Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

اسلام کے کاروباری اخلاق - حصہ دوئم

ماہنامہ عبقری - مارچ2015ء

اسلام چوری کردہ چیز کی خریدوفروخت کو حرام اور ناجائز قرار دیتا ہے۔ یہ کسی کیلئے جائز نہیں کہ جان بوجھ کر چوری کی چیز خریدےیا بیچے۔ آپ ﷺ نے چوری کردہ مال کی خریدوفروخت کرنےوالے کو چور کا شریک جرم قرار دیا ہے۔
 (ڈاکٹر بشیر احمد رند)

بیع الغرر (غیریقینی اور خطرہ پر مبنی کاروبار): بیع الغرر سے مراد وہ کاروبار ہوتا ہے جس میں مال (بیچی ہوئی چیز) یا قیمت طے نہ ہو یا دونوں طے نہ ہوں یا ان میں ابہام ہو‘ مثال کے طور پر اگر یہ چیز نقد خریدے گا تو اس کی قیمت سو روپے اور اگر ادھار خریدے گا تو دو سو روپےاور خریدار وہ چیز لے لے لیکن یہ طے نہ کرے کہ اس نے نقد پر لی ہےیا ادھا پر، اس کو ایک بیع کے اندر دوسری بیع بھی کہا جاتا ہےیا ایسی چیز بیچنا جس کے حوالے کرنے پر بائع کو قدرت نہ ہو جیسے ایسا پرندہ بیچنا جو ہوا میں ہو یا وہ مچھلی بیچنا جو پانی میں ہو (سوا اس کے کہ پوری جھیل ٹھیکے پر دی جائے) یا بیع و شراء میں ایسی شرط لگا دی جائے جو معاملہ کا جز یا رکن نہ ہو، مثال بائع کہے کہ میں یہ چیز تمہیں بیچ دیتا ہوں لیکن تم اسے کسی کو ہبہ نہیں کروگے یا کسی کو نہیں بیچو گے یا درختوں پر موجود ایسے پھل بیچنا جو ابھی درست نہ ہوئے ہوں (سوا اس کے کہ پورا باغ ٹھیکے پر دیا جائے) یا ایسی فصل بیچنا جو ابھی تک ٹھیک سے پک نہ چکی ہو (سوا اس کے کہ پوری فصل ٹھیکے پر دی جائے) یا کسی جانور کا بچہ جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہو بیچنا۔ خریدو فروخت کی یہ ساری صورتیں اس لیے درست نہیں کہ جانبین سےعقد ہوجانے کے باوجود بھی نزاع اور مناقشہ کی صورتیں باقی ہیں اور کسی بھی فریق کیلئے نقصان اور دھوکے کا باعث ہوسکتی ہیں۔ اس قسم کے معاملات میں تعاون باہمی کے بجائے لڑائی اور جھگڑے کی بنیاد پڑتی ہے اور یہ چیز مقصد تجارت کے خلاف ہے۔ اس لیےاسلام ہر ایسےکاروبار سے روکتا ہے جس کا انجام نزاع ہو۔ اس سلسلے میں نبی اکرم ﷺ کے مندرجہ ذیل ارشادات ملاحظہ ہوں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے بیع الغرر یعنی مبہم اور دھوکے والے کاروبار سے روکا اور پتھری پھینک کر سودا کرنے سے روکا۔ (جامع ترمذی 1230)حضور نبی کریم ﷺ نے ایک سودے کے اندر دوسرے سودے کرنے سے روکا۔ (جامع ترمذی 1231)آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو چیز تیرے قبضے میں نہیں اس کو فروخت مت کر۔ (جامع ترمذی1232)آپ ﷺ نے انگور کو پکنے سے پہلے اور غلہ کو سخت ہونے سے پہلےبیچنے سے منع فرمایا۔ (جامع ترمذی: 1228)حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: پھلوں کی خریدو فروخت اس وقت تک نہ کرو جب تک وہ درست نہ ہوجائیں اور بیماری لگنے کا خطرہ جب تک ان سے ٹل نہ جائے۔ (صحیح مسلم 3865)حضور نبی اکرم ﷺ نے ماں کے پیٹ میں موجود بچہ کی خریدو فروخت سے منع فرمایا۔ (صحیح مسلم3809، ماجہ: 2197)فریب اور دھوکہ پر مبنی کاروبار: اسلام بیع و شراء کے ہر ایسے معاملہ کو کاروباری اخلاقیات کے خلاف قرار دیتا ہے جس میں کسی قسم کا فریب اور دھوکہ ہو‘ مثال کے طور پر دکھائی ایک چیز جائے اور دی دوسری چیز جائے یا عیب چھپا کر کوئی چیز بیچی جائے‘ ایسے معاملے کو عربی میں’’غش‘‘ کہتے ہیں۔ اسی طرح ناپ تول میں کمی بیشی کہ جب کسی سے کوئی چیز لی جائے تو پوری لی جائے لیکن جب ناپ تول کردی جائے تو اس کے حق سے اسے کم دی جائے جس کو عربی میں ’’تطفیف‘‘ کہتے ہیں یا جب دوشخصوں کے مابین لین دین کا کوئی معاملہ ہورہا ہو تو ایک تیسرا شخص شیء کی بولی بڑھا دے‘ حالانکہ اس کا خریدنے کا کوئی ارادہ نہ ہو محض اس لیے قیمت بڑھا رہا ہو کہ لینے والا مہنگے داموں خریدلے‘ اس کو عربی میں’’نجش‘‘ کہتے ہیں۔ اسلام اس قسم کے فریب والےکاروبار سے روکتا ہے‘چنانچہ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جو بیع و شراء کے معاملے میں فریب کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں۔ (سنن ابی داؤد3456)اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ’’وزن کو انصاف کے ساتھ ٹھیک رکھو اور تول کو گھٹاؤ مت‘‘ (الرحمٰن:9)ترجمہ:’’ بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے کہ جب لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا ہی لیں اور جب انہیں ناپ یا تول کردیں تو گھٹا دیں۔‘‘ (مطففین: 1تا3)حضور نبی کریم ﷺ نے نجش یعنی خریدار کو دھوکہ دینے کی نیت سے شیء کی زیادہ بولی لگانےسے روکا۔ (صحیح بخاری 2142)اسی طرح جب متعاقدین کے مابین کسی قیمت پر سودا طے ہوچکا ہو تو اس وقت بھی کسی کیلئے درست نہیں کہ فروخت شدہ چیز کی قیمت بڑھا چڑھا کر بتائے کیونکہ اس کے نتیجے میں بائع لالچ میں آکر سودا توڑسکتاہے جس کے نتیجے میں نزاع اور مناقشہ پیدا ہو سکتا ہے چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے اور نہ سودا طے ہونے کے بعد اپنے بھائی کے بہاء سے زیادہ بہاء بتائے۔ (صحیح بخاری: 2140، ترمذی: 1292ِ، ابن ماجہ: 2172)آپ ﷺ نے ایسے فریبی کاروبار سے سختی سے روکا اور مسلمانوں کو ہدایت دی کہ تجارت میں سچائی سے کام لیں‘ اسی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت نازل ہوتی ہے جبکہ دھوکہ اور فریب والے کاروبار میں کوئی برکت نہیں ہوتی چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: بائع اور مشتری جب تک ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوں انہیں اختیار حاصل ہے کہ چاہیں تو سودا طے کریں اور چاہیں تو رد کریں۔ پھر اگر فروخت کرنے والا اور خریدار اپنے معاملے میں سچ بولیں گے اور چیزیں کے عیب و صواب کو ایک دوسرے کے سامنے بیان کردیں گے تو اس سودے میں ان کیلئے برکت دی جائے گی اور اگر انہوں نے فروخت ہونے والی چیز کا عیب چھپایا اور جھوٹ سے کام لیا تو ان کے سودے سے برکت اٹھالی جائے گی۔‘‘ (صحیح بخاری: 2082، ترمذی: 1246)قسم کھانا: تاجروں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنی اشیاء بیچنے کیلئے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں‘ اسلام کاروبار میں خواہ مخواہ قسمیں کھانے سے روکتا ہے‘ چاہے سچی ہوں یا چھوٹی۔ جھوٹی قسم تو اسلام کی نظر میں ایک بہت بڑا گناہ ہے اور سچی قسم کھانے کو بھی اسلام اس لیے پسند نہیں کرتا کہ اشیاء کی خریدو فروخت میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے نام کو استعمال کرنا اس کی شان، عظمت اور آداب کے خلاف ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ مسلمان متعاقدین لین دین میں بغیر قسم اٹھائے سچ سچ بولیں‘ ان کا کردار ایسا پاک صاف ہو کہ ان کی بات ہی سچائی کی ضمانت ہو۔ اسلام کاروبار میں قسمیں کھانے کو بے برکتی کا باعث قرار دیتا ہے چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بائع کے قسم کھانے سے ہوسکتا ہے کہ وہ چیز بک جائے لیکن بائع کیلئے اس سودے میں کوئی برکت نہیں ہوگی۔ (صحیح بخاری 2087)چوری کیے ہوئے مال کی خریدو فروخت: اللہ تعالیٰ نےچوری کو حرام قرار دیا ہے اور اسے قابل سزا جرم ٹھہرایا ہے۔ اگر کسی پر چوری اپنے قانونی تقاضوں سمیت ثابت ہوجائے تو اسلام‘ چور کا کلائی کے جوڑ سے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا ہے لیکن اگرچور کسی وجہ سے چوری کی سزا سے بچ بھی جائے تو اسلام چوری کردہ چیز کی خریدوفروخت کو حرام اور ناجائز قرار دیتا ہے۔ یہ کسی کیلئے جائز نہیں کہ جان بوجھ کر چوری کی چیز خریدےیا بیچے۔ آپ ﷺ نے چوری کردہ مال کی خریدوفروخت کرنےوالے کو چور کا شریک جرم قرار دیا ہے۔ (علی المتقی: کنزالعمال، حدیث انسائیکلوپیڈیا، ورژن 1،2، حرف انفارمیشن ٹیکنالوجی حدیث: 9258) ذخیرہ اندوزی: ذخیرہ اندوزی کیلئے عربی میں لفظ ’’احتکار‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ احتکار کا مطلب  یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص اشیاء خوردنی میں سے کوئی چیز ذخیرہ کرکے رکھ دے اس نیت سے کہ جب مارکیٹ سے وہ چیز ذخیرہ کرکے رکھ دے‘ اس نیت سے کہ جب مارکیٹ سےوہ چیز ختم ہوجائے گی اور صرف اس کے پاس رہےگی تو اسے مہنگے داموں فروخت کرے گا۔ کبھی اس طرح بھی ہوتا ہے کہ ایک تاجر مال پہنچانے والوں سے گٹھ جوڑ کرلیتا ہے کہ فلاں چیز صرف اسے پہنچائی جائے تاکہ مارکیٹ میں وہ چیز کسی اور کے پاس نہ ہو۔ اس صورت میں اس کیلئے موقع ہوتا ہے کہ اس چیز کی قیمت بڑھا چڑھا کر حاجت مندوں کو بیچے چونکہ یہ عمل بے انصٓافی اور عوام الناس کے استحصال پر مبنی ہے اس لیے اسلام اس کی سخت مذمت کرتا ہے اور سختی کے ساتھ اس سے روکتا ہے چنانچہ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ذخیرہ اندوزی صرف ایک خطاکار ہی کرسکتا ہے۔‘‘
(سنن ابن ماجہ2154) آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’(اشیاء خوردونوش) بازار میں لاکر فروخت کرنے والے کو رزق دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر خدا کی جانب سےلعنت ہوتی ہے۔‘‘بازاری نرخ چھپا کر لوگوں کا استحصال کرنا:اس کا مطلب یہ ہے کہ ناواقف کاشتکاروں اور تاجروں کو شہر کے نرخ کا پتہ نہ دیتے ہوئے باہر ہی سے سستے سےسستے داموں غلہ خرید کرلینا اور جب فروخت کرنے والے شہر میں داخل ہوں تو انہیں معلوم ہو کہ ان کے ساتھ فریب ہوا ہے یا اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شہر میں قحط پڑرہا ہے اور لوگوں کو مثلاً غلہ کی سخت ضرورت ہے یہ دیکھ کرچند ارباب دولت شہر سے باہر نکل کر کسانوں، کاشتکاروں اور سادہ لوح تاجرین غلہ کے پاس پہنچے اور غلہ کو سستی قیمت پر خرید لیا تاکہ شہرمیں اس کو من مانی گراں قیمت پرفروخت کریں۔  (سیوہاروی: اسلام کا اقتصادی نظام، ص:250) یا یہ کہ کوئی شہر کا باشندہ دیہاتی تاجر کو کہے کہ اس وقت شہر میں ارزانی ہے‘ اس لیے اپنا غلہ میرے پاس رکھ لو‘ جب مہنگائی ہوگی تب میں اسے بیچ دوں گا۔ یہ کاروبار اسلام سے پہلے عربوں میں جاری تھا۔ اس تجارت میں چونکہ بازاری نرخ چھپا کر سادہ لوح لوگوں کے ساتھ دھوکہ کیا جاتا ہے یا اہل شہر پر زیادتی کی جاتی ہے کہ ایک ارزاں چیز ان کو مہنگے داموں بیچی جاتی ہے‘ اس لیےاسلام ایسے کاروبار کی مذمت کرتا ہے اور اس سے روکتا ہے آپﷺ کا ارشاد ہے: شہر سے نکل کر باہر قافلہ والوں سے نہ ملو اور نہ ہی شہر کا باشندہ دیہاتی کی کوئی چیز فروخت کرے۔ اشیاء کی قیمتوں کا تعین: جب تاجر تجارتی اخلاق پر عمل کرتے ہوئے تجارت کریں تو اسلام تاجروں کو مکمل طور پر کاروبار میں آزادی دیتا ہے اور اس بات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا کہ ان کیلئے منافع متعین کرکے اشیاء کی قیمتیں مقرر کی جائیں کیونکہ قیمتوں کی کمی بیشی کے کئی اسباب ہوتے ہیں‘ اس میں صرف تاجروں کی لالچ کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ اس لیے ممکن ہے کہ قیمتوں کا تعین انفرادی اور اجتماعی مفاد میں نہ ہو۔ منقول ہے کہ آپﷺ کے دور میں قیمتیں بڑھ گئیں تو لوگوں نے آپ ﷺ سے قیمتوں کےتعین کامطالبہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہی قیمتیں متعین کرنے والا ہے وہ ہی تنگی دینے والا اور وہ ہی کشادگی دینے والا ہے‘اور وہ ہی بڑا رزق عطا کرنے والا ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ جب میری خدا سے ملاقات ہو تو تم میں سے کوئی بھی میرے خلاف خون یا مال کے بارے میں بے انصافی کا دعویٰ نہ کرے۔‘‘جامع ترمذی1314)البتہ اگر تاجروں کی طرف سے بے جا منافع خوری اور عوام کا استحصال کیا جارہا ہو تو ایسی صورتحال میں عوامی مفاد کے پیش نظر ریاست کو قیمتوں کے تعین کا حق حاصل ہے تاکہ عوام اور چھوٹے تاجروں کو ناجائز منافع خوروں کی زیادتیوں سے بچایا جاسکے۔ملازمین کے ساتھ حسن سلوک:اسلام آجر اور اجیر میں بہتر تعلقات چاہتا ہے، اسلام چاہتا ہے کہ ان کا باہمی تعلق تعاون اور ہمدردی و خیرخواہی کے جذبے کے تحت ہو، تاکہ آجر اور اجیر دونوں ملکی و قومی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں گے اور یہ تبھی ممکن ہے جب آجر اجیر کو مناسب اجرت، مناسب کام، برادرانہ سلوک اور وقت پر اجرت فراہم کرے اور اجیر خیرخواہی، امانتداری اور ذمہ داری کے ساتھ اپنی پوری ذہنی، جسمانی اور پیشہ ورانہ صلاحیتیں کام پر صرف کرے۔ ان اصولوں کو رسول اللہ ﷺ نے اس طرح بیان کیا ہے: تمہارے پاس کام کرنے والے تمہارے بھائی ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارا ماتحت بنایا ہے‘ اس لیے اگر تم میں سے کسی کے ماتحت اس کا بھائی ہو تو اسے چاہیے کہ جو کچھ خود کھاتا ہے اس سے اسے کھلائے اور جو کچھ خود پہنتا ہے اس سے اسے پہنائے اور انہیں ایسے کام کی تکلیف مت دو جو وہ کرنہ سکیں اور اگر ایسا کام ان کے سپرد کرو تو پھر تم خود ان کی مدد کرو یعنی زیادہ وقت کی اجرت دو۔ایک حدیث قدسی کے حوالے سے آپ ﷺ نے بیان فرمایا: اللہ تعالیٰ فرمایا ہے کہ قیامت کے دن تین شخصوں کے ساتھ میں خود فریق مخالف بن کر مقدمہ لڑوں گا، ان میں سے ایک وہ شخص ہوگا جس نے کوئی مزدور اجرت پر رکھا پھر اس سے کام تو پورا لیا مگر اس کی اجرت ادا نہ کی۔ (صحیح بخاری: 2270) آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: مزدور کو مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو۔ (سنن ابن ماجہ:2443) نتائج:1۔ جدید دور میں کاروباری اخلاقی قدریں‘ کاروباری لوگوں اور اس قسم کی تنظیموں کے درمیان موضوع بحث ہیں اور ہر تنظیم کے پاس کچھ نہ کچھ کاروباری اخلاقی قدریں ہیں۔ 2۔ مغربی سیکولر دنیا میں جو کاروباری اخلاقی قدریں ہیں وہ موقعاتی ہیں اور روحانیت سے یکسر خالی ہیں‘ اس لیے ان میں وہ قوت نہیں جو اسلام کے کاروباری اخلاقی قدروں میں ہے کیونکہ اسلام کی کاروباری اخلاقی قدریں موقعاتی نہیں بلکہ انسانی ہیں اور ان کے پیچھے قوت نافذہ روحانیت ہے جو انسان کو اچھے رویوں پر مجبور کرتی ہے۔ مسلمان ہر وقت اور ہر کسی کے ساتھ اچھا سلوک رکھنے کا پابند ہے۔3۔ اسلام کی اخلاقی قدریں مجموعی طور پر اسلامی عقیدہ کا حصہ ہیں اور وہ مسلمانوں کو نہ صرف ریاستی معاملات کی درستگی کا درس دیتی ہیں بلکہ انہیں اپنی آخرت سنوارنے کا بھی سبق دیتی ہیں اور یہ باور کراتی ہیں کہ ایک دن تمہیں اپنے خالق کے سامنے جوابدہ ہونا ہے اور یہ احساس ایک مسلمان بااخلاق اور ذمہ دار ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کو ذمہ دار فرد محسوس کرتا ہے، چاہے وہ فروخت کرنے والا ہو یا خریدار ہو، آجر ہو یا اجیر ہو۔4۔ ہمارے اس مضمون میں ذکر کردہ اسلام کی کاروباری اخلاقی تعلیم سے واضح ہے کہ اسلام تجارت کو بہت بڑی اہمیت دیتا ہے اور اسے انفرادی، اجتماعی، ملکی اور قومی تعمیر و ترقی میں نہایت اہم سمجھتا ہے۔5۔ اور اس سے یہ بھی واضح ہے کہ اسلام صاف اور شفاف کاروباری معاملہ چاہتا ہے‘ ایسا معاملہ جس میں کسی کا کسی قسم کا نقصان نہ ہو اور نہ کسی کو دھوکہ اور فریب ہو۔ 6۔ اور یہ بھی کہ اسلام ایسا کاروبار چاہتا ہے جس میں منافع کا تبادلہ ایک دوسرے کی حقیقی رضا اور ایک دوسرے کے فائدے پر مبنی ہو۔ 7۔ اور یہ بھی کہ ہر ایسا کاروبار جو انسان کو بے کار بناتا ہو جیسے ہوا، سٹہ، سود وغیرہ اسلام میں حرام اور ناجائز ہے۔ 8۔ اور یہ بھی کہ اسلام اگرچہ انفرادی مفاد کو اہمیت دیتا ہے لیکن جب انفرادی مفاد اجتماعی مفاد سے ٹکراتا ہو تو پھر اسلام اجتماعی مفاد کو اولیت دیتا ہے۔ 9۔ اور یہ بھی کہ اسلام مسلمان کو ایک ایسا بااخلاق اور باکردار انسان دیکھنا چاہتا ہے جو بات کا سچا اور وعدے کا پکا ہو‘ جس کی بات ہی اس کی سچائی اور صفائی کی ضمانت ہو۔ 10۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا یہ مضمون اسلام کی کاروباری اخلاقی تعلیم کو مکمل طور پر احاطہ نہیں کرتا‘ اس لیے اس سلسلے میں مزیدتحقیق کی ضرورت ہے‘ البتہ ضروری اور بنیادی نوعیت کی باتیں اس میں آجاتی ہیں۔  (بشکریہ! ختم نبوت)۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 355 reviews.