مراقبہ اور مالش سے بھی مدد ملتی ہے۔ پھر ایروما تھراپی (خوشبو سے علاج) سے بھی کچھ لوگوں کو فائدہ ہوجاتا ہے اور تصوراتی علاج (جس میں مریض کو اچھے ماحول کے تصور کو قائم کرنا سکھایا جاتا ہے) سے بھی ایسے افراد کو فائدہ ہوتا ہے
سہیل احمد‘ اسلام آباد
ذہنی دباؤ یا اسٹریس کی تعریف یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کو دماغ خطرناک سمجھتا ہو یا جس سے خطرہ محسوس ہواسٹریس کہلاتی ہے مثلاً بیرونی‘ نفسیاتی دباؤ ذہنی دباؤ‘ غیر معاندانہ حالات‘ دھمکی‘ بندوق کی آواز وغیرہ۔ اگر آپ کے دفتر کا ماحول آپ کے خلاف ہے تو یہ بھی اسٹریس ہے۔
خوف کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ خطرہ کا سامنا ہوجانے پر جو جسمانی و نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے وہ خوف کہلاتی ہے۔ یہی کیفیت اگر معمول سے بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہو تو فوبیا کہلاتی ہے۔ مثلاً چھپکلی سے بہت ڈرنا‘ چوہے سے ڈرنا‘ اونچائی سے ڈرنا وغیرہ۔ اگر کوئی بیرونی وجہ موجود نہ ہو اور پھر خوف کی کیفیت ہو تو یہ کیفیت اینگزائٹی (تشویش) کہلاتی ہے۔ عموماً یوں ہوتا ہے کہ خوفزدہ کرنے والی شے کا سامنا ہوجانے پر خوف کی کیفیت طاری ہوتی ہے اور جب خوفزدہ کرنے والی شے سامنے سے ہٹ جائے تو بھی خوف کی کیفیات برقرار رہتی ہیں۔ یہی امکانی خطرے کے تصور کی کیفیت اینگزائٹی کہلاتی ہے۔ شدید اینگزائٹی کا دورہ جو مختصر دورانیے کا ہوتا ہے اور وقفے وقفے سے پڑتا ہے۔ پینک ڈس آرڈر کہلاتا ہے۔ یہ ایک خفقانی کیفیت کا نام ہے جس میں مریض شدید تشویش محسوس کرتا ہے اور جب یہ کیفیت نہیں ہوتی ہے تو بھی اس بات سے خوفزدہ رہتا ہے کہ کہیں دوبارہ یہ کیفیت طاری نہ ہوجائے۔ ان تمام کیفیات سے ملتی جلتی کیفیت ڈیپریشن (یاسیت) کی ہوتی ہے۔ اس میں مریض شدید اداسی‘ مایوسی اور ناکامی محسوس کرتا ہے اور جب یہ کیفیت شدید ہوجاتی ہے توپھر اپنے آپ کو ختم کرنے اور خودکشی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ڈیپریشن کی نفسیاتی طور پر بہت ساری قسمیں ہیں۔ اس وقت دو قسموں کا تذکرہ ضروری ہے۔ ایک قسم وہ ہے جس میں ڈیپریشن کے ساتھ یہ محسوس ہوتا ہے کہ کام کرنے کی طاقت بدن میں نہیں رہی ہے اور دوسری قسم وہ ہے جس میں ڈیپریشن کے ساتھ شدید اینگزائٹی اور گھبراہٹ کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ ایسے مریض کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جیسے کسی آزاد پنچھی کو پنجرے میں بند کردیا جائے۔ یہ تمام اصطلاحات یہاں مختصراً اس لیے بیان کی گئی ہیں کہ مضمون کا آئندہ حصہ ان کے سمجھے بغیر پڑھنا ممکن نہیں ہے۔
عام زندگی میں ہم کبھی نہ کبھی پریشانی اور تشویش میں مبتلا ضرور ہوتے ہیں اور تھوڑی بہت پریشانی اور فکر تو ازحد ضروری ہے زندگی سے نمٹنے کیلئے تاہم اینگزائٹی کا مرض ایک الگ کیفیت اور بیماری کا نام ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ شدید تشویش کی بیماری میں مبتلا ہیں تو پھر ماہر نفسیاتی امراض سے رجوع کریں۔ تشویش یا اینگزائٹی کے علاج کے بہت سارے طریقے ہیں اور ہر طریقہ اپنی الگ افادیت رکھتا ہے۔ ہم ذیل میں مختلف طریقوں اور ان کے اثر کرنے کے نظام پر گفتگو کریں گے۔
رویہ کا علاج عموماً یہ ہوتا ہے کہ جب دماغ خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے تو ہم اس خطرے کی گھنٹی کو بند کردیتے ہیں۔ رویہ کے علاج میں اس کا بالکل الٹ کیا جاتا ہے۔ اس علاج کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ اگر معمول یامریض خطرے کی گھنٹی کو نظرانداز کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر وہ تشویش یا گھبراہٹ پر قابو پالیتا ہے۔ اس طریقہ علاج میں مریض کوآہستہ آہستہ اور تھوڑا تھوڑا کرکے ان اشیاء اور جگہوں سے متعارف کرایا جاتا ہے جن کا مریض کے دل پر خوف ہوتا ہے اور یوں یہ خوف زائل ہونے لگتا ہے۔ یا یوں سمجھ لیں کہ انسان خوف کا اثر لینا بند کردیتا ہے۔ مثلاً ایک مریض جس کو خون بہتا دیکھ کر خوف آتا ہے ابتدا میں اس کو چاقو‘ سرنج وغیرہ دکھاتے ہیں اس کے بعد خون کی تھیلی دکھاتے ہیں۔ اس کے بعد بہتا ہوا خون دکھایا جاتا ہے۔ اس طریقہ علاج میں اس بات کا خطرہ ضرور رہتا ہے کہ اگر وقت سے پہلے مریض کو خوفزدہ کرنے والی چیز دکھادی جائے تو اس سے مریض کا خوف دگنا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اس طریقہ میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اگر بالکل صحیح طریقہ سے علاج کیا جائے تو دو یا زیادہ سے زیادہ پانچ دفعہ کے علاج کے بعد مریض کا خوف زائل ہوجاتا ہے۔
سوچ کا علاج: اس طریقہ میں مریضوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ بجائے اس کے کہ خوفزدہ ہوجائیں‘ منطق سے کام لیں اور حقیقت پسندی کا ثبوت دیں۔ 1980ء میں سامنے آنے والے اس طریقہ علاج میں مریضوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ خوفزدہ پریشان اور اداس ہوں وہ اپنی مشکلات اور اپنے ماحول کا جائزہ لیں اور حقیقت پسندی سے کام لے کر ان مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ مثلاً اگر کسی شخص کو ملنے جلنے کا خوف ہے یا معاشرتی خوف ہے تو اس کے بارے میں بری رائے رکھتے ہیں یا بری باتیں کرتے ہیں وہ درست بھی ہے یا نہیں ہے اور اگر درست نہیں ہے تو اس شخص کا آدم بیزار رویہ غلط ہے۔ یعنی اس علاج میں اول غلط سوچ کو درست سوچ سے تبدیل کیا جاتا ہے اور پھر درست سوچ انسانی رویے کو بہتر بناتی ہے۔اس طریقہ علاج پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ شدید گھبراہٹ میں مبتلا مریض میں اتنی صلاحیت کہاں ہوتی ہے کہ وہ اپنی سوچ کا درست تجزیہ کرسکتا ہو؟ اس اعتراض کے پیش نظر اب سوچ کا علاج اور رویہ کا علاج ایک ساتھ کیا جانے لگا ہے۔سکون آور ادویات: رویاسیت (ڈیپریشن) ادویات کو اپنے اثرات تک پہنچنے میں کچھ وقت لگتا ہے مثلاً ایک یا دو ہفتے۔ اس ایک یا دو ہفتہ کے وقت میں سکون آور ادویات استعمال کی جاسکتی ہیں‘ مثلاً زی نیکس‘ ویلیم‘ لیکسوٹونل وغیرہ۔ ان ادویات کے استعمال میں خرابی یہ ہے کہ یہ ادویات انسان کو عادی بناسکتی ہیں اور دیگر یہ کہ یہ ادویات مختلف جسمانی و نفسیاتی علامات کو چھپا دیتی ہیں اور یوں تشخیص میں اور علاج میں دشواری پیش آتی ہے۔
ورزش: تشویش کی بیماری میں ورزش سے خاطر خواہ کمی ہوجاتی ہے۔ صرف تیز چلنے اور ہلکی پھلکی ورزش سے بھی تشویش کی شدت میں کمی کی جاسکتی ہے۔ اگر آپ 30 منٹ روز ورزش کرتے ہیں تو پھر آپ گھبراہٹ کی بیماری سے بچ سکتے ہیں۔
دیگر علاج: یوگا بھی ایک اہم طریقہ ہے۔ اس طریقہ میں ورزش بھی کی جاتی ہے اور دماغ کو توجہ کے ارتکاز اور سانس کے کنٹرول کی مشق سے بھی خاطر خواہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مراقبہ اور مالش سے بھی مدد ملتی ہے۔ پھر ایروما تھراپی (خوشبو سے علاج) سے بھی کچھ لوگوں کو فائدہ ہوجاتا ہے اور تصوراتی علاج (جس میں مریض کو اچھے ماحول کے تصور کو قائم کرنا سکھایا جاتا ہے) سے بھی ایسے افراد کو فائدہ ہوتا ہے۔ ایکوپنکچر سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔
زندگی گزارنے کے طریقے: اگر کسی چیز سے فائدہ نہ ہو تو پھر دوبارہ سے غور کریں۔ کہیں آپ نے زندگی کو مسلسل مشقت تو نہیں بنالیا ہے۔ اپنی چائے میں شکر کی مقدار کم کرلیں۔ کافی‘ چائے‘ سگریٹ‘ شراب وغیرہ سے پرہیز کریں۔ وقت پر کھانا کھائیں۔ مناسب نیند لیں۔ اپنے فارغ اوقات کو بہتر مصارف میں گزاریں۔ اگر آپ کاکام ایسا ہے جو آپ کو مسلسل دباؤ میں رکھتا ہے تو کام کے دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ خدا نے آپ کو ایک ہی زندگی دی ہے اور واجب یہ ہے کہ اس زندگی کو بہتر طور سے گزارا جائے لوگوں کے کام آئیں اور لوگوں کے دکھ درد کو بانٹیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں