Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

نفسیاتی گھریلو الجھنیں اور آزمودہ یقینی علاج

ماہنامہ عبقری - اگست 2007ء

(پریشان اور بدحال گھرانوں کے الجھے خطوط اور سلجھے جواب) بھائی اور بھابی بڑے ظالم قسم کے انسان تھے سوال:۔ میں ابھی بچہ تھا کہ والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ میری پرورش میرے بھائی اوربھابی نے کی۔ خاندان کے تمام افراد تقسیم برصغیر میں مارے گئے ۔ بد قسمتی سے بھائی اور بھابی بڑے ظالم قسم کے انسان تھے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جس دن مجھے مار نہ پڑی ہو اگر گھر والوں سے بچ گیا تو تعلیم میں نالائق ہونے کی وجہ سے ماسٹر نے مارا گویا ہر طرف مار ہی مار۔ چونکہ مار سے خوفزدہ رہتا تھا اس لئے بہت زیادہ حساس اور جذباتی ہو گیا۔ اس کے باوجود میرا بچپن پاکباز گزرا کوئی گناہ دانستہ نہیں کیا۔ جوں توں کر کے تھرڈ ڈویژن میں میٹرک کیا اب جوان ہو چکا تھا۔ اس لئے مار کھانے کے خلاف میرے ذہن میں بغاوت پیدا ہو چکی تھی بھائی نے گھر سے نکال دیا نوکری تلاش کی مگر تھرڈ ڈویژن والے کو نوکری کہاں ملتی ہے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے جرم و گناہ کی دنیا میں چلا گیا۔ وہاں کی آزادی اور ظاہری چمک دمک نے بہت متاثر کیا۔ میں ذہنی اور اخلاقی طورپردیوالیہ ہو گیا لڑائی کے جرم میں دو سال قید بامشقت ہو گئی میری تمام صلاحیتیں سلب ہو گئیں ایک بار خود کشی کی کوشش کی مگر بچا لیا گیاجیل کی زندگی سے جو تغیر رونما ہوا وہ بظاہر اچھا تھا کیونکہ اب میں مجرم نہیں مگر اب حالت یہ ہے کہ زندگی گزارنے کا کوئی وسیلہ نہیں سوچتا ہوں خود کشی کر لوں یا دوبارہ جرم کی دنیا میں لوٹ جاﺅں اب یہ سوچنے سے قاصر ہوں کہ کیا کروں ماضی سے شرمندہ حال سے نبرد آزما اور مستقبل سے مایوس ہوں بیکار ہوں اور ایف اے کی تیاری کر رہا ہوں اب کیا ہو گا نہ جانتے ہوئے بھی امید موہوم پر آپ کو خط لکھنے بیٹھ گیا نہ جانے کیوں؟ (اسد اللہ خان) جواب:۔ محترم خان صاحب!آپ کی داستان المناک بھی ہے اور عبرت ناک بھی آپ کی زندگی ان بچوں کی عکاسی کرتی ہے جو آپ ہی کی طرح بچپن میں نفرت اور تشدد کی بنیادوں پر پروان چڑھے ۔ نہ جانے ہمارے معاشرے میں کتنے ہی ایسے معصوم مجرم ہیں جنھیں محض بچپن کی غلط تربیت نے جرم و گناہ کی تاریک دنیا میں دھکیل دیا۔ یہ چور یہ ڈاکو یہ قاتل خود ہم ہی نے تو پیدا کئے ہیں ۔ جانے یا انجانے طور پر ہم نے ہی ان کے اندر ان جراثیم کی پرورش کی ہے اور پھر جب یہ لوگ ہمارے ہی پیدا کردہ جراثیم کی بدولت گناہ کرتے ہیں تو ہم اپنا محاسبہ تو کیا یہ سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ مجرم وہ نہیں ہم ہیں بلکہ ان کے جرم در حقیقت ہم سے اور معاشرے سے انتقام کا ایک ذریعہ ہیں۔ وہ بچپن کی محرومیوں اور سزا کا اسی طرح بدلہ لیتے ہیں ۔ مگر محترم آپ نے معاشرے سے انتقام لے لیا اپنے آپ کو سزا بھی دے لی اب آپ بچے نہیں ہیں آپ خود جوان ہیں۔ اب بچپن کے اس لبادے کو اتار پھینکئے جس میں چھپ کر آپ سہارے کے متلاشی رہا کرتے تھے اب آپ کو صرف خود اپنا سہارا بننا ہے بلکہ اگر چاہیں تو اپنے جیسے معصوم لوگوں کا بھی سہارا بن سکتے ہیں۔ دنیا میں آپ جیسے لوگ جو ظلم اور تشدد کی بھٹی میں جل کر جوان ہوتے ہیںاکثر کندن بھی بن جاتے ہیں۔ کیونکہ خود دکھوں اور محرومیوں میں زندگی گزارنے کے بعد وہ دوسروں کی محرومیوں کو محسوس کر کے ان کے لئے مرہم کا کام دے سکتے ہیںآپ یہ کہتے ہیں کہ حالات نے آپ کی صلاحیتیں سلب کر لیں۔ اگرآپ اپنی فکر کا رخ قدرے بدل کر سوچیں تو آپ کے سامنے ایک نئی دنیا ابھرے گی۔ ایسی دنیا جس کی آپ کو ضرورت ہے۔ ان دبی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ جنھیں آپ نے چھپا رکھا ہے۔ آپ اپنے ذہن کے دروازے کھولئے زندگی میں صرف کانٹے ہی نہیں پھول بھی ہوتے ہیں۔ آپ ابھی سے مایوس ہو گئے ہیں۔ میں ایک ایسے نوجوان کو جانتا ہوں جو بچپن میں سڑکوں پر اخبار بیچا کرتا تھا اور سکول میں جایا کرتا تھا۔ اسی طرح محنت کر کے اس نے ایم اے کیا آج جب وہ ایم اے کر چکا تو بھی فٹ پاتھ پر رسالے اور اخبار بیچتا ہے۔ اب اس کے رسالے اور اخبارات اتنے فروخت ہوتے ہیںکہ اسے نوکری کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ایم اے کر کے ایک اچھا کاروباری آدمی بن چکا ہے آج بھی آپ اسے کراچی کی الفنسٹن سٹریٹ پر فٹ پاتھ پر بیٹھے دیکھ سکتے ہیں وہ خوش ہے مسرور ہے وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اخبار فروش ہے کیاآپ اس سے بھی گئے گزرے ہیں ؟ آپ اگر چاہیں تو دیانتداری اور ایمانداری اور محنت سے روٹی کما سکتے ہیں۔ اور اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ دنیا سے اب انتقام لینا چھوڑ دیں اور اپنی زندگی کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہو جائیں۔ کسی سہارے کی تلاش چھوڑ دیں۔ اس وقت زندگی کی مسرتیں آپ کے قدموں میں ہوں گی۔ ہو سکتا ہے وہ فعل حقیقت میں اچھا نہ ہو سوال:۔ میں نے سکینڈری سکول بورڈ کا امتحان دے رکھا ہے ۔ میری عمر سترہ سال کے لگ بھگ ہے ۔ میرے دو بڑے بہن بھائی ہیں میرے والد صاحب مجھ سے بہت ہی ناروا سلوک کرتے ہیں میرے بڑے بھائی بھی کبھی اباجان کے طریق کا ر پر عمل کرتے ہیں ۔ اس کے بر عکس اباجان دوسرے بہن بھائیو ں سے اچھا سلوک کر تے ہیں ۔ آخر کیوں ؟ ( ڈو ڈو۔ ۔ ۔ کراچی ) جواب:۔ ڈیرڈوڈو! تم سے ابا جان کیا ناروا سلو ک کر تے ہیں یہ تو تم نے لکھا ہی نہیں ۔ کیا پڑھائی کی وجہ سے ڈانٹتے ہیں، دوستوں کی محفلو ں کی بنا پر خفا ہوتے ہیں ؟ کچھ تو لکھتے آپ ؟ عزیزم ماں باپ اپنی اولا د کو اچھا سے اچھا بنانا چاہتے ہیں اور اسی لیے وہ بچو ں پر سختی بھی کرتے ہیں تاکہ ان کی آئندہ زندگی بہتر بنے ۔ بچے اس ڈانٹ ڈپٹ کو ناروا سلوک سمجھ لیتے ہیں۔ اکثر بچے اپنے ہر فعل کو اچھا سمجھ کر کر تے ہیں، مگر ہو سکتا ہے کہ وہ فعل حقیقت میں اچھا نہ ہو ۔ اب ابا جان اگر سزا دیں تو یہ ان کا نا روا سلو ک تو نہ ہوا۔ ان باتو ں سے اجتنا ب کرو، اچھے کام کر و پھر شکایت نہ ہو گی ۔ سوال:۔ میری شادی کو آٹھ سال کا عرصہ ہو چکا ہے ۔ دو بچوں کا با پ ہوں میری بیوی اپنے آپ کو ملکہ الزبتھ سمجھتی ہے اور چاہتی ہے کہ دفتر سے آکر گھر یلو دھندو ں میں اس کا ہا تھ بٹاﺅں حتیٰ کہ سالن بھی آپ ہی گرم کر کے کھاﺅں ہر وقت جلی کٹی باتیں سنا نا اس کا شعا ر بن چکا ہے اور کئی مر تبہ مجھ سے طلاق مانگ چکی ہے میں نے اسے یہا ں تک کہا ہے کہ تعطیل کے روز دونو ں بیٹھ کر اپنی مشکلا ت کا حل تلا ش کریں ۔ لیکن اس پر کچھ اثر نہیں ہوتا ۔ بعض مر تبہ تو غصے میں آکر مجھے نو چنے لگتی ہے ۔ میرا ذہنی سکون مفقود ہو چکاہے ۔ کرو ں تو کیا کروں ؟ (ایک بیوی کا مارا ہوا۔ ) جواب:۔ محترم میرے پا س ہزاروں خطوط ایسے آچکے ہیں جن میں مر د کے ظلم و ستم کی شکایت ہوتی ہے مگر عورتوں سے متعلق کم ہی خطوط موصو ل ہوتے ہیں شاید اس لیے کہ مرد اس کی پرواہی نہیں کرتے یا شاید اس لیے کہ واقعی ایسے واقعات کم ہوتے ہوں جہا ں عورت ظالم اور مرد مظلو م ہو ۔ آپ کا اپنی اہلیہ سے یہ کہنا کہ چھٹی کے روز بیٹھ کر تما م شکایتیں جمع کر کے ان کا حل تلا ش کر لیا کر یں ۔ اس بات کی دلیل ہے کہ حقیقت میں آپ مظلو م ہیں کیو ں کہ مرد بہت ہی کم اس بات پر آما دہ ہو تے ہیں ۔ کہ باقاعدہ پروگرام بنا کر اپنی شکایات کا حل تلا ش کرنے بیٹھیں اور گمان غالب ہے کہ آپ کی اہلیہ آپ کی ضرورت سے زیادہ نرمی کی بنا پر غلط رویہ اختیا ر کر چکی ہیں مگر یہ گمان صرف اسی وقت ثابت ہو سکتا ہے ۔ جب مجھے یہ بھی معلوم ہوجائے کہ آپ ازدواجی تعلقات میں سرد مہر تو نہیں ہیں ۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 65 reviews.