چلنا آپ کے جسم کے علاوہ آپ کے ذہن پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ انتشار اور دباؤ سے چھٹکارا حاصل کرنے کا بہترین طریقہ پیدل چلنا ہے۔ واکنگ آپ کو خوش و خرم رکھتی اور ذہن کو پریشان کن خیالات سے پاک کرتی ہے۔
محمد اشرف مرزا
اطباء کا قول ہے کہ جو شخص روزانہ دو میل پیدل چلے ہم اسے اچھی صحت کی گارنٹی دے سکتے ہیں۔ سائنس نے بھی ثابت کردیا ہے کہ پیدل چلنا صحت کیلئے نہایت مفید ورزش ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں اس بات کی سمجھ آچکی ہے تاہم جو نہیں سمجھ پائے وہ بھی ایک مرحلے پر ضرور سمجھ جاتے ہیں انہیں درحقیقت اس وقت سمجھ آتی ہے جب بلڈپریشر‘ شوگر یا دل کا دورہ پڑنے پر مستند معالج انہیں پیدل چلنے کا مشورہ دیتے ہیں تب اس بات کا احساس بخوبی اجاگر ہوتا ہے کہ ’’پرہیز علاج سےبہتر ہے‘‘۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ میرا دایاں اور بایاں پاؤں ہی میرا معالج ہے۔ ایک شیرخوار بچہ جب تک چلنے کے قابل نہیں ہوتا وہ بیماریوں کی زد میں رہتا ہے۔ انسانی زندگی کا یہ مرحلہ صحت کےا عتبار سے نازک ہوتا ہے۔ سمجھ دار والدین کوشش کرتے ہیں کہ ان کے بچے جلدی چلنا پھرنا شروع کردیں۔ چنانچہ وہ ان کی مدد کیلئے واکر استعمال کرتے ہیں بچہ جتنا جلدی چلنا پھرنا شروع کرتا ہے اتنا ہی یہ عمل اس کی صحت کی حفاظت کیلئے مفید ہوتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ بڑے ہوکر لوگ چلنے پھرنے سے اجتناب شروع کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ مصروفیت یا سستی ہوسکتی ہے۔ حالانکہ دن میں ایک گھنٹہ واک کیلئے وقت کرنا چنداں مشکل نہیں۔
پرندوں کا کام اڑنا ہے‘ اڑنے سے وہ صحت مند رہتے ہیں جن پرندوں کو پنجروں میں ڈال دیا جاتا ہے ان کی زندگی کم ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اڑنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اگر گاڑی کو ایک ماہ کیلئے کھڑا کردیا جائے اور پھر سٹارٹ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس عرصہ میں اس میں کئی نقائص پیدا ہوچکے ہیں اگر کچھ اور نہ بھی ہو تو بیٹری ضرور ڈسچارج ہوچکی ہوتی ہے یعنی چلتی کا نام گاڑی ہے۔
وہ گائے‘ بھینس جو چراگاہوں میں چرتی ہے‘ زیادہ دودھ دیتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ چلتی پھرتی رہتی ہے جس کے باعث وہ صحت مند رہتی ہے فوجیوں کو سب سے پہلے چلنا سکھایا جاتا ہے۔ اس ٹریننگ میں بینڈ سے کام لیا جاتا ہے تاکہ چلنے کے عمل ردھم پیدا ہوجائے چلنے کا عمل جسے ڈرل کہتے ہیں جہاں ڈسپلن سکھاتا ہے وہاں اچھی صحت کا ضامن بھی ہے۔ بری (پیدل) فوج کے ایک صحت مند فوجی کو دن میں بیس میل چلنے کے قابل ہونا چاہیے۔ اس فوج کے سپاہی زیادہ چاق و چوبند اسی لیے ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ پیدل چلتے ہیں فوج میں گھوڑوں خچروں اور کتوں کو بھی واک کرائی جاتی ہے۔
جب آدمی پیدل ہوتا ہے تو بستر پر لیٹ جاتا ہے جونہی وہ صحت مند ہونا شروع ہوتا ہے وہ اٹھ کر چلنا پھرنا شروع کردیتا ہے۔ جدید طرز زندگی میں لوگ بہت کم چلتے ہیں اگر موجودہ دور کے انسان کے معمولات پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا چلنا پھرنا صبح بستر سےباتھ روم اور تیار ہوکر گیراج تک اور گاڑی سے اتر آفس تک اور پھر اسی طرح واپسی پر یعنی وہ دن میں زیادہ سے زیادہ سوگز پیدل چلتا ہے یہ تو ایک بیمار آدمی کا طرز عمل ہے۔
چلنا آپ کے جسم کے علاوہ آپ کے ذہن پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ انتشار اور دباؤ سے چھٹکارا حاصل کرنے کا بہترین طریقہ پیدل چلنا ہے۔ واکنگ آپ کو خوش و خرم رکھتی اور ذہن کو پریشان کن خیالات سے پاک کرتی ہے۔ صحت مند جسم اور ذہن ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیں۔
پیدل چلنا سب سے سستی ورزش ہے جس کیلئے صرف جوتوں کے ایک اچھے جوڑے کی ضرورت ہے آج ہی خریدئیے اور چلنا شروع کردیجئے اور اطباء کا ایک قول یاد دلاتا جاؤں۔ ’’آپ کا دل آپ کی ٹانگوں میں ہوتا ہے‘‘ دل کو صحت مند رکھنے کیلئے پیدل چلنے کی طرف یہ ایک واضح اشارہ ہے۔
اچھی صحت کیلئے سخت محنت والی ورزش ہی ضروری نہیں۔ حال ہی میں دو امریکی اداروں نے دو ایسے تحقیقی جائزے تیار کیے ہیں جن سے واضح طور پر یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ جو لوگ روزانہ کچھ دیر تک چہل قدمی (واکنگ) کرتے ہیں یا درمیانی محنت والی ورزش کرتے ہیں ان کی عمر ایسے لوگوں سے زیادہ لمبی ہوتی ہے جو عام طور سے بیٹھے ہی رہتے ہیں‘ ہلتے جلتے کم ہیں‘ اور محنت و ورزش سے جی چراتے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق روزانہ دو میل ٹہلنے والے بڑی عمر کے افراد کو ایسے لوگوں کو بہ نسبت ہارٹ اٹیک کا خطرہ آدھا رہ جاتا ہے جو دن میں ایک میل بھی نہیں ٹہلتے۔ جدید ریسرچ کے مطابق وہ لوگ سب سے کم چہل قدمی کرنے والے تھے ان کیلئے سرطان کا خطرہ ایسے لوگوں کی بہ نسبت دو گنا سے بھی زیادہ تھا جو سب سے زیادہ چہل قدمی کرتے رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ چہل قدمی انسان کو مرض قلب اور فالج سے محفوظ رکھتی ہے لیکن بعض حلقوں میں اس جائزے کے اعداد و شمار کو قابل اعتنا نہیں سمجھا اور کہا کہ یہ اعداد و شمار اتفاق پر محمول ہوسکتے ہیں تاہم اس سے قبل ایک جائزہ تیار ہوا تھا کہ جس میں ورزش اور قلب کی بیماری کے انسداد میں باہمی تعلق کے واضح شواہد مل چکے ہیں۔ اس تحقیق سے نتیجہ یہ نکالا گیا کہ جو عورتیں ہفتے میں کم از کم تین گھنٹہ تیز (تین سے چار میل فی گھنٹہ) چہل قدمی کرتی ہیں ان کیلئے ان عورتوں کی بہ نسبت مرض قلب اور فالج کا خطرہ 54 فیصد کم ہوجاتا ہے جو عام طور پر بیٹھی رہتی ہیں۔جو لوگ سہل پسند زندگی گزارتے ہیں یعنی ہلتے جلتے کم ہیں‘ دفتر اور گھر میں زیادہ وقت بیٹھ کر ہی گزار دیتے ہیں وہ غالباً یہ سمجھ رہے ہیں کہ ورزش کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ ان لوگوں کیلئے ایک اور حالیہ جائزے کی تفصیل پیش کی جارہی ہے جو فروری 1998ء میں شائع ہوا ہے۔ یہ جائزہ فن لینڈ کی یونیورسٹی میں کیا گیا اور اس کا نتیجہ یہ اخذ کیا گیا کہ باقاعدہ ورزش سے لوگوں کی زندگی بڑھ جاتی ہے خواہ ان کا نسلی یا موروثی پس منظر کچھ ہی کیوں نہ ہو۔
اس بات کے شواہد بھی ملے ہیں کہ جو لو گ نسبتاً زیادہ محنت والی ورزش کرتے ہیں مثلاً ہفتے میں کئی بار جوگنگ یا پیراکی کرتے ہیں یا پھر ٹینس کھیلتے ہیں ان کی عمر سب سے زیادہ ہوتی ہے لیکن جو لوگ تندرست رہنے کیلئے صرف چہل قدمی پر اکتفا کرتے ہیں وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔
ان جائزوں کا جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے مجموعی طور پر جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ روزانہ ذرا لمبی چہل قدمی کرتے ہیں وہ اپنے دور کے ان لوگوں کی بہ نسبت لمبی زندگی گزارتے ہیں جو ورزش نہیں کرتے‘ چلنے پھرنے سے کتراتے ہیں اور لیٹے بیٹھے ہی دن گزار دیتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں