اندازہ ان کی خوشبو سے ہوجاتا ہے اسی طرح سبزیوں کی خوشبو سے ان کے پک کر تیار ہونے کا اندازہ بھی آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ تیار نہ ہو تو تھوڑی دیر مزید دم پر رکھنے سے سبزی تیار ہوجاتی ہے۔
کم سے کم کاٹئے:سبزیوں کی غذائیت برقرار رکھنے کیلئے انہیں بہت باریک نہیں کاٹنا چاہیے ان کے ٹکڑے جتنے بڑے ہوں‘ بہتر ہے۔ آپ انہیں بعد میں مطلوبہ سائز میں کاٹ سکتے ہیں۔ اس طرح ان کے غذائی اجزا زیادہ محفوظ رہتے ہیں البتہ تلنے کیلئے ان کے چھوٹے ٹکڑے کیے جاسکتے ہیں۔
اب نہ تو لکڑی کے چولہے ہیں نہ تندور کہ ان کی گرم بھوبل میں آلو‘ گاجریں گلائی جائیں۔ اب یہ کام گرم اوون سے لیا جاسکتا ہے۔ اس طرح دھیمی آنچ پر تیار ہونے والے آلو وغیرہ زیادہ مزیدار بھی ہوتے ہیں اور غذائیت بخش بھی۔ اسی طرح مکئی کے تازہ بھٹوں کو چند پتوں سمیت بھوننے کے بعد پتے دور کرکے کھانے کا لطف ہی اور ہوتا ہے۔
کھانے میں دیر نہ کیجئے:کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ سبزیوں کے حیاتین بھی ضائع ہونے لگتے ہیں مثلاً تازہ پکے ہوئے لوبیے‘ سیم کی پھلیوں میں موجود 83 فیصد حیاتین ج دوبارہ گرم کرنے پر صرف 29 فیصد رہ جائے گا۔ اسی طرح حیاتین الف اور حیاتین ’’کے‘‘ کی مقدار بھی گھٹ جاتی ہے‘ اسی لیے جتنا کھانا ہو اتنا ہی پکائیے اور تازہ تازہ کھائیے۔
لوہے کے برتن میں پکائیے:آپ جانتے ہیں کہ لوہے کے برتن میں تیار ہونے والے پکوان میں فولاد زیادہ شامل ہوتا ہے اور یوں جسم میں خون کی کمی کا قدرتی علاج ہوجاتا ہے۔ سبزیوں میں پالک فولادی سبزی کہلاتی ہے‘ کیونکہ اس میں فولاد قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے۔ اگر پالک کو لوہے کے توے یا کڑاہی میں پکایا جائے تو اس میں مزید فولاد شامل ہوجاتا ہے۔ اس بات کی تصدیق ہوچکی ہے کہ جن لوگوں کو فولاد کے شربت اور گولیاں موافق نہ آرہے ہوں وہ اگر روزانہ ایک مٹھی تازہ پالک لوہے کے توے یا کڑچھے میں ادھ کچاپکا کر کھائیں تو کمی خون کی شکایت آسانی سے دور ہوجاتی ہے۔ جسم قدرتی فولاد زیادہ آسانی سے ہضم کرلیتا ہے۔ اسی طرح دہی جماتے وقت لوہے کا صاف ٹکڑا اس میں ڈال دینے سے دہی میں فولاد شامل ہوکر آسانی سے جزوبدن ہوتا ہے۔
لوہے کے کڑچھے میں انڈے کا خاگینہ یا اسکریمبل تیار کرنے سے اس میں فولاد کی مقدار دوگنی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح لوہے کے برتن میں تیار ہونے والے کئی کھانوں میں فولاد شامل کیا جاسکتا ہے۔ لوہے کے برتن میں ٹماٹر پکانے سے اس میں فولاد کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ برصغیر میں مٹھائیوں کی تیاری میں لوہے کے برتن ہی استعمال ہوتے ہیں۔
غرض یہ کہ آج کی بیٹیوں کا (جو کل بیوی اور ماں بننے والی ہیں) غذائیت کی اہمیت سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ ان اصولوں کو برتتے ہوئے اپنے گھر کے افراد کی صحت بہتر رکھ سکتی ہیں۔ خود ان کی صحت بھی اچھی رہے گی جو عمدہ خانہ داری کا ایک اہم راز ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں