واقعہ بڑا عجیب و غریب اور سوچنے پر مجبور کر دینے والا ہے۔ جب بھٹو کی حکومت تھی تو شمالی علاقہ جات،بشام، شاہ پور، سوات وغیرہ کے علاقوں میں انتہائی خطرناک قسم کا زلزلہ آیا تھا۔ پورے علاقے صفحہ ہستی سے نابود ہو گئے تھے۔ سینکڑوں لوگوں کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا اور کئی لوگ معذور اور اپاہج ہو گئے تھے۔ علاقے والوں کی طرف سے ہر قسم کی امداد زلزلہ زدگان کو دی جارہی تھی۔ میری ڈیوٹی چوک یادگار میں امدادی سامان اور رقوم جمع کرنا تھی۔ کچھ دنوں کیلئے مجھے آرام کیلئے رخصت ہو گئی۔ ایک دن مجھے رامپورہ گیٹ میں جانے کا اتفاق ہوا اور میں مختلف اخبار اور رسال دیکھنے میں مشغول تھا کہ جناب امیر صاحب تشریف لے آئے‘ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے کہ یہ ٹرک تیار کھڑا ہے اس کے ساتھ بشام کیمپ پہنچ جاﺅ۔ 15 دن کیلئے تمہاری ڈیوٹی وہیں بشام میں ہوگی لہٰذا آپ جانے کی تیاری کر لیںاور گھر والوں کو اطلاع کر دیں۔ میں تقریباً 2بجے تیار ہو کر ٹرک پر موجودتھا۔ تقریباً 3بجے روانگی ہوئی۔ سخت سردی تھی۔ ہم لوگوں کو رات مینگورہ میں ایک جماعتی ساتھی کے گھر بسر کرنا پڑی۔ صبح فجر کی نماز کے بعد مینگورہ سے مرکزی کیمپ بشام کیلئے ٹرک روانہ ہوا تمام درخت راستے میں برف سے ڈھکے پڑے تھے۔ تمام راستے برفباری سے سفید تھے۔ بشام میں دریا کے کنارے ہمارا مرکزی کیمپ تھا۔ آٹا‘ چائے‘ گڑ‘ گرم کپڑے کمبل‘ لحاف اور ہر قسم کی ادویات بھی موجود تھیں۔ وہاں سے میں دوسرے تیسرے کیمپ تک گیا۔ اس طرح میں یکے بعد دیگرے آخری کیمپ تک ہو آیا۔ ایک عجیب اور حیران کن بات یہ تھی ہر منٹ بعد زلزلہ مسلسل آرہا تھا۔ جس کیمپ کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ بہت بڑا بازار تھا جو کہ ڈھیر بن چکا تھا۔ ہمارے سامنے کی طرف لکڑیوں اور پتھروںکا ڈھیر تھا اور ہماری پیٹھ کی طرف گہرائی میں ایک پرشور دریا تھا جو کہ برفانی پانیوں سے پُر بہہ رہا تھا۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ہرمنٹ بعد زلزلہ آرہا تھا کہ اچانک بڑا ہی شدید قسم کا زلزلہ آیا۔ میںنے محسوس کیا کہ کچھ ہونے والا ہے میں نے مڑ کر دیکھا تو ایک پہاڑ کا بہت بڑا حصہ ٹوٹ کر نیچے آرہا تھا اور سیدھا نیچے دریا میں گر کر غائب ہو گیا۔ یہ روز کا معمول تھا اور ہم ان نظاروں کے عادی ہو چکے تھے۔ ہمارے کیمپ میں ایک مقامی لڑکا تھاجو کہ ہمارے کام میں ہمارا ہاتھ بٹاتا تھا۔ میں تو یہی سمجھ رہا تھا کہ یہ صاحب بول نہیں سکتا مگر سن سکتا ہے لیکن میری حیرانگی کی انتہا ہو گئی جب وہ ایک دوسرے مقامی شخص سے باتیں کر رہا تھا (یاد رہے کہ مذکورہ لڑکا جو کہ نہ بولتا تھا اور نہ ہی میں نے اسے کچھ کھاتے پیتے دیکھا تھا) لیکن اس کی حرکتیں کچھ اب نارمل سی تھیں۔ میں نے دوسرے سے پوچھا کہ یہ تو بولتا ہی نہیں تھا۔ ہم سمجھے یہ گونگا ہے مگر یہ تو تم سے باتیں کر رہا ہے۔ وہ دوسرا لڑکا جو کہ ا س سے عمر میں کچھ بڑا لگ رہا تھا،نے بتایا کہ یہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔ اس علاقے کے سب سے زیادہ مال دار ہم ہی تھے۔ یہ جو ایک پہاڑ بالکل سفید نظر آرہا ہے یہ زلزلہ سے پہلے اس علاقہ میں سب سے زیادہ سرسبز پہاڑ تھا۔ اس کی چوٹی سے لیکر دریا تک زمین پر ہر قسم کا غلہ ہوتا تھا۔ گندم‘ جوار‘ چاول‘ املوک کے درخت‘ بادام اور اخروٹ کے درخت اور دیگر قسم کی اجناس بھی پیدا ہوتی تھیں۔ ہم دونوں کی دو دو بیویاں تھیں اور ہمارے والد صاحب کی بھی دو بیویاں تھیں۔ ہم دونوں ایک ہی ماں سے تھے اس کے بھی بچے تھے اور میرے بھی۔ اس علاقے میں سب سے زیادہ بھیڑبکریاں ہمارے پاس تھیں۔ اس طرح دیگر جانور گائیں اور بیل اس کے علاوہ ہمارے تین غلہ کے گودام بھرے رہتے تھے ۔ہم بڑی خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے اور ہم اسی عیش و عشرت کی زندگی میں مگن تھے۔ ہمیں اپنے بال بچوں اور ماں باپ کے سوا کچھ بھی تو نظر نہیں آرہا تھا۔ہم دنیا ہی کے ہو کر رہ گئے اور پھر آن واحد میں جب زلزلہ آیا تو سب کچھ ماں‘ باپ ‘ بیوی‘ بچے ‘مال‘ مویشی‘ گودام‘ سب کچھ دیکھتے ہی دیکھتے اس دریا نے ہضم کر لیے۔ میں یہاں نہیں تھا ۔مگر یہ توگھر پر ہی تھا کہ یہ قیامت ہم پر ٹوٹ پڑی اور ہمارا سب کچھ دریا برد ہو گیا۔ سب کچھ سے میرا مقصد یہ ہے کہ ہمارے گھر‘ گودام‘ اس کے آٹھ بچے‘ دو بیویاں اور اسی طرح میرے چھ بچے اور دو بیویاں ‘ 5بہنیں اور چار بھائی جو کہ چھوٹے تھے یہ سب آن واحد میں دریا نے ہڑپ کر لیے۔ جس کا نتیجہ یہ آپ کے سامنے ہے۔ اس کے ذہن پر یعنی دماغ پر صدمے سے اس کا یہ حال ہوگیا کہ بولنا کھانا پینا بھول گیا۔ صاحب اس کیلئے دعا کریں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی طاقت و ہمت عطا کرے۔
جب انسان اللہ رب العزت کو بھول جاتا ہے تو اللہ جل شانہ اس کو بھی بھول جاتا ہے۔ وہ یہی سمجھتا رہتا ہے کہ بس میں ہی میں ہوں۔ فخر و تکبر سے اسے کسی کا بھی کوئی خیال نہیں رہتا۔ اللہ ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔(آمین ثم آمین)
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 554
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں