ریل کے ڈبے میں باپ کو بٹھا یا اور جب گاڑی چلنے لگی تو باپ کو کہنے لگا ابو میں ذرا پھل لے آؤں اور گاڑی سے اتر گیا اور گاڑی جیسے ہی چلنے لگی تو حامد کے والد نے خوب آوازیں لگائیں لیکن حامد نے ایک نہ سنی اور اس کا باپ چلاتا رہا۔۔۔ لیکن حامد کے کان پر جوں تک نہ رینگی
محمد آصف قائم خانی
یہ واقعہ 70ء کی دہائی کا ہے۔ ہمارے شہر سے پانچ کلومیٹر دور ایک گاؤں ہے۔ اس گاؤں میں حامد نامی شخص اپنے باپ کے ساتھ رہتا تھا‘ اس کا باپ بوڑھا ہوچکا تھا وہ اپنے باپ کی تیمارداری سے عاجز آگیا بلکہ باپ جو دعاؤں کا ذریعہ ہوتے ہیں ان سے اپنی جان چھڑوانا چاہتا تھا ایک دن اس نے بہانا بنایا کہ علاج کے بہانے اس کو لے جاکر کہیں چھوڑ آئے اور خود آزاد ہوجائے۔ اس وقت کنڈیارو شہر سے ٹرین گزرتی تھی اور حامد اپنے والد کو لے کر سیدھا کنڈیارو پہنچا‘ ریل کے ڈبے میں باپ کو بٹھا یا اور جب گاڑی چلنے لگی تو باپ کو کہنے لگا ابو میں ذرا پھل لے آؤں اور گاڑی سے اتر گیا اور گاڑی جیسے ہی چلنے لگی تو حامد کے والد نے خوب آوازیں لگائیں لیکن حامد نے ایک نہ سنی اور اس کا باپ چلاتا رہا۔۔۔ لیکن حامد کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور خوشی خوشی گھر آگیا۔
وقت کا پہیہ گھومتا رہا‘ حامد کی اولاد جوان ہوگئی اور حامد بوڑھا ہوگیا حامد کا ایک جوان بیٹا بھی اپنے باپ سے ویسے ہی تنگ تھا جیسے حامداپنے باپ سے تنگ تھا‘ وہ باپ کی روز روز کی بیماری سے عاجز آگیااور ایک دن حامد کا بیٹے نے کہا ابا چلو آپ کو ڈاکٹر کو دکھا دوں اب منظر وہی تھا لیکن چہرے تبدیل ہوگئے تھے۔ حامد کا بیٹا بھی باپ کو ریلوے اسٹیشن لے آیا اور ریل کے ڈبے میں بٹھا دیا جب گاڑی چلنے لگی تو حامد کے بیٹا بولا :ابا جان آپ بیٹھیں میں ذرا تھوڑا سا پھل لے آؤں تو جیسے حامد کو جھٹکا لگا اور اس کے سامنے وہی منظر گھوم گیا جو سالوں پہلے اُس نے اپنے باپ کے ساتھ کیا تھا اور آج تک کسی کو خبر تک نہ ہوئی کہ حامد کے باپ کے ساتھ کیا ہوا؟ اور آج حامد خود اس مقام پر تھا وہ سب کچھ اس کے ساتھ ہونے والا تھا۔
ایک دم حامد نے آگے بڑھ کر بیٹے کا ہاتھ پکڑلیا اور کہنے لگا بیٹا اس روایت کو یہیں ختم کردو۔۔۔ اور زارو قطار روتے ہوئے اپنے بیٹے کو سارا واقعہ بتا دیا۔بیٹے کو ساری بات سمجھ آگئی کہ یہ مکافات عمل ہے اسی وجہ سے اس کو باپ سے دن بدن اتنی نفرت ہورہی تھی۔ حامد اپنے بیٹے کے ساتھ گھر واپس آگیا۔ حامد ہروقت رو رو کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہتا۔ بیٹے نے بھی اس کا خوب علاج کروایا اور خوب باپ کی خدمت کی۔وقت کے ساتھ ساتھ حامد اور اس کا بیٹا تو دنیا سے چلے گئے مگر ان کی اولاد آج بھی زندہ ہے اور سب حافظ قرآن ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں