حیدرآباد کے خادم نے اس طرح سے اپنی زندگی کا ایک حیران کن واقعہ تحریر کیا ہے کہ ایک دن میرے پاس ایک صاحب سفید لباس میں ملبوس اور زلفیں سجائے تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ ہمارے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے انہیں غسل دینا ہے۔ میں ان کے ساتھ گاڑی میں سوار ہو کر ایک علاقے میںپہنچا تو یہ دیکھ کر چونک اٹھا کہ وہاں پر کسی فوتگی کے نہ تو کوئی آثار تھے اور نہ ہی سوگوار افراد۔ بہرحال میں اندر پہنچا تو کمرے میں ایک جیسے حلیے کے صرف پانچ افراد تھے اور ان لوگوں نے سفید لباس پہنا ہوا تھا۔ اور ان کی پیشانیاں کثرت سجود کی علامت سے مزین ّ تھیں، چہرے پر نور تھے۔ ان پراسرار افراد کو دیکھ کر نہ جانے کیوں میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی کہ کہیں میں جنات کے درمیان تو نہیں۔ جب میں نے میت کے چہرے سے چادر ہٹائی تو ایک نورانی چہرہ سامنے تھا۔ یہ ضعیف العمر بزرگ تھے جن کے چہرے پر سنت کے مطابق داڑھی تھی۔ انہوں نے فرمایا میں آپ کو سنت کے مطابق آداب غسل بتاتا ہوں آپ میت کو غسل دیں۔ ان میں سے ایک صاحب دوسرے کمرے سے میت پر بطور پردہ ڈالنے کیلئے سفید موٹا تولیا لے آئے۔ غسل دینے کے بعد انہوں نے ایک ڈبیہ دی غالباً اس میں زعفران تھا، کہا کہ جسم پر روحانی کلمات لکھیے۔ پھر ایک سبز کپڑا لایا گیا جس پر سنہری تاروں سے جو غالباً سونے کے تھے سے اللہ پاک کا نام لکھا ہواتھا۔ میت پر یہ کپڑا ڈالا گیا، جب میں غسل سے فارغ ہوا تو ان میں سے ایک صاحب نے میری کمر پر تھپکی دی اور کہا، بعد نماز ظہر جنازہ میں شرکت کیلئے ممکن ہو تو ضرور آئیے گا۔ واپسی پر بھی ان کے علاوہ گھر میں اور باہر اور کوئی دوسرا نظر نہ آیا۔ پھر جو صاحب مجھے لائے تھے انہوں نے گاڑی پر بٹھایا اور واپس روانہ ہوئے۔ مگر کچھ آگے جانے کے بعد کہنے لگے ”یہاں سے آپ خود چلے جائیں“ میں نے اطمینان کا سانس لیا کیونکہ مجھے گھبراہٹ سی ہونے لگی تھی۔ میں تشویش کے عالم میں واپس لوٹ آیا۔ بعد میں جب میں نے اس علاقے کی مسجد کے ذمہ داران سے معلوم کیا تو ان سب نے کسی بھی گھر میں میت ہونے سے لاعلمی ظاہر کی۔ میں ذمہ داران کے ہمراہ اس گھر کی تلاش میں نکلا تو نہ گھر ڈھونڈ سکا نہ ہی ”ان پراسرار افراد“ کا کوئی سراغ ملا۔
بعد میں اس علاقے کے کئی لوگوں سے معلومات لی گئی، مسجد کے نمازیوں تک سے پوچھا گیا مگر حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہاں اس تاریخ اور اس دن میں نہ کسی کے انتقال کی اطلاع تھی اور نہ ہی مسجد سے کسی کے انتقال کا اعلان ہوا تھا۔ جب کہ میت کے وارثوں میں سے ایک شخص نے کہا تھا کہ غسل مسجد کے برابر والی گلی میں ہی دیا گیا تھا۔ جس شخص نے یہ واقعہ تحریر کیا ہے اس کا کہنا ہے کہ مجھے یوں لگتا ہے کہ جس مرحوم کو میں نے غسل دیا ہے وہ کوئی نیک پاک ”جن“ تھے جو اللہ کے احکامات اور سنت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی زندگی میں عمل پیرا تھے اور مسلمان جن تھے۔
میری زندگی کا عجیب واقعہ
1993ءستمبر، اکتوبر کی بات ہے ۔ ہماری جماعت کی تشکیل کوٹ مظفر ضلع میلسی میںہوئی۔ کوٹ مظفر میلسی شہر سے 9کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ دو ساتھی لاہور سے ہماری نصرت کیلئے چلے۔ انہیںمیلسی پہنچتے ہوئے رات ہو گئی۔ تقریباً 11بجے وہ دونوں حضرات گاﺅںکوٹ مظفر پہنچ گئے۔ گاﺅں پہنچ کر وہ پریشان کہ پتہ نہیں کونسی مسجد میں جماعت ٹھہری ہوئی ہے۔ اتنی رات کو گاﺅں میں کوئی فرد بھی نظر نہ آئے کہ جس سے پتہ کریں۔ اتنے میںکیا دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ جس کی عمر کوئی 10سال کے لگ بھگ ہو گی، سامنے سے آرہا ہے۔ انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ چلو کوئی تو نظر آیا۔ انہوں نے اس جماعت کے بارے میں پوچھا تو اس بچے نے کہا کہ ہاں مجھے معلوم ہے آپ میرے ساتھ آئیں۔ یہ اس کے پیچھے چل پڑے۔ اس نے انہیں مسجد کے دروازے پر لاکر کھڑا کر دیا۔ انہوں نے مسجد کے دروازے پر پہنچ کر پیچھے مٹر کر دیکھا تو وہ بچہ غائب ہو چکا تھا۔
حیرانگی کی بات یہ تھی کہ گاﺅں کے ماحول میں اتنی رات کو جہاں کوئی مرد نظر نہیںآرہا تھا۔ ایک بچے کا مل جانا پھر اسے یہ بھی معلوم ہونا کہ جماعت کس مسجد میں ہے، انتہائی غیرمعمولی بات تھی۔ اللہ جانے وہ کوئی جن تھا یا کوئی اور کہ جسے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کیلئے بھیجا۔ (محمد زبیر، سرگودھا)
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 581
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں