میز پر ڈیڑھ دو سال کی ایک ننھی منی بچی لیٹی تھی۔ اس کے دونوں بازو غائب تھے۔ ڈاکٹر ایک عجیب و غریب مشین اس کے بازوﺅں کے ٹنڈ پر چڑھا رہا تھا۔ یہ مشین دو مصنوعی بازو تھے جو بٹن دبانے سے کام کرتے تھے۔ اچانک بچی رونے لگی۔ ڈاکٹر نے بٹن دبایا۔ مصنوعی بازو اٹھے اور بچی کے پیٹ پر رکھے ہوئے کھلونے کو اٹھا لیا۔ بچی کی پتلیاں حیرت سے پھیل گئیں۔ وہ بڑی دلچسپی سے اپنے نئے بازو دیکھنے لگی۔
آئیے ہم آپ کو بتائیں کہ مصنوعی بازوﺅں کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ آج سے چند سال قبل جب تھالیڈومائڈ کیمیائی مرکب مختلف ناموں سے بازار میں آیا تو لوگو ں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ تھالیڈومائڈ کی تمام ادویات عورتوں کے مخصوص امراض کے لیے تیار کی گئی تھیں۔ اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ ادویات آگے چل کر بنی نوعِ انسان کے لیے ایک ایسا مسئلہ پیدا کر دیں گی جس کا حل انسانی طاقت سے باہر ہو گا۔ جلد ہی تھالیڈومائڈ کے نقصانات ظاہر ہونے لگے۔ حمل کے دوران میں جس خاتون نے بھی یہ دوائیں استعمال کیں، اس کے ہاں نامکمل اعضا والا بچہ پیدا ہوا۔ کسی کے کان دکھائی نہیں دیتے، تو کسی کی ناک نامکمل، بعض بچو ں کا صرف ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ تھی۔ یہ بچے پیدا ہوتے رہے لیکن کسی نے تھالیڈومائڈکو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ صرف جرمنی میں تین سال کے اندر پانچ ہزار سے زائد نامکمل اعضاءوالے بچے پیدا ہوئے۔ اس روز افزو ں تعداد سے یورپ میں خوف و دہشت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ وہمی اور کمزور عقیدہ لوگوں کا خیال تھا کہ بنی نوع انسان پر کوئی آسمانی آفت نازل ہوئی ہے اوریہ بچے اصل میں والدین کے گناہوں کی پاداش ہیں۔ لیکن ماہرینِ طب اس خیال سے متفق نہ تھے۔ تحقیقات شروع ہوئیں اور سب سے پہلے جرمنی کے چند ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب کچھ تھالیڈومائڈ استعمال کرنے کا نتیجہ ہے۔ اس دوران میں قسم قسم کے بچے دیکھنے میںآئے۔ بعض بچوں کی انگلیاں شانوں سے جڑی ہوئی تھیں۔ بعض کے ہاتھوں میںصرف ایک ایک انگلی تھی۔ بعض کے پاﺅں میں دو سے لے کر چار تک انگلیا ں تھیں۔ کچھ بدقسمت ایسے بھی تھے، جن کے بازو تھے، نہ ٹانگیں بے چارے گوشت کا ایک لوتھڑا معلوم ہوتے تھے۔ جرمن ڈاکٹروں نے بہت شور مچایا لیکن کسی نے ان کی ایک نہ سنی۔ تھالینڈومائڈ تیار کرنے والی فرمیں یہ ماننے پر ہرگز تیار نہ تھیں کہ ان کی ادویات اس درجہ مہلک ثابت ہو سکتی ہیں۔ آخر جرمنی کی طبی کونسل نے حکومت سے مدد کی درخواست کی، حکومت کے توسط سے یہ فرمیں اس بات پر رضا مند ہو گئیں کہ وہ جلد سے جلد بازار میں موجود اپنی مصنوعات واپس منگوالیں گی۔ لیکن ادویات واپس منگوانے کا کام کئی ماہ میں پورا ہوا۔ اس دوران میں اخباروں اور ریڈیو سے متعدد بار اعلا ن کیا گیا کہ عوام تھالیڈو مائڈ کے استعمال سے گریز کریں لیکن تھالیڈو مائڈ ادویات دور دور تک پھیل چکی تھیں۔ جرمنی، انگلستان، کینیڈا، ریاست ہائے متحدہ امریکہ، پرتگال، سوئیزرلینڈ، آسٹریلیا، اور جاپان کے بازاروں میں یہ دوا ئیں دھڑا دھڑ بک رہی تھیں۔ آہستہ آہستہ تھالیڈو مائڈ کے نقصانات ہر خا ص و عام پر واضح ہو گئے۔ لیکن جو خواتین یہ دوائیں استعمال کر چکی تھیں، ان کے ہاں نامکمل اعضا والے بچوں کی پیدائش روکنا انسانی طاقت سے باہر تھا، چنانچہ ان تمام ملکوں میں ایسے بہت سے بچے پیدا ہوئے۔
ماﺅں نے اپنے جگر گوشوں کو اس حال میں دیکھا تو خوف اور افسوس کے ملے جلے جذبات سے وہ سکتے میں آگئیں۔ بہت سی ماﺅں نے اس غم سے خودکشی کر لی۔ کئی عورتوں نے اپنے بچوں کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی۔ لیکن آہستہ آہستہ انہیں صبر آہی گیا۔ آخر یہ بچے ان کا خون تھے۔ ان کے ننھے منے سینوں میں دھڑکنے والے دل ان کے اپنے دلوں کا ایک حصہ تھے۔ جدید سائنس ان ننھے منے بچوں کے مرض کی ذمہ دار تھی۔ سائنس دانوں نے مقدور بھر کوشش کی کہ اس مسئلے کا کوئی حل دریافت کیا جائے چنانچہ مصنوعی اعضاءتیار کیے گئے۔ ان اعضاءمیں بازو اور ٹانگیں قابلِ ذکر ہیں۔ یہ اعضاءجنگ عظیم کے بعد ایک جرمن فوجی ڈاکٹر گوئز کوہن نے ایجاد کیے تھے۔ بعد میں تھالیڈو مائیڈ سے پید اہونے والے ناقص الاعضاءبچوں کے لیے استعمال کیے جانے لگے۔
یہاں جرمن ڈاکٹروں کی ان تحقیقات کا ذکر بے جا نہ ہو گا جو انہوں نے تھالیڈو مائڈ کے استعمال سے رحمِ مادر میں بچے پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں کی ہیں۔ ڈاکٹرو ں کا خیال ہے کہ حاملہ خاتون اگر انتالیس سے لے کر اکتالیسو یں دن کے دوران تھالیڈومائڈ استعمال کرے تو نومولود کے ہاتھ غائب ہوں گے۔اکتالیسویں دن سے چوالیسویں دن کے دوران میں یہ دوائیں استعمال کی جائیں تو بچے کی دونوں ٹانگیں ندارد ہوں گی۔ پنتالیسویں دن تھالیڈومائڈ کھانے سے نومولود کے کان نہیں بن سکیں گے۔
ماہرین طب کی ایک بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ حاملہ عورتوں کو نئی نئی دوائیں ہرگز استعمال نہیں کرنی چاہئیں۔ اگر ممکن ہو تو انہیں ہر قسم کی دواﺅں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ بعض ایسی جرمن خواتین نے جن کے ہاں ناقص الاعضاءبچے ہوئے، وضعِ حمل سے قبل سولہ سے لے کر بیس تک مختلف قسم کی دوائیں کھائی تھیں۔ ان دواﺅں میں خواب آور گولیاں، ٹانک، پیٹ اور سر کے درد کوکم کرنے والی گولیاں شامل تھیں۔ بعض بظاہر بے ضرر اور عام قسم کی دواﺅں میں بھی ایسے مضر اجزا ہوتے ہیں، جو رحمِ مادر میں موجود بچے کی نشوونما پر برا اثر ڈالتے ہیں، بے تحاشا دوائیں کھانا بھی نقصان دہ ہے۔
مصنوعی ہاتھ پاﺅں ایک سال کی عمر میں نامکمل اعضا والے بچوں کو لگائے جاتے ہیں۔ والدین کو ہدایت کر دی جاتی ہے کہ یہ اعضاءہر وقت بچوں کے ساتھ رہیں تا کہ وہ ان کے عادی ہوجائیں۔ یہ اعضاءدوطرح کے ہیں، پہلی قسم کے اعضاءبڑی بیٹری کے سیل سے چلتے ہیں، دوسری قسم کاربن ڈائی اکسائیڈ سے کام کرتی ہے۔ کاربن ڈائی اکسائیڈ ایک لمبی ٹیوب میں بھری ہوتی ہے۔ ہر تیسرے چوتھے روز اس ٹیوب کو بدلنا پڑتا ہے۔ مصنوعی ٹانگوں کی مدد سے یہ بچے آہستہ آہستہ چل پھر سکتے ہیں۔ مصنوعی ہاتھوں سے چیزیں پکڑ سکتے ہیں۔ بال سنوار سکتے ہیں ،منہ میں لقمہ ڈال سکتے ہیں اورگلاس سے پانی پی سکتے ہیں۔ وہ بچے جن کا ایک ہاتھ سلامت ہے بہت خوش نصیب سمجھے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے مصنوعی بازو یا ٹانگوں کو حرکت دینے کے لیے کسی شخص کی ضرورت نہیں۔ وہ صحیح وسالم ہاتھ سے خود ہی بٹن دبا کر اپنا دوسرا بازو یا ٹانگیں ہلا سکتے ہیں۔ لیکن وہ بچے جن کے دونوں ہاتھ مصنوعی ہیں۔ خود اپنے کسی مصنوعی عضو کوحرکت نہیں دے سکتے۔ ان کے والدین یا دوسرے عزیزوں کو ان کے ہاتھ پاﺅں ہلانے کے لیے کوشش کرنا پڑتی ہے ۔ ماہرینِ صحت کی رائے ہے کہ یہ بچے دماغی طور پرصحت مند ہیں اور ان کے ساتھ مہربانی اور شفقت سے پیش آنے کی ضرورت ہے۔ ہائیڈل برگ کا ایک پانچ سالہ بچہ جس کے دونوں ہاتھ مصنوعی ہیں، ایک سکول میں پڑھتا ہے وہ بڑا ذہین طالب علم ہے اور سب استاد اس کی تعریف کرتے ہیں۔ سکول کے دوسرے بچوں کے مقابلے میں وہ زیا دہ دشواری محسوس نہیں کرتا۔ تھالیڈو مائڈ پر دن رات تجربات ہو رہے ہیں۔ ان تجربا ت سے بہت مفید نتائج کی توقع ہے۔ ادھر سائنس دان اس کوشش میں مصرو ف ہیں کہ مصنوعی اعضا کو زیادہ سے زیا دہ مفید، دلکش، سستے اور پائیدار بنایا جائے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ہاتھوں سے محروم بچے مصنوعی اعضا کے باوجود بھی دوسروں کے محتاج رہتے ہیں۔ یہ کمی کیسے پوری کی جائے اور وہ کون سا طریقہ ہے جس سے ہاتھ اور پاﺅں سے محروم بچہ ایک کام کا صرف ارادہ کرے اور مصنوعی اعضا اس کے ذہن کی پیروی کریں۔ ہو سکتا ہے مستقبل قریب میں سائنس دان اس مسئلے کا حل دریافت کر لیں۔ یورپ میں ایسے بچوں کے والدین کی انجمنیں قائم ہیں جہاں لوگ جمع ہو کر آپس میں تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ نئی نئی مشکلات ایک دوسرے کے سامنے رکھی جاتی ہیں اور ان کے حل تلاش کیے جاتے ہیں۔ ننھے منے معصوم بچوں کے لیے علیحدہ کلب بھی کھولے گئے ہیں جہاں یہ بچے مختلف کھیل کھیلتے ہیں اس میں شک نہیں کہ سائنس نے اس میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں لیکن ا بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ نامکمل اعضاءوالے بچوں کے ایک ڈاکٹر نے بڑے دکھ سے کہا تھا:”کاش چاند اور ستاروں کی تسخیر کے بجائے دنیا بھر کے سائنس دان مل کر اس ایک بچے کا دکھ دور کر سکیں جس کے بازو ہیں نہ ٹانگیں۔ جو دن بھر اپنے بستر پر گوشت کے لوتھڑے کی طرح پڑا رہتا ہے۔ اس عمر میں تو خیر والدین کھلا پلا دیتے ہیں لیکن جب وہ بڑا ہو گا تو کیا کرے گا۔ کہاں جائے گا۔ کیسے کمائے گا اس بے رحم دنیا میں سوائے بھیک مانگنے کے شاید وہ اور کوئی کام نہ کر سکے، اور ستم تو یہ کہ اس کام کے لیے بھی اسے دوسروں کی مددکی ضرورت ہو گی۔“
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 569
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں