وقت کاپہیہ چلتا رہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے الفاظ سن کر اپنی ناراضگی ظاہر کی‘ اللہ رب العزت نے ایسے حالات پیدا کردئیے کہ یہ آدمی جن کپڑوں میں کھڑا تھا سعودی حکام نے اسے اور اس کی بیوی بچوں کو جہاز میں بٹھا کر ڈی پورٹ کردیا‘ یہ کسی قسم کا سامان وہاں سے نہ لے جاسکا اور کراچی آگیا
(حق نواز‘رحیم یار خان)
محترم حکیم صاحب السلام علیکم! میں آپ کے رسالہ کا مستقل قاری ہوں‘ ایک واقعہ لکھ رہا ہوں۔ یہ سچا اور میرے سامنے کا واقعہ ہے یہ 1970-80ء کی درمیانی دہائی کا واقعہ ہے۔ ہمارے قریب ایک آدمی رہتا تھا اس کی تھوڑی سی زمین تھی اور ساتھ ہی وہ اینٹیں بنانے کاکام بھی کرتا تھا‘ اس وقت وہ سعودی عرب چلا گیا اور وہاں پر ایک سعودی سیٹھ کے ساتھ ایلومینیم فیکٹری چلاتا تھا‘ اس کی وہاں ٹھاٹھ باٹھ بن گئی‘ نت نئی کار تبدیل کرتا‘ جب پاکستان رہنے آبائی گھر آتا تھا تو علاقہ کے زمیندار اس سے ملنےکیلئے جاتے اور اس کی دعوتیں کرتے تھے‘ کئی زمیندار حضرات تو اس کے بیوی بچوں کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر کراچی ایئر پورٹ پر چھوڑنے اور لیجانے کیلئے جاتے تھے۔میرے ایک قریبی عزیز نے بتایا کہ 1977ء میں میں جب اس کے گھر سعودی عرب گیا تو اس کے گھر میں فریزر رکھا ہوا تھا اور وہاں پر ڈسپوزیبل بوتلوں کے کریٹ رکھے ہوئے تھے اور پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اگر مہمان زیادہ آجائیں تو بار بار بازار نہ جانا پڑے۔۔۔ حالانکہ اس دور میں پاکستان میں صرف کسی مریض کو بوتل پلائی جاتی تھی‘ عام بوتل پینے کا رواج نہ تھا۔ ایک دفعہ میں اپنے چچازاد بھائی کے ساتھ اس کے گھر گیا تو واپسی پر اس نے میرے اس چچازاد کو تین عدد گھڑیاں لاکر دیں اور بتایا کہ ان میں سے جو آپ کو پسند ہو وہ لے لیں‘ میرے اس چچازاد نے ویسٹ اینڈ واچ گھڑی رکھ لی۔ دوسرے دن وہ آدمی میرے چچا کے پاس آیا تو میرے چچا نے اسے بتایا کہ آپ نے میرے بیٹے کو گھڑی دی ہے اچھا کیا ہے لیکن آپ اس کی قیمت بتلا دیں میں آپ کو اس کی قیمت ادا کردوں گا۔ ہوسکتا ہے کہ آپ پر دوسری طرح کا وقت آجائے اور ہم آپ کی خدمت نہ کرسکیں تو اس وقت کا لیا دیا اچھا ہے۔ اس بات کا یہ مطلب تھا کہ ہوسکتا ہے کہ آپ دوبارہ غریب ہوجائیں اور ہم آپ کی امداد نہ کرسکیں۔ یہ بات میں اب لکھ رہا ہوں کہ میرے چچا علاقہ میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے تھے اور اس آدمی کے خط میرے چچا کے پاس ہی آتے تھے اور ان کا بھائی خط سن کر بھی جاتا تھا اور جواب بھی لکھوا جاتا تھا۔ایک دفعہ ان کا بھائی خط لیکر آیا اور میرے چچا نے انہیں پڑھ کر سنایا تو میں بھی ساتھ ہی بیٹھا ہوا تھا۔ اس خط میں دیگر حالات کے علاوہ یہ بات بھی لکھی ہوئی تھی کہ میں آج کے بعد یہ بات نہ سنوں کہ میرا بھائی اینٹیں بنارہا ہے‘ یہ میری شان کے خلاف ہے اور یہ کام تم آج ہی چھوڑ دو۔
وقت کاپہیہ چلتا رہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے الفاظ سن کر اپنی ناراضگی ظاہر کی‘ اللہ رب العزت نے ایسے حالات پیدا کردئیے کہ یہ آدمی جن کپڑوں میں کھڑا تھا سعودی حکام نے اسے اور اس کی بیوی بچوں کو جہاز میں بٹھا کر ڈی پورٹ کردیا‘ یہ کسی قسم کا سامان وہاں سے نہ لے جاسکا اور کراچی آگیا۔ وہاں سے کسی طرح وہ آدمی اپنے گھر آگیا اب وہ آدمی جو اسے ایئرپورٹ پر بٹھانے اور لے آنے کیلئے کراچی جاتے تھے منہ موڑ گئے جن کے پاس اس آدمی کے لاکھوں روپے جمع ہوتے تھے وہ پہچاننے سے انکاری تھے۔ اب یہ آدمی مرتا کیا نہ کرتا۔۔۔ خود اینٹیں بنانی شروع کردیں اور کئی سال تک اینٹیں بناتا رہا۔۔۔ اب اس آدمی کی اولاد جوان ہوگئی ہے‘ محنت مزدوری کرکے اپنا پیٹ پال رہے ہیں۔ سچ ہے کہ آدمی اپنے چھوٹے منہ سے کوئی بڑی بات نہ نکالے کب اللہ تعالیٰ کی ناراضگی آجائے اور وہ آدمی پکڑا جائے۔ یہ بھی سچ ہے کہ غرور کا سر نیچا۔
ترسانے والاخود ترس گیا
(محمد آصف محمود‘ کنڈیارو)
ہمارے علاقے میں ایک صاحب ہیں(ش) ان کا نام ہے۔ ایک وقت تھا پیسوں کی خوب ریل پیل خوشحالی‘ آسودگی تھی۔ ایک بڑا میڈیکل سٹور تھا‘ اس وقت ہمارے میں شہر میں چند ہی میڈیکل سٹور تھے۔ بندہ چھوٹا تھا تو خود بھی کئی بار دوائیں لینے ان کے سٹور پر جاتا تھا تو وہ گاہکوں سے بات ذرا کم ہی کرتے تھے۔ دوا لینی ہے تو لو ورنہ جاؤ۔ مزاج میں خشکی لیکن کاروبار ان کا بہت اچھا چل رہا تھا۔
پھراچانک کیا ہوا۔۔۔ کاروبار ختم ہونا شروع ہوگیا اور آخر ختم ہوتے ہوتے ختم ہی ہوگیا۔ سٹور تو اب بھی ہے لیکن ادویات نہ ہونے کے برابر ہیں بس سارا دن بیٹھ بیٹھ کر گھر چلے جاتے ہیں۔ گھر میں فاقوں کی کیفیت ہے جس کے گھر میں کبھی ہفتہ میں پانچ پانچ دن بکرے کا گوشت پکتا تھا۔ا ٓج وہ چٹنی سے روٹی کھارہے ہیں‘ مجھے ان کے یہ حالات دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ کبھی تو بڑے ٹھاٹھ تھے اور آج یہ کسمپرسی ۔۔۔ تجسس بھی کہ یہ حالات آخر ان کے کیوں ہوئے۔۔۔؟ ایک دن (ش) صاحب خود بتانے لگے کہ جب میرے اچھے دن تھے تو اس وقت میری بہنیں مجھ سے کسی چیز‘ ضرورت کا کہتیں کہ بھائی ہمیں یہ چیز لادو تو میں ان کو ہر ضرورت کی چیز کیلئے ترساتا تھا اور انہیں ترسا ترسا کر لا کر دیتا تھا حالانکہ میں وہ چیز اسی وقت دے سکتا تھا جب انہوں نے کہا تھا۔ لیکن انہیں ترسانے میں مجھے بہت مزا آتا تھا۔ کیونکہ میں گھرکا سربراہ تھا اور ہر چیز میرے ہاتھ میں تھی۔ بہنیں بے چاری میرے سامنے چپ کرجاتیں اور جیسے تیسے گزارہ کرلیتی تھیں۔ میرا دل کہتا ہے کہ مجھے اُن کی آہ لگ گئی ہے۔ آج میرے بچے ہر ضرورت کی چیز کو ترستے ہیں اور ان کو کھانا تک ٹھیک سے میسر نہیں ہے۔ غربت اور تنگدستی نے مجھے گھیر رکھا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں