Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

فقر بعض دفعہ کفر میں ڈھلنے کے قریب لے جاتا ہے (بنت رشید، لاہور)

ماہنامہ عبقری - مارچ 2008ء

صبر بندگی کا خو بصورت ترین زیور ہے اور رضا و تسلیم کی ایک روشن علا مت ہے ۔مشکلا ت گھیر لیں اور آدمی اللہ تعالیٰ سے لولگا کر ان کاحو صلے سے مقابلہ کرلے اور اس کی نصرت کا منتظر رہے تو اس سے بڑھ کر بندگی اور تسلیم کا کیا ثبو ت ہو سکتا ہے ۔ زندگی میں قدم قدم پر آزما ئشوں کا سامنا ہو تا ہے ۔ اس لیے صبر و تحمل کے بغیر زندگی نہا یت مشکل ہے ۔ جو شخص عزم اور حوصلہ سے بہر ہ مند نہ ہو وہ زندگی کے امتحان سے فرار ہو جاتاہے ۔ صبر کا پو دا استقامت اور استقلا ل سے بنتا ہے ۔ ہر شخص میں عمل اور مقابلہ کا ملکہ مو جو د ہو تاہے ۔ اس ملکہ کو زندہ رکھنا اور اس کا صحیح استعما ل ہی صبر ہے ۔ یہ وہ خوبی ہے جس کی ہر حال میں ضرورت ہو تی ہے ۔ یعنی دشواری میں بھی اور آسانی میں بھی ، تمول میں بھی اور افلا س میں بھی ، بے سرو سامانی میں بھی اور شان و شوکت میں بھی ۔ صبر و تحمل یہ ہے کہ آدمی پر کوئی مشکل یا آزمائش آئے تو اس کے حوا س قائم رہیں اور اعتقاد میں فرق نہ آئے ۔ آہستہ آہستہ وقت گزرنے پر سب کو قرار آجا تاہے ۔ لیکن صحیح معنی میں صابر شخص وہ ہے جو بڑے سے بڑے صدمے پر بھی نہ گھبرائے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا دہے ۔ ” صبر صرف وہ ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو ۔ ‘ ‘ کلا م الہٰی سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان کی تخلیق اس کے لیے آزما ئشو ں کا پیغام ہے اور اس کی آزما ئش دکھوں میں ہے ۔ اللہ کا ارشا د ہے ۔ ” کیا تم نے گمان کر لیا کہ تم جنت میں داخل ہوجاﺅ گے حالانکہ اللہ نے ابھی تک نہیں جانچا تم میں سے اُن کو جنہو ںنے جہا د کیا اور انہیں جانچا ثابت قدم رہنے والو ں کو ۔“ مرا د یہ ہے کہ مسلسل امتحان کے بغیر جنت نصیب نہ ہو گی ۔ صبر تو امید کا چراغ ہے ۔ استقامت کے بغیر تو کوئی مہم پروان نہیں چڑھتی ۔ حدیث شریف میں ہے ” صبر روشنی ہے ۔ “ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ”فقر بعض دفعہ کفر میں ڈھلنے کے قریب لے جا تاہے ۔ ‘ ‘ صبر ایمان کے لیے اس طر ح ہے جس طر ح بدن میں روح ۔ جب صبر گیا تو ایمان بھی رخصت ہوگیا ۔ ایک دفعہ ایک صحا بی رضی اللہ عنہ جنا ب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اسلام کی کوئی ایسی بات فرمائیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی سے نہ پو چھو ں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ترجمہ ”کہہ میں اللہ پر ایما ن لا یا اور پھر ثابت قدم رہ “ صبر کی تربیت کے لیے اسلام میں کا مل اہتمام ہے ۔ مثلا ً ہر سال رمضان کے روزے فرض ہیں۔ کوئی شخص روزہ رکھ کر توڑ ڈالے تو کفا ر ہ یہ ہے کہ دو ما ہ روزے رکھے ۔ رمضان کے علا وہ بھی وقتاً فوقتاً نفل روزوں کی ترغیب ہے۔ روزہ سے بھوک اور پیا س اور دنیا کی مر غو بات کے مقابلہ میں صبر کا ملکہ پیدا ہو تاہے ۔ صبر کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی بساط کے مطابق ذمہ داریو ں کابوجھ اٹھا ئے اور ان پر پختگی سے کا ر بند رہے۔ اس سے وہ درجہ بدرجہ عظیم سے عظیم ذمہ داریو ں کو اٹھا نے کے قابل ہو جا تاہے ۔ حتی کہ صبر کا وہ مقام آجا تاہے کہ پہا ڑ بھی سر پر آ پڑے تو پا ﺅ ں میں لغزش نہی آتی ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حقیقت کی طر ف اشارہ کر کے فر ما یا ہے ۔ ” جو صبر کر لے، اللہ اسے صبر کی تو فیق دیتا ہے۔“ زندگی کے ادوار بدلتے رہتے ہیں ۔ انسان کولا زم ہے کہ تنگی ہو یا فراخی ، غلبہ ہو یا ضعف ہر حال میں ثابت قدم رہے ۔ دنیا کے جا دو میں نہ آنا صرف اصحاب صبر کا کام ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے آخری بر سو ں میں کل عرب کے فرمانروا تھے اور مزاج کے صبر و استقامت کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والو ں نے شاید ہی دو یا تین روز مسلسل پیٹ بھر کر گندم کی روٹی کھائی ہو ۔ مہینہ مہینہ بھر گھر میں چولھا نہیں جلتا تھا ۔ جذبات کے استقلال کے سلسلے میں عفو کا ذکر بھی ضرور ی ہے ۔ دشمن کا صفا یا کر لینے کے بعد اس سے عدل کرنا یا اسے معاف کر دینا صبر کا عین تقاضا ہے ۔ قرآن حکیم کی تعلیم ہے کہ بدلہ ہی لینا ہے توصر ف برابر کا لو ۔ صبر کرو اور بخش دو تو بڑے عزم کی بات ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ” پہلو ان وہ نہیں جو دوسروں کو پچھا ڑ دینے والا ہو ۔ پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کے وقت خو دپر قابو پا تا ہے ۔ یعنی صبر کر تا ہے ۔ فتح مکہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خون کے پیا سوں کو بھی معا ف کر دیا ۔ مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت پر یقین رکھتے ہوئے عزم و ہمت کے ساتھ تحمل کرنا چاہئے ۔ اللہ کا میا بی کی صورت دکھائے گا۔ ہا دی اسلام کو اس سلسلہ میں بارگاہِ الہٰی سے جو ہدایت ارشا د ہو ئی وہ امت کے لیے چراغ راہ ہے ۔ ” او ر اپنے رب کے فیصلے کا استقلال کے ساتھ انتظار کریں ۔ کہ ہماری آنکھیں آپ کی پاسبان ہیں۔ “ دنیا کی ہر تکلیف گنا ہ کی آلا ئش کو دھو تی ہے ۔ ہر دشواری ہر بلا مر دان ِ کا ر کے لیے دعوت عمل اور وسیلہ قرب الہٰی ہے ۔ یہیں ان کے صبر کے جو ہر کھلتے ہیں ۔ اور دنیا وآخرت میںسرخرو ہو تے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پا س اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نا زل ہو ئی کہ مجھے شکستہ د ل بندو ں کے پا س تلا ش کرو۔ انہوں نے پو چھا ۔ یا اللہ ! وہ کون لو گ ہیں ۔ جواب ملا ” صابر و فقراء“ ۔بے شک صبر کا اجر بے کنا رہے۔ بشار ت ربانی ہے۔ ” صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حسا ب کے ملتا ہے ۔ “
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 325 reviews.