کبھی غور کیا کہ جسم تو دُکھتا ہے ہماری روح کیوں نہیں دکھتی موجودہ معاشرہ روح کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے تباہی کا شکار ہے کیونکہ روح کے نہ ہونے سے جذبات کی تسکین نہیں ہوتی اور احساسات پروان نہیں چڑھتے جس کی وجہ سے معاشرہ تناؤ کا شکار ہے
(ناعمہ نذیر‘ چھمب آزادکشمیر)
انسان دو چیزوں کا مرکب ہے‘ ایک ہے ’’روح‘‘ اور دوسرا ’’جسم‘‘ اور جسم روح سے بنتا ہے یعنی جسم کی حقیقت روح سے ہوتی ہے لیکن آج کا انسان صرف جسم کا انسان ہے روح کا نہیں‘ وہ یہ محاورہ بھول چکا ہے کہ (Soul is a goal) کہ ’’روح منزل ہے‘‘ اور منزل انسانی حیات کی اصل ہے‘ اگر روح کو حقیقی معنی میں اپنی منزل تصور کرلیا ہے تو یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ تمام ترمنازل کی منزل روح ہی ہے۔ موجودہ معاشرے کی تباہ کاریاں اور سیاہ کاریاں جسم کی غذائیت کو پورا کرنے اور روح کو روحانیت نہ ہونے کی وجہ سے ہیں جن کا مختصر مگر حد تک جامع خاکہ درج ذیل ہے۔
1۔ روح اور جسم! بلاشبہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جسم نے روح کو اپنے اندر سمو رکھا ہے لیکن انسان کی حقیقت بنیادی طور پر روح سے ہے۔ جسم توصرف روح کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کی جسامت دکھاتا ہے اسی لیے روح پہلے اور جسم بعد میں آتا ہے۔
جسم کی غذا: لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جس طرح روح جسم کیلئے ضروری ہے بالکل اسی طرح جسم بھی روح کیلئے ضروری ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ معاشرہ اجسام کا ہے ارواح کا نہیں اور یہی مسئلہ تمام معاشرتی برائیوں اور بیماریوں کا پیش خیمہ ہے۔ ہم اپنی جسمانی صحت و نشوونما کیلئے کیا کیا ٹانک کرتے ہیں۔ اپنے جسم کی ایک ایک چیز کو سنوارتے ہیں۔ اس کے حسن میں اضافے کیلئے نت نئے طریقے اپناتے ہیں۔ جسم کو تمام بیماریوں سے محفوظ رکھنے کیلئے متوازن غذا کا استعمال کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں اور حکیموں سے رجوع کرتے ہیں۔ جسم کا کوئی حصہ کٹ جائے یا زخمی ہوجائے تو ہمیں دکھ بھی ہوتا ہے اور درد بھی۔۔۔
لیکن۔۔۔! کبھی غور کیا کہ جسم تو دُکھتا ہے ہماری روح کیوں نہیں دکھتی‘ موجودہ معاشرہ روح کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے تباہی کا شکار ہے کیونکہ روح کے نہ ہونے سے جذبات کی تسکین نہیں ہوتی اور احساسات پروان نہیں چڑھتے جس کی وجہ سے معاشرہ تناؤ کا شکار ہے اور یہی بات تمام تربرائیوں کی جڑ ہے۔
روح کی غذا: روح ایک بہت ہی پاکیزہ چیز ہے جو جسم کی طرح دکھائی تو نہیں دیتی لیکن نایاب ہوتی ہے۔ حقیقت ہوتی ہے۔ آج کا انسان جسم کی نیوٹریشن (غذائیت) کو تو پورا کرتا ہے لیکن افسوس کہ روح کو بھوکا رکھتا ہے‘ پیاسا رکھتا ہے اور جب روح ہی بھوکی پیاسی رہے گی تو پھر معاشرے کا انتشار کیونکر ختم ہوگا۔ جسم کی طرح روح کی بھی غذا ہوتی ہے اور روح کی غذا ہے ایمانیات‘ احساسات‘ جذبات‘ اخلاقیات اور تصورات یہ سب ہیں روح کی غذا۔ تفریقات‘ خواہشات‘ فسادات یہ ہیں جسم کی غذا۔
لیکن افسوس۔۔۔!!! اس بات کا ہے کہ آج کا انسان روح کو غلط خوراک دیتا ہے جس کی وجہ سے ری ایکشن بھی غلط ہوتا ہے اور انہی غلط ری ایکشنز کی وجہ سے رشتوں‘ ناطوں اور عزتوں کا پاس نہیں رہا۔ روح کی درست اور متوازن خوراک ’’ایمان‘‘ ہے جس کا آج فقدان ہے اور ایمان ہی تو اخلاقیات میں سب سے پہلے ہے۔
معاشرے کا انتشار: آج انسانی معاشرہ تمام تر برائیوں کا مرکز ہے‘ عبادتوں کا وہ خشوع و خضوع نہیں رہا‘ عزتوں کا وہ دستور نہیں رہا۔ آج والدین اپنی اولاد سے ناخوش ہیں۔ اولاد والدین کی نافرمان ہے۔ رشتوں کا وہ خلوص نہیں رہا‘ خون کی پیاس ہے اور دنگا فساد ہے‘ بہت سی برائیاں اس معاشرے میں ایسی جنم لے چکی ہیں کہ اگر لکھنے بیٹھیں تو قلم لغرش میں آجائے اور دل کی حرکت رک جائے‘ یہ سب کن وجوہات پر ہے۔۔۔؟؟؟ ذرا سوچیں۔۔۔! وہ کونسی کونسی وجوہات ہیں جنہوں نے معاشرے کو آج تباہی کی دہلیز پر کھڑا کررکھا ہے وجہ صرف اور صرف ایک ہے۔ ہماری روح تڑپ رہی ہے‘ ہماری روح ایمان سے خالی ہے۔ہماری روح تمام تراچھائیوں اور سچائیوں سے نابلد ہے۔
تمام جسمانی بیماریوں کا حل:جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ جسم نے روح کو اپنے اندر سمورکھا ہے تھوڑا سا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اگر بنیاد کمزور ہو تو عمارت تب گرتی ہے۔ یعنی کسی بھی چیز کی اصل جب بیمار ہوتی ہے تو تب ہی وہ چیز اپنی بنیاد کھوتی ہے تو بات کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آج انسان روح کی غذا کو پورا کرے۔ اسے تمام تر اخلاقیات اور ایمانیات سے پُر کرے اور جن چیزوں کا اُس میں فقدان ہے۔ ان چیزوں یعنی جذبات‘ ایمانیات‘ احساسات‘ اخلاقیات وغیرہ سے روح کو تسکین دے تاکہ روح کو تمام تر بیماریوں سے چھٹکارا مل سکے۔ اس سے نہ صرف معاشرے کا انتشار ختم ہوگا بلکہ انسانی جسم بھی تمام تر بیماریوں سے محفوظ رہے گا کیونکہ جب اصل محفوظ تو پھر عمارت تو محفوظ ہی محفوظ۔۔۔۔
لیکن ان تمام فائدوں کیلئے ایک شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ جسم کی غذائیت اور نشوونما کے ساتھ ساتھ روح کی غذائیت اور نشوونما کا بھی پورا خیال رکھا جائے کیونکہ ایمان کی تشکیل ارواح سے ہے اجسام سے نہیں۔اسی لیے معاشرہ بھی ارواح کا ہونا چاہیے اجسام کا نہیں کیونکہ روح کے ایمان سے ہی معاشرے اور ایمان کی بقاء اور تکمیل ممکن ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں