شیر اور گیدڑ کا مقدمہ، بندر کا انصاف
بہت عرصے قبل ایک شیر اور گیدڑ میں گہری دوستی تھی اور وہ دونو ں ایک دوسرے کو حیران کرنے کی کوشش کر تے رہتے تھے ۔ ایک دن شیر نے ایک مو ٹی تا زی بکری کو زندہ پکڑا اور اپنے دوست گیدڑ پر رعب جھا ڑنے کے لیے جلدی جلدی اس کی بھٹ پر آیا لیکن جب وہ وہا ں پہنچا تو حیرت سے اس کی آنکھیں کھلی رہ گئیں کیونکہ گیدڑ اس سے پہلے ہی ایک گائے کو پکڑے بیٹھا تھا ۔ ” ایک گیدڑ شیر سے اچھا شکا ر کیسے کر سکتا تھا؟ “ شیر نے غصے میں سو چا اور خاموشی سے بکری کو باہر گائے کے ساتھ باندھ کر سونے کے لیے چلا گیا کیونکہ را ت کا فی ہو چکی تھی لیکن وہ ساری رات جاگتا رہا کیونکہ اسے حسد ہو رہا تھا کہ آخر گیدڑ نے گائے کو پکڑا کیسے ۔ آخر کا ر اس سے رہا نہیں گیا تو سورج نکلنے سے پہلے ہی با ہر نکل کر گائے کے پاس پہنچ گیا لیکن وہا ں گائے کے ساتھ ایک بچھڑا بھی کھڑا تھا جسے را ت میں ہی گائے نے جنم دیا تھا ۔ بچھڑے کو دیکھتے ہی شیر کے ذہن میں ایک خیا ل آیا اور اس نے خود سے کہا ”میرے دوست کو دونو ں کی ضرورت نہیں ہے ۔“ یہ کہہ کر وہ بچھڑے کو بکری کے پا س لے گیا اور اسے اس کا دودھ پلا نا شروع کر دیا اور صبح ہوتے ہی وہ چلا تا ہوا گیدڑ کے پاس گیا اور اس سے کہا ” جلدی چلو میرے ساتھ ....میری بکری نے رات میں بچھڑے کو جنم دیا ہے ۔“ گیڈر نے جب جا کردیکھا تو بچھڑا بکری کا دودھ پی رہا تھا ۔ یہ دیکھ کر اس نے نفی میں سر ہلا تے ہوئے کہا : ” ناممکن “ ایک بکری کے یہا ں گائے کا بچہ نہیں ہو سکتا ۔ صرف گائے ہی بچھڑے کو پیدا کر سکتی ہے ۔ یہ بچھڑا میرا ہے ۔ “
یہ بات سن کر شیر نے غرا تے ہوئے کہا پا گل مت بنو ۔ ثبوت تمہا رے سامنے ہے ۔ یہ دونو ں ایک ساتھ کھڑے ہیں اور یہ بچھڑا میرا ہے ۔“ ” نہیں میں اس ثبو ت کو نہیں ما نتا ۔“گیدڑ نے غصے سے جوا ب دیا اور پھر دونوں آپس میں لڑنے لگ گئے ۔ اچانک شیر نے کہا ” ہم دونوں کسی کو منصف بنا کر اس بات کا فیصلہ کروالیتے ہیں کہ یہ بچھڑا کس کا ہے؟ ٹھیک ہے لیکن میں تین لو گو ں سے فیصلہ لوں گا ۔ گیدڑ نے جوا ب دیا ۔ شیر اس پر را ضی ہو گیا اور وہ دونو ں تین عقل مند جانوروں کو تلاش کرنے لگے جو ان کا فیصلہ کر سکیں ۔ چلتے چلتے وہ ہرنو ں کے ریوڑ کے پا س پہنچے جو درخت کے پتے کھا رہے تھے ۔ کیا تمہا رے ریوڑ میں کوئی عقل مند ہے؟“ شیر نے ان کے قریب جا کر کہا ۔ اس کی بات سن کر ایک بوڑھی ہرنی آگے بڑھی اور کہا اپنے ریوڑ کے جھگڑو ں کا فیصلہ میں کر تی ہو ں ، بولو کیا کام ہے ؟ ہم ایک مسئلے کو حل کرانا چاہتے ہیں “ یہ کہہ کر دونو ں نے کہا نی سنانی شروع کر دی ۔ اب ان کی کہانی سن کر ہرنی سوچ میں پڑ گئی کیونکہ وہ اچھی طر ح جا نتی تھی کہ بکری بچھڑے کو پیدا نہیں کر سکتی لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ شیر بہت خطرنا ک جانور ہے ۔ اسی لیے اس نے شیر کی طر ف دیکھتے ہوئے کہا ۔ ” یہ بات سچ ہے کہ ہما ری جوانی میں بکری بچھڑے کو جنم نہیں دے سکتی تھی اور یہ کام صر ف گائے ہی کر سکتی تھی تا ہم اب زمانہ بدل گیا ہے اور بکری بچھڑے کو جنم دے سکتی ہے اور میرا فیصلہ یہی ہے کہ یہ بچھڑا شیر کا ہے ۔ “
” کیا ....یہ نہیں ہو سکتا “ ہر نی کا فیصلہ سن کر گیدڑ نے غصے سے کہا ۔ ”چلو اب دوسرے منصف کو ڈھونڈتے ہیں ۔“ یہ کہہ کر دونوں نے دوسرے جانور کو ڈھونڈنا شروع کر دیا جوان کو انصاف دلا سکے ۔ چلتے چلتے وہ چٹانو ں کی طرف پہنچ گئے ، جہاں انہیں ایک لگڑ بگڑ نظر آیا اور انہو ں نے اسے سا راما جرا سنا دیا۔ ان کی بات سن کر لگڑ بگڑ نے شیر کی طرف دیکھا ۔ اسے یا د تھا کہ شیر اس کے بہت سارے دوستوں کو کھا چکا ہے ، اس لیے اس نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے کہا: ” سنو معمولی بکری ہی بکری کے بچے پیدا کر سکتی ہے لیکن غیر معمولی نسل کی بکری سب کچھ کر سکتی ہے اور یقینا شیر کی بکری بہت غیر معمولی ہے اور اسی وجہ سے یہ بچھڑا بھی شیر ہی کا ہے ۔ “
” تم پا گل ہو گئے ہو کیا ؟ “ گیدڑ نے غرا تے ہوئے لگڑ بگڑ کو جوا ب دیا اور شیر سے کہا ” چلو اب ہمیں تیسرے انصاف کیلئے منصف کو تلا ش کر نا ہے ۔“چلتے چلتے وہ ایک چٹان کے قریب پہنچے جہا ں ایک بوڑھا بندر لیٹا ہواتھا ۔
” معاف کیجئے گا “ شیر نے بند ر کا کندھا ہلا تے ہوئے کہا ”کیا آپ ہما رے جھگڑے کا منصفانہ فیصلہ کر سکتے ہیں؟“ یہ با ت سن کر بندر نے با ری با ری دونو ں کی بات سنی ۔ ان کی بات ختم ہو نے کے بعد بند ر نے چٹان پر ادھر ادھر کچھ دیکھنا شروع کردیا جیسے کچھ تلا ش کر رہا ہو ۔ ” کیا تم کھانے کے لیے کچھ ڈھونڈ رہے ہو ؟“شیر نے دھاڑتے ہوئے کہا ” ہمیں جلدی فیصلہ سنا ﺅ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے اور میں گھر جا کر اپنے بچھڑے کو کھانا چاہتا ہوں “ صبر کر و ابھی میںبہت مصرو ف ہو ں “ بندر نے جوا ب دیتے ہوئے کہا اور پتھر اٹھا لیا ۔ ” مصروف ؟“ شیر نے غرا تے ہوئے پو چھا ”کیا کر رہے ہو ؟“ ” ساز بجا رہا ہو ں میں ہمیشہ فیصلہ کرنے سے قبل تھوڑا سا سا ز بجا تا ہو ں “ ” کیا ؟“ شیر نے چلاتے ہوئے کہا ” تم ہمیں بیوقوف بنا رہے ہو ، تمہا رے ہا تھ میں پتھر ہے اور سب جانتے ہیں کہ پتھر سے موسیقی کی آواز نہیں نکل سکتی ۔“
یہ بات سن کر بند ر نے پتھر کو ایک طر ف رکھا اور کہا ” اگر ایک بکری بچھڑے کو پیدا کر سکتی ہے تو پھر پتھر سے بھی مو سیقی کی آواز آسکتی ہے اور تم نے سنا ؟ کتنی سریلی موسیقی ہے “ یہ سن کرشیر ساری بات کو سمجھ گیا اور اس نے غرا تے ہو ئے کہا ”ہاں یہ آواز تو بہت خوبصورت ہے “ ۔اس کی بات سن کر ارد گرد جمع ہو نے والے سارے جانور بند ر کی عقل مندی اور جرا ¿ت کے قائل ہو گئے اور انہو ں نے چلا تے ہوئے کہا ”بندر اس جھگڑے کا فیصلہ کر چکا ہے کہ صر ف گائے ہی بچھڑے کو جنم دے سکتی ہے اور اس پر گیدڑ کا حق ہے ۔“
اب تمام جانورو ں نے شیر کو لعن طعن شروع کر دی کہ وہ اپنے دوست کو دھو کا دے رہا تھا ۔ یہ ما جرا دیکھ کر شیر نے شرم سے سر جھکا لیا اور واپس جا کر گیدڑ کوگائے کا بچہ واپس کر دیا ۔
حضرت ضحاک بن سفیا ن رضی اللہ عنہ کا روشن کر دار(محمد عبداللہ)
مکہ معظمہ کی فتح کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی طرف روانہ ہوئے ، ایسے میں بنو کلا ب کے مجا ہدین کی ایک جما عت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ انہو ں نے عرض کیا : ” ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بنوہوازن کے خلا ف لڑیں گے ، ہمیں بھی جہاد کی اجا زت دیجئے ۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان جفا کش بدویوں کا جذبہ دیکھ کر بہت خو ش ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا : ”تمہاری جماعت میں کل کتنے آدمی ہیں ۔“ جو اب میں انہوں نے کہا : ” اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نو سو ہیں ۔ “ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ار شا د فرمایا : ” اگر تم پسند کرو تو میں تمہیں ایک ایسا شہسوار دیتا ہو ں جو تمہا ری تعداد کو ایک ہزار کے برابر کر دے اور تمہاری قیا دت بھی کرے ۔“آپ کا مطلب یہ تھا کہ یہ وہ شہسوار ایک سو آدمیو ں کے برا بر ہو گا ۔
انہو ں نے یک زبان ہو کر کہا : ” ضرور کیو ں نہیں ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ایک طاقت ور جسم والے صحابی رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھنے کا اشارہ فرمایا ۔ وہ فوراً آگے بڑھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو کلا ب کا جھنڈا انہیں عطا فرمایا اور بنو کلاب سے فرمایا : ” اب تم پو رے ہزار کے برا بر ہو ۔ جا ﺅ اپنے امیر کی اطا عت کرو۔ “ یہ صاحب جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے ایک سو کے برابر قرار دیا ، حضرت ضحا ک بن سفیا ن رضی اللہ عنہ تھے ۔ تا ریخ میں یہ سیا ف رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشہورہوئے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے شمشیر بر دار محافظ ۔ حضرت ضحاک بن سفیان رضی اللہ عنہ کا شمار اپنے دور کے نامور بہا دروں اور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہا یت جاں نثاروں میں ہو تا ہے ۔ ان کی کنیت ابو سعد یا ابو سعید تھی ۔ بنو کلا ب سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ مشہور نجدی قبیلے بنو عامر کی ایک شا خ تھی ۔ یہ تلوا ر اٹھائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی غر ض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھڑے رہتے تھے ۔ اسی لیے انہیں سیا ف رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خطا ب ملا ۔ آج کے الفا ظ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاباڈی گارڈ کہہ لیں ۔ زمانہ جاہلیت میں یہ اپنے قبیلے کے معزز آدمی تھے ، شعر و شاعری کا بھی شوق تھا ۔ آپ فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے ایما ن لے آئے تھے۔ مسلمان ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے انہیں اپنے قبیلے کا امیر مقرر فر مایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بنو کلا ب کے صدقات وصو ل کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی۔ ایک قبیلے بنو قر طا نے مسلمانو ں کے خلا ف سرگرمی دکھا ئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ضحا ک رضی اللہ عنہ کو ان کی طر ف روانہ فرمایا ۔ قبیلہ قرطا، قبیلہ بنو بکر کی ایک شا خ تھی ۔ حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ نے ان پر حملہ کیا اور انہیں شکست سے دو چار کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلا ع دی ۔ غزوہ حنین میں بنو سلیم کے مجاہدین کی کما ن حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ کے ہا تھ میں تھی ۔ ربیع الاول 9 ہجری میں سرو ر عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ کو خود ان کے قبیلے بنو کلاب کی طر ف روانہ فرمایا تا کہ اس قبیلے کے مشرکین کو سبق سکھایا جا سکے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اس مہم کی قیادت حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ کے سپر دفرمائی ۔ چنانچہ اسی بنیا د پر یہ مہم سر یہ ضحاک بن سفیا ن رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہوئی ۔ مشرکین نے مقابلہ کیا ، لیکن حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں ان کی ایک نہ چلی اور آخر ہتھیا ر ڈال دیے ۔ 11 ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو سارے عرب میں فتنہ و فسا د کی لہر دوڑ گئی۔ قبل کے قبائل مر تد ہو گئے۔ اسلام چھور بیٹھے ۔ کسی نے کہا ہم زکو ة نہیں دیں گے تو کسی نے مسلیمہ کو نبی مان لیا ۔ قبیلہ بنو سلیم بھی اس رو میں بہہ کر مر تد ہو گیا ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف حضرت ضحا ک بن سفیان رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا ۔ حضر ت ضحاک رضی اللہ عنہ جب ان کے مقابلے میں پہنچے تو دیکھا مر تدین بہت بڑی تعداد میں تھے۔ یہ ان کے ساتھ بڑی بہا دی سے لڑے ۔ زبر د ست جنگ ہو ئی ....اس لڑائی میں حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ مر تدین کے خلا ف لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔ لیکن ان کا خون رائیگاں نہیں گیا ۔ نبو ت کے جھوٹے دعوے دار کے خلا ف حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا گیااور انہوں نے اسے شکست فا ش دی۔ جن مرتدو ں نے مسلمانو ں کے خون سے اپنے ہا تھ رنگے تھے ، انہیں قتل کر دیا گیا ۔ حضرت ضحاک بن سفیا ن رضی اللہ عنہ بنیا دی طور پر ایک مجا ہد تھے اور زندگی کازیا د ہ تر حصہ جہا دی اسفار و مشاغل میں گزارا، اس لیے انہیں احا دیث بیان کر نے کا موقع نہ مل سکا ۔ ان سے صرف چار احا دیث روایت کی گئی ہیں ۔ سیدنا عمر فا روق رضی اللہ عنہ حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ کی رائے کو بہت اہمیت دیتے تھے ۔ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی ۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان سے بہت محبت کر تے تھے ۔ اللہ تعالیٰ کی ان پر ہزار ہا رحمتیں ہو ں۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 575
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں