نوجوانوں کے جنسی مسائل پر ماہنامہ عبقری میں ایک تسلسل کے ساتھ لکھا جارہا ہے ۔ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس سلسلہ میں ایک نوجوان مرد اور عورت کو پیش آنے والے روزمرہ کے گھریلو اور جنسی مسائل پر بحث جاری رکھی جائے اوراپنی معلومات اور حیثیت کے مطابق رہنمائی کی جاتی رہے۔ اسی موضوع پر ہمیں بہت سے خطوط بھی موصول ہوتے ہیں اور ان خطوط میں بے شمار مخفی پہلوﺅں کو اجاگر کرنے کی استدعا بھی کی جاتی ہے ۔اس موضوع پر قارئین کس قدر دلچسپی لے رہے ہیں اس کا اندازہ آ پکو بے شمار خطوط میں سے دو خطوط پڑھ کر ہو جائے گا جو آپ کی دلچسپی کیلئے شائع کیے جارہے ہیں۔ یہ دونوں خطوط ایسی خواتین نے لکھے ہیں جنہیں بظاہر دنیا کی ہر چیز میسر ہے لیکن ذہنی سکون برباد کر بیٹھی ہیں آخر کیوں؟ یہ آپ خود پڑھ کر اندازہ کر لیں۔
پہلا خط
جناب حکیم صاحب‘میری عمر 35سال اور میرا شوہر اکتالیس سال کا ہے۔ ہماری شادی کو پندرہ سال گزر چکے ہیں اور ہمارے پانچ بچے ہیں، جن کی عمریں ایک سے چودہ سال تک کی ہیں۔ میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شریف گھرانے کی عورت ہوں۔ میں اپنے گھر کو ہمیشہ صاف ستھرا رکھتی ہوں۔ پانچ بچوں کی پیدائش کے باوجود میں ایک دل کش جسم کی مالک ہوں۔
میں نے ہمیشہ اپنے شوہر سے ٹوٹ کر محبت کی ہے اور اسے ہر ممکن تعاون دیتی ہوں کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ اور دین اسلام کے بعد سب سے زیادہ ضرورت اپنے شوہر کی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ مگر اس کے باوجود ہر روز میرے ذہن پر شکوک کی پرچھائیاں منڈلاتی رہتی ہیں کہ آیا واقعی میں اس کی ضرورت کی تسکین بخوبی کرتی ہوں یا نہیں؟ اور ایسا سوچنے کیلئے میرے پاس ٹھوس ثبوت و شواہد موجود ہیں۔ جو میں عرض کروں گی تاکہ مجھے کوئی راہ اور حکیمانہ مشورہ دیتے وقت آپ کو دشواری پیش نہ آئے۔
آج سے سات سال قبل میرے شوہر نے گھر پر عریاں لٹریچر کافی مقدار میں لے آنا شروع کر دیا۔ عریاں عورتیں، عریاں مرد، ان کے مختلف پوز اور پاکٹ بکس جو عریاں محبت ناموں سے بھری ہوتی تھیں۔ اس بات نے مجھے شدید ترین دکھ پہنچایا۔ میں نے ان تصاویر و کتب کی شدید ترین مخالفت کی تو میرے شوہر نے جواب دیا کہ اس قسم کے لٹریچر سے کوئی فرق نہیں پڑتا چونکہ تم ان چیزوں کو ناپسند کرتی ہو اس لیے تم ان پر اعتراض کر رہی ہو۔
کئی سال بیت گئے۔ میری مزاحمت جاری رہی مگر وہ باز نہ آئے۔ اتنا فرق ضرور پڑا کہ لٹریچر لانے میں وقفہ پڑنے لگا ہے۔ لیکن ”وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے‘ ہم اپنی وضع کیوں بدلیں“ کے مصداق ہم دونوں میں ایک غیر محسوس سی ذہنی جنگ جاری رہی۔وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ اپنی اس بدعادت کی وجہ سے وہ میری محبت کو ضائع کرتے جارہے ہیں۔ میں اب تک اُن کے اس رویے کی عادی نہیں بنی۔ لیکن میں اپنے آپ کو شدید الرجک اور ان سے متنفر محسوس کرتی ہوں۔ جب وہ ان رسا لو ں سے جذباتی ہو کر مجھے ہاتھ لگاتے ہیں تو مجھے اس سے ایک عجیب قسم کی گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے آج تک مجھ سے بیوفائی نہیں کی مگر میں ذہنی طور پر انہیں بے وفا سمجھنے لگی ہو ں کیونکہ یہ نہ صرف میری نسوانیت کی توہین ہے بلکہ میرے بچوںکے مستقبل کا بھی مسئلہ ہے۔ اس صورت حال کو میں مز ید برداشت نہیں کر سکتی۔ لیکن اپنے بچوں کے مستقبل اور والدین کی عزت کی خاطر اس شادی کو انجام تک پہنچانا ہی پڑے گا۔
حکیم صاحب آپ کو خط لکھنے سے قبل میں نے آپ سے کئی مرتبہ علاج کرایا ہے۔ آپ کی شخصیت اور طرز مخاطب سے متاثر ہو کر اپنا یہ خالصتاً نفسیاتی مسئلہ بھی آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اب آپ ہی مشورہ دیجئے کہ میں کیا کروں؟ یقین کریں کہ یہ مسئلہ میرے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔
معزز قارئین! اس خط سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ بظاہر جو بات انتہائی معمولی اور غیر اہم محسوس ہوتی ہے، نفسیا تی طور پر وہ کسی بھی شخص کیلئے کتنا بڑا مسئلہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اس عورت کا شوہر اگر غیر معمولی طور پر شہوت پرست نہ ہوتا تو ان کی خوشگوارزندگی میں یہ خطرناک موڑ نہ آتا۔ اسی طرح کا ایک اور خط ملاحظہ فرمائیے۔
دورانِ گفتگو میرا شوہر مجھے گھٹیااور بازاری زبان استعمال کرنے پر مجبور کرتا ہے جو میرے مزاج کے خلاف ہے۔
بعض اوقات مرد یا عورت میں جب محبت حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ گھٹیا قسم کے انداز پر اتر آتے ہیں۔ مثلاً بعض مرد ایسے ہوتے جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیوی دورانِ محبت انتہائی گھٹیا الفاظ استعمال کرے ۔گھٹیا اور بازاری قسم کی حرکات کرے۔ لیکن بیویاں جب ایسا کرنے سے انکار کر دیتی ہیں تو ان کی ازدواجی زندگیاں تلخیوں میں ڈوب جاتی ہیں۔ اس بات کوواضح کرنے کیلئے میں درج ذیل خط پیش کر رہا ہوں۔ جو ایک محترمہ نے ملتان سے لکھا ہے۔
محترم حکیم صاحب !کافی عرصے سے مجھے ایک اہم سوال ستا رہا ہے اور میں اس سلسلہ میں آپ سے گفتگو کرنا چاہتی ہوں ۔ میرے شوہر ایک انتہائی معزز اور شریف آدمی ہیں۔ وہ ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ ان کے طور اطوار انتہائی شائستہ اور مہذب ہیں اور میرے ساتھ بھی ان کا رویہ عام طور بیحد اچھا اور شائستہ ہے۔ مگر خلوت میں جب وہ مجھ سے ملتے ہیں تو ان کے تمام شائستہ اور مہذب اطوار ختم ہو جاتے ہیں وہ ایک گھٹیا اور بازاری سطح پر اتر آتے ہیں اس وقت ان کی حرکات دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ دراصل ایک انتہائی گھٹیا طرز کے انسان ہیں شرافت کا لبادہ انہوں نے محض لوگوں کو بیوقوف بنانے کیلئے اوڑھ رکھا ہے۔
خلوت میں نہ صرف وہ خود انتہائی گھٹیا اور بازاری قسم کے جملے استعمال کرتے ہیں بلکہ مجھے بھی مجبورکرتے ہیں کہ میں بھی اسی قسم کی زبان استعمال کروں اور وہی گھٹیا حرکات بھی کروں جو وہ خود کرتے ہیں۔ جب کہ یہ سب میری طبیعت اور مزاج کے خلاف ہے اور میں کسیبھی طر ح پر ایسا نہیں کرنا چاہتی۔ لیکن اپنی ازدواجی زندگی کو بچانے کیلئے ایسا کرنے پر مجبور ہو جاتی ہوں۔ جس سے مجھے شدید ذہنی کوفت ہوتی ہے۔ بارہا میں نے انہیں طریقے طریقے سے سمجھایا ہے لیکن وہ باز نہیں آتے۔ہماری شادی کو پانچ سال گزر چکے ہیں۔ میںگُھٹ گُھٹ کر اور ذہنی عذاب جھیل جھیل کر اب تنگ آچکی ہوں۔ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ میں گھر کے کسی فرد کو بتا بھی نہیں سکتی اور اگر بتا بھی دوں تو ان کی ظاہری شرافت کو دیکھ کر میری بات کا کون یقین کرے گا۔ خدا کیلئے مجھے اس صورت حال سے بچائیے اور مجھے مشورہ دیجئے کہ میں کیا کروں۔ اگر آپ نے تسلی بخش طریقے سے میری رہنمائی نہ کی تو (1) میں خودکشی کر لوں گی یا (2) طلاق لے لوں گی۔
قارئین محترم آپ نے دیکھ لیا کہ حد سے بڑھی ہوئی شہوت پرستی نے کیا رخ اختیار کر لیا ہے کہ جو شخص عام زندگی میں انتہائی شائستہ اور مہذب طورطریقوں کا مالک ہے وہ خلوت میں اپنی بیوی کو کس بات پر مجبور کرتا ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ کیا ان دونوں میاں بیوی کا نباہ ممکن ہے؟ ہرگز نہیں کیونکہ جب تک اس عورت کا شوہر اپنی شہوت پرستی کے گھٹیا انداز پر کنٹرول نہیں کرتا۔ بیوی اس کے ساتھ خوش دلی سے رہ ہی نہیں سکتی۔
مندرجہ بالا خطوط سے آپ کو اس امر کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ عورت اپنے شوہر کو کیسا دیکھنا چاہتی ہے۔ عورت وفادار بیوی بھی ہوتی ہے اور عظیم ماں بھی۔ وہ اپنے بچو ںکو دودھ پلاتے ہوئے اپنی عظمت اپنے بچوں کی روح میں ڈال دیتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کو دنیا کے سامنے ایک مکمل انسان کے روپ میں پیش کرنا چاہتی ہے لیکن جب شوہر کی طرف سے مندرجہ بالا خطوط کی طرز پر عدم تعاون کا شکار ہوتی ہے تو اس کے سامنے دو ہی راستے کھلے ہوئے ہیں یا تو وہ شوہر کے رنگ میں رنگ جائے اور گھر میں اس قسم کی فحش تصاویر اور لٹریچر کھلے بندوں لانے کی اجازت دے کر شوہر کی خوشنودی حاصل کرے اور بچوں کی طرف سے لاپروا ہو جائے یا پھر ایسے بظاہر نہایت شریف اور پیار کرنے والے شوہر کی اس دوہر ی شخصیت سے نجات حاصل کرکے اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کر لے۔ لیکن دنیا میں کون سی ایسی ماں ہو گی جسے اپنی اولاد کے مستقبل کی فکر نہ ہو گی۔
میری اس قسم کے مردوں سے نہایت ادب سے گزارش ہے کہ وہ اپنے آپ کو پہنچانیں۔ اپنے طرز فکر میں مثبت تبدیلی لائیں۔ ایسی کوئی حرکت نہ کریں جس سے ان کی وفا شعار بیوی عدم تحفظ اور عدم اطمینان کا شکار ہو کر گھر کے پرامن ماحول کو تباہ و برباد کرنے پر تل جائے۔ اہل مغرب اور غیر مسلم اقوام ہمیشہ سے اپنی عورتوں کو اسلام کی تباہی کیلئے استعمال کرکے فخر محسوس کرتی آئی ہیں اور اس پر دعویٰ یہ ہے کہ ہم نے عورتوں کو اسلام سے زیادہ آزادی دی ہے لیکن انہوں نے اسلام دشمنی کیلئے اپنی عورتوں کو نہ صرف ننگا کر دیا ہے بلکہ ان کی ننگی تصاویر اور غیر اخلاقی فلمیں اس طرح پوری دنیا میں پھیلا دی ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ہنود و یہود کے پھیلائے ہوئے اس ننگے جال سے بچیں اور اپنے گھر کو جہنم بنانے کی بجائے علم و ادب کا گہوارہ بنائیں۔ قرآن پاک کا مطالعہ کریں اس کے اندر موجودپیغام کو سمجھیں۔
اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے ایک اچھے معاشرے کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں۔ خلوت میں غیراخلاقی جملے ادا کرکے یا اپنی پاک باز بیوی کو غلط کام کر نے پر مجبور کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے نیک اور باادب اولاد کی تمنا کریں اور یہ یاد رکھیں کہ مومن مسلمان کسی بھی حالت میں ننگا نہیں ہوگا۔ نہ خلوت میں نہ جلوت میں۔ انسان ننگا اس وقت ہوتا ہے، جب اس کا احساس مر جاتا ہے اور خدا کے خوف کی بجائے اس پر شطانیت طاری ہو جاتی ہے۔
خلوت میں اچھے خیالات اور اچھی اولاد کی طلب نیک اورصالح اولاد کو جنم دیتے ہیں۔ برے اورشیطانی خیالات بے ادب اور گستاخ اولاد پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے حد سے بڑھی ہوئی شہوت پرستی پر قابو پائیے اور اپنے فرصت کے لمحات کو اچھے طریقے سے گزارنے کیلئے اچھا اور معیاری لٹریچر پڑھئے۔ ہلکی پھلکی ورزش کیجئے اور ہر وقت خدائے بزرگ سے اچھی نیک خصلت اولاد کی تمنا کرتے رہیں۔ اپنی بیوی کے سامنے اور عام لوگوں کے سامنے ایک مثالی مرد بن کر رہیے۔ اپنے اندرجھانکتے رہیے اور اپنے اندر موجود منفی خیالات اور غیر ضروری شہوانی جذبات کو ابھرنے نہ دیجئے۔ یہی آپ کیلئے آپ کی بیوی بچوںاور گھر کے امن و سکون کیلئے جہاد ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 560
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں