Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

اپنے بچے کا حوصلہ بلند رکھیں (حشمت خان، ایبٹ آباد)

ماہنامہ عبقری - اکتوبر 2008ء

والدین اور بچے آج کل جس طر ح سے الجھے ہوئے ہیں اتنے شا ید پہلے کبھی نہ رہے ہو ںگے ۔ بعض والدین نے تو بچو ں کو با لکل بے لگا م چھوڑ دیا ہے اور بعض ان پر غلا مو ں اور قیدیو ں کی طر ح سے ظلم و ستم کر رہے ہیں ۔ امریکا جو کہ انتہائی ترقی یا فتہ ملک ما نا جا تاہے ۔وہا ں یہ حال ہے کہ خودامریکا کے دانشور ان مظالم سے نا لا ں ہو رہے ہیں جو والدین اپنے بچو ں پر کرتے رہتے ہیں ۔ اکثر اوقات انتہائی نیک نیتی کے با وجود بچوں پر سختی ہو جا تی ہے ۔ صبر و تحمل کی تلقین کرنا بڑا آسان ہے لیکن خود اس پر عمل کرنا بڑا دشوار ہو تاہے اور یہاں پر اسی چیز کی شدید ضرورت ہے ۔ بچو ں کو مہلت اور موقع دینا چاہیے تا کہ ان کی نشو ونما ہو سکے اور وہ محبت کرنا سیکھ سکیں ۔ اس میں شک نہیں کہ بعض موا قع ایسے بھی آجاتے ہیں جب والدین کے لیے سختی کرنا نا گزیر ہو جا تاہے ۔ ان خطرات کو مارگریٹ اور ویلارڈ بیچر نے اپنی کتا ب ” پیرینٹس آن دی سن ‘ ‘ Parent on the Sonمیں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے ۔ انہو ں نے لکھا ہے کہ پرانے زمانے میں والدین کی حیثیت آقا کی ہو تی تھی اور بچے ان کے غلام ہوتے تھے ۔ آج والدین غلام بن گئے ہیں اور بچے آقا بن گئے ہیں ۔ آقا اور غلام کے درمیان کسی قسم کا تعاون نہیں ہے لہٰذا جمہوریت کا فقدان ہے۔ بچو ں پر انتہائی سختی سے پابندیا ں عائد کرنا درست نہیں اور ان کو ہر بات کے لیے با لکل آزاد چھو ڑدینا بھی غلط ہے۔ کیو نکہ ان دونوں طریقوں سے بچو ں میں خود اعتمادی پیدا نہیں ہوتی۔ جن بچو ں کو نہا یت سختی سے پالا جاتاہے وہ یا تو بالکل نکمے ہو جاتے ہیں یا پھر خود سر ہوکر اپنے ارد گرد کے لوگو ں سے لڑتے رہتے ہیں اور آخر کار اپنی زندگی کو بر باد کر ڈالتے ہیں ۔ لیکن جو بچے صرف اپنی مرضی کے علاوہ اور کسی کی بات نہیں مانتے وہ خود اپنی خواہشات کا شکا ر ہو جا تے ہیں ۔ بہر صورت وہ غلام ہی ہو تے ہیں۔ اول الذکر ان لو گو ں کے غلا م ہو تے ہیں جو ان پر حکم چلا تے ہیں اورموخر الذکر قرض خوا ہوں کے غلام ہو تے ہیں ان دونوں اقسام کے بچو ں میں یہ صلا حیت نہیں ہو تی کہ وہ معاشرے کو کسی اچھی بنیا د پر قائم کر سکیں ۔ اگر کچی شاخ کو اس طرح سے موڑ دیا جائے کہ درخت ان دونو ں غلط سمتو ں میں ٹیڑھا نہ ہو تو زندگی بھر کی پریشانی سے بچا جا سکتاہے ۔ “ سوال یہ ہے کہ یہ کا م کیسے کیا جائے ؟والدین اپنے بچو ں کو ان غلط طریقو ں سے یعنی انتہائی سختی اورانتہائی نرمی سے کیسے بچائیں ؟اس کو شش میں کو ن سا فلسفہ کا رآمد رہے گا ؟ہمارا مقصد یہ ہے کہ بچے کا حوصلہ پست کئے بغیر اس کی مر ضی کو صحیح سمت میں مو ڑا جائے ۔ اس کے لیے ہم کو” مر ضی “ اور ”حوصلہ “کا فرق سمجھنا چاہیے ۔ انسانی شخصیت میں بچے کی مرضی ایک بڑی مو ثر قوت ہے ۔ یہ عقل کی ان چند چیزو ں میں سے ہے جو پیدائش ہی کے وقت پوری قوت کے ساتھ آجا تی ہے۔ بچپن کے بارے میں جو تحقیقات کی گئی ہیں انھیں نفسیات کے ایک مشہور رسالے ” سائیکلو جی ٹوڈے “ میں اس طر ح سے بیا ن کیا گیا ہے کہ ” بچہ اپنے آپ کو اس وقت سے پہنچاننے لگتا ہے جب اسے اس حقیقت کا بیان کرنے کے لیے بو لنا بھی نہیں آتا ۔ وہ عمداًاپنے ماحول پر خاص کر اپنے والدین پرقابو حاصل کرنے کی کو شش کرنے لگتا ہے ۔“ جو بچہ اپنی مر ضی کا مالک ہے اس کے والدین کے لیے یہ سائنٹیفک انکشاف کوئی نئی بات نہیں ، کیو ں کہ وہ رات را ت بھر اسے گلے سے لگائے ٹہلتے رہے ہیں اور ننھے سے ڈکٹیٹر کا ہر حکم بجا لا تے رہے ہیں ۔ بعد میں ایک سر کش بچہ خفا ہو کر اس طر ح سے اپنی سانس بھی روک سکتاہے کہ بے ہو ش ہو جائے جن لو گو ں نے اس قسم کی سر کشی دیکھی ہے وہ سکتے کے عالم میں رہ گئے ہیں ۔ حال ہی میں ایک تین سالہ بچے نے یہ کہہ کر اپنی ماں کی با ت ماننے سے انکا ر کر دیا کہ ” جانتی ہو ؟ تم صرف میری ما ں ہو ؟“ ایک دوسری ماں نے اپنے تین سالہ بچے کے بارے میں بتایا کہ جب وہ اسے کچھ کھلانے چلی تو بچے نے انکا ر کر دیااور مقابلے پر آما دہ ہو گیا ۔ ما ں نے جب اصرار کیا تو وہ اتنا خفا ہو گیا کہ اس نے دوروز تک کچھ بھی نہ کھایا۔ چنانچہ کمزور ہو گیا ۔ لیکن اس کے با وجود اپنی بات پر اڑا رہا ۔ ما ں بے چاری پریشان ہو گئی اور اسے خجا لت بھی محسوس ہوئی ۔ آخر کا رمجبو ر ہو کر باپ نے بچے کو گھورکر دیکھا اور کہا کہ اگر اب کھا نے سے انکا ر کیا تو ایسی پٹا ئی کرو ںگا کہ یاد کرو گے۔ یہ ترکیب کا ر گر ثابت ہوئی اور مقابلہ ختم ہو گیا۔ بچے نے ہتھیا ر ڈال دئیے اور جس چیز پر بھی ہا تھ پڑا اسے کھانے لگا ۔ یہا ں پر ایک سوال یہ در پیش ہو تاہے کہ بچو ں کی اس طر ح کی سر کشی کا تذکرہ اتنا کم کیوں کیا گیا ہے ؟شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بچو ں کو عام طور پر فرشتہ صفت تصور کیا جا تاہے ۔ لہٰذا اس قسم کی خامیو ں کا تذکرہ منا سب نہیں سمجھا گیا ۔ ” مرضی“ نازک اور کمزور نہیں ہوتی۔ جس بچے کے حوصلے پر مخمل کا غلاف چڑھا دیا جا تاہے وہ بھی اکثر اپنی ” مرضی “کے معاملے میں فولاد ثابت ہو تا ہے ۔ لہذا وہ خو د اپنے لیے اور دوسرو ں کے لیے ایک خطرہ بنا رہتاہے ۔ اسی قسم کا آدمی پُل پر سے چھلانگ مارنے کی دھمکی دیتا ہے اور پورا شہر اس کی جان بچانے کی کوشش کر تاہے ۔ ہما رے خیا ل میں ” مرضی“ایک لچک دار چیز ہے ۔ اسے ڈھالا جا سکتاہے اور ڈھالا جانا بھی چاہیے ۔ اس کے ساتھ اسے صیقل بھی کر نا چاہیے تا کہ بچہ ہمارے خود غرضانہ مقاصد کے لیے محض مشینیں بن کر نہ رہ جائے، بلکہ اس میں یہ صلا حیت پیدا ہو کہ اپنے رجحانات کو قابو میں رکھ سکے اور اپنی آئندہ زندگی میں نظم و ضبط پیدا کر سکے ۔ والدین کی حیثیت سے ہم پر یہ فرض بھی عائد ہو تاہے بچے کی مر ضی کو صحیح طور پر ڈھالیں۔ مر ضی “ کے مقابلے میں ” حوصلہ “ کمزور ہو تاہے بچے کا حو صلہ اس کی مر ضی کے مقابلے میں بے حد کمزور ہو تا ہے ۔ وہ ایک ایسے نازک پھول کی طر ح ہو تاہے جس کو بڑی آسانی سے توڑ کر پا مال کیا جا سکتاہے۔ حوصلے کا تعلق ہوتاہے ذاتی قدروقیمت پر ۔ انسانی فطر ت میں یہ خصو صیت بڑی نا زک ہو تی ہے ۔ اگر آدمی کا مذاق اُڑایا جائے یا اسے مستر د کیا جائے تو حوصلہ مجروح ہو جا تاہے ۔ اب یہا ں پر پھر ایک سوال یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ آخر کون سی ترکیب اختیا ر کی جا ئے کہ حوصلہ بھی برقرار رہے اور مرضی کو بھی ڈھال لیا جائے ؟یہ کا م معقول حد بندی کے ذریعہ سے پائے تکمیل کو پہنچ سکتا ہے اوریہ حد بندی محبت کے ذریعہ سے کی جانی چاہیے ۔ بچے کو یہ احساس کبھی نہ دلا یا جائے کہ وہ بے کا ر یا فضول ہے یا بے وقوف اور بد صورت ہے یا وہ گھر والو ں کے لیے ایک بو جھ ہے۔ بچے کی قدر وقیمت پر اگر اس طر ح کا کوئی حملہ کیا جا تاہے تو وہ بڑا تباہ کن ہوتاہے ۔ بچے سے یہ کبھی نہ کہنا چاہیے کہ” تم کتنے گندے ہو “ یا یہ کہ ” تم اپنی بہن کی طر ح اول کیوں نہیں آتے ؟“ یا یہ کہ ” جس دن سے تم پیدا ہو ئے ہو ہم سب کے لیے ایک مصیبت بنے ہوئے ہو “ اس بات کو ایک با رپھر نو ٹ کر لیجئے کہ بچے کے حوصلے کو پست کیے بغیر اس کی مر ضی کی تشکیل کرنا ہما را مقصد ہے ۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 536 reviews.