Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

جوانی میں بے داغ جوانی کیسے؟ (شیریں فرید)

ماہنامہ عبقری - مارچ 2009ء

”والدین چاہتے ہیں کہ بچے ان کے تجربات سے رہنمائی حاصل کریں جبکہ بچے ان کو قدامت پسند خیال کرتے ہیں اور خود دنیا فتح کرنا چاہتے ہیں۔“ زندگی کے مختلف ادوار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عنفوان شباب یا نوجوانی کا زمانہ سب سے زیادہ حسین، نازک اور توانائی بخش ہوتا ہے۔ اس دور میں امنگیں اور جذبے عروج پر ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو منوانے اور کچھ کر گزرنے کی خواہش ہوتی ہے ۔دنیا بہت حسین نظر آتی ہے لیکن مزاج میں بے چینی اور اضطراب کی بھی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ایک بھرپور اور کامیاب زندگی گزارنے کی خواہش ہوتی ہے لیکن اگر راستے میں رکاوٹیں اور مسائل حائل ہو جائیں تو یہی خوبصورت دور اذیت ناک محسوس ہونے لگتا ہے۔ آئیے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے لڑکے اورلڑکیوں کو عموماً کس قسم کے مسائل کا سامنا رہتا ہے اور ان کی ذمہ داریاں اور فرائض کیا ہیں؟ والدین کی شکایت جوان ہوتے بچوں کے والدین کو اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ بچے ان کا کہنا نہیں مانتے اور ان کی بات پر اتنی توجہ نہیں دیتے جتنی کہ انہیں دینی چاہیے۔ زندگی کے اکثر چھوٹے بڑے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں اور والدین سے مشورہ لینا پسند نہیں کرتے۔ بچے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خود دنیا کو بدل سکتے ہیں اور ان کی سوچ نئے زمانے کے مطابق ہے جبکہ بڑوں کی زندگی یہ سبق دیتی ہے کہ ایسا کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد ان کے تجربات سے رہنمائی حاصل کرے۔ عموماً بچے یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے والدین قدامت پسند ہیں اور ان کے مشوروں پر عمل کرکے وہ زمانے کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ دونسلوں کے درمیان فرق ہمیشہ موجود رہتا ہے تاہم ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی سے پیش آکر اس خلا کو پر کیا جا سکتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ بچپن میں بالعموم اور نوجوانی میںبالخصوص اپنے بچوں کے دوست بن جائیں۔ آپ بچوںکو نرمی اور اپنائیت سے تو قائل کر سکتے ہیں لیکن ڈانٹ ڈپٹ اور بے جا سختی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ اپنی زندگی کے دوراہے پر کھڑے ہوئے ٹین ایجرز کو والدین کی مدد اور مشوروں سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ ان کو اس عمر میں سب سے زیادہ رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔یاد رکھیئے والدین کی محبت بے غرض اور بے لوث ہوتی ہے۔ ان سے بڑھ کر آپ کا کوئی ہمدرد اور دوست نہیں ہو سکتا۔ دوستوں کا انتخاب ٹین ایجرز کی زندگی میں دوستوں کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ دوستوں کی خاطرسب کچھ کر گزرنے کیلئے تیار رہتے ہیں لیکن انہیں دوستوں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ امریکی صدر جارج واشنگٹن کہتے تھے، ”اگر تمہیں اپنی شہرت اور عزت درکار ہے تو ہمیشہ اچھے لوگوں کی صحبت میں رہو کیونکہ بری صحبت میں رہنے سے بہتر ہے کہ انسان تنہا ہی رہے۔“ نوجوانوں کے اندر ایک فطری جذبہ ہوتا ہے کہ وہ ماحول سے جلد متاثر ہو جاتے ہیں خاص کر اپنے ہم عصروں سے اور لاشعوری طورپر ان کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ اگر ایک دوست سگریٹ پیتا ہے تو بہت ممکن ہے کہ دوسرا بھی اس عادت کا شکار ہو جائے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کے دوستوں پر نظر رکھتے ہیں بالخصوص لڑکوں کے دوستوں کے بارے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں کہ فلاں لڑکے سے دوستی ان کے بچے کیلئے نقصان دہ ہے تو وہ روک ٹوک کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اس کے نتیجے میں اولاد اور والدین کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہو جاتا ہے کیونکہ نوجوان اپنے دوستوں کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں اور کسی قسم کی روک ٹوک اور پابندی برداشت نہیں کرتے۔ ٹین ایجرز کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کے دوست، ان کے والدین سے بڑھ کر نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ والدین کی بات آپ کو وقتی طور پر ناگوار گزرے لیکن ان کی نصیحت میں آپ ہی کی بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے۔ کیریئر کا انتخاب میٹرک سے انٹر تک کے چار سال بہت اہم ہوتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کو اپنے کیریئر کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ سب ہی نوجوانوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کو بہترین پروفیشنل کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ مل جائے۔ یہی نہیں وہ اس کیلئے بھرپور محنت بھی کرتے ہیں لیکن اگر خدانخواستہ ان کو اپنی خواہش کے مطابق ایڈمیشن نہیں ملتا یا کسی امتحان میں ناکامی ہو جائے تو وہ دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں۔ انہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر وہ ڈاکٹر یا انجینئر نہ بن سکے تو دنیا ہی ختم ہو جائے گی۔ یاد رکھیئے! فطرت تضادات کا مجموعہ ہے، جہاں آپ کامیابیوں پر خوش ہونا چاہتے ہیں وہیں ناکامیوں کو بھی برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیجئے۔ ہو سکتا ہے کسی وجہ سے اس وقت آپ کو ناکامی محسوس ہو رہی ہو لیکن آگے چل کر اسی کی بدولت آپ کو خوشیاں میسر آجائیں۔ احساس ذمہ داری کا فقدان اس عمر کی لڑکیاں اور لڑکے اپنے حقوق کے حصول کیلئے تو ہر صورت کمر بستہ ہو جاتے ہیں لیکن بہت کم ایسے ہوں گے جن کو اپنے فرائض کا بھی احساس ہو گا۔ ورنہ زیادہ تر اپنی زندگی میں مگن رہتے ہیں۔ ان کی سوچ اپنی ضروریات اور خواہشات تک ہی محدود رہتی ہے۔ ایک حساس اور ذمہ دار لڑکی نے بتایا کہ ” میں کوئی بھی کام اپنے والدین کی مرضی کے خلاف نہیں کرتی۔ اگر کچھ بُرا بھی لگے تو خاموش رہتی ہوں اور گھر کے کاموں میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتی ہوں۔ ہمیںاس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ہمارے والدین ہمارے لئے کتنی قربانیاں دیتے ہیں وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں ہمارے بھلے کیلئے ہی کرتے ہیں ہم اگر ان کیلئے کچھ اور نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کی نافرمانی تو نہ کریں“۔ ”میرے ساتھ ہی کیوں“ کی رٹ!عام طور پر اس عمر کے لڑکے لڑکیوں کی زبان سے ایسے جملے کثرت سے سننے کو ملتے ہیں ”میرے ساتھ ہی ایسا ہوتا ہے، میں ہی کیوں؟ میرا ہی رزلٹ کیوں خراب آیا ہے؟ ”وغیرہ وغیرہ.... اپنے انداز اور سوچ میں تبدیلی لائیں آپ کے ساتھ کچھ بھی دوسروں سے مختلف نہیں ہو رہا۔ اس عمر میں کم و بیش سب کو ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آپ ابھی آغاز سفر میں ہیں اس لیے ایسی کوئی بھی بات جو آپ کے مزاج سے ہٹ کر ہو یا خلاف معمول ہو آپ کو ناگوار معلوم ہوتی ہے۔ منزل مقصود تک پہنچنے کیلئے مختلف قسم کی تکالیف اور نشیب و فراز سے تو گزرنا ہی پڑتا ہے۔ ٹی وی، انٹرنیٹ اور گیمز نوجوان ٹی وی پروگرامز میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بارہ سال کی عمر کے بچے سب سے زیادہ ٹی وی دیکھتے ہیں۔ کھانے کے وقت، پڑھتے وقت اور ہوم ورک کرتے وقت بھی بچے ٹی وی کے سامنے ہوتے ہیں۔ امریکی ماہرین نفسیات کے مطابق بہت زیادہ ٹی وی دیکھنے والے بچے پڑھائی میں کمزور ثابت ہوتے ہیں ،تاہم والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ کیبل اور ڈش کے اس دور میں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ بچے کس قسم کے پروگرام دیکھ رہے ہیں؟ آج کل انٹرنیٹ پر دوستیاں کرنا فیشن بنتا جا رہا ہے اور نوجوان لڑکے لڑکیاں صرف تفریح حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کو بیوقوف بناتے ہیں۔ والدین سمجھتے ہیں کہ بچہ کمپیوٹر پر مصروف ہے لیکن اگر آپ کا بچہ ہر وقت بند کمرے میں کمپیوٹر پر مصروف رہتا ہے تو پھر یہ خطرے کی علامت ہے۔ بعض اوقات کوئی چیز اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا استعمال اسے صحیح یا غلط بناتا ہے۔ انٹرینٹ کے بے شمار فوائد ہیں۔ آپ ان لوگوں سے بات چیت کر سکتے ہیں جو اپنے پیشے میں ماہر ہوں اور ان کے تجربات و معلومات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح کمپیوٹر گیمز کے بھی فائدے ہیں۔ کمپیوٹر گیمز کھیلنے سے ذہن تیز ہوتا ہے اور قوت متخیلہ میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ہر معاملے میں اعتدال ضروری ہے۔ نوجوانوں کے مشاغل ٹی وی پروگرام اور فلمیں دیکھنا، گھومنا پھرنا، کھیل کود، سالگرہ منانا، انٹرنیٹ پر چیٹنگ کرنا اور گھنٹوں دوستوں کے ساتھ فون پر گپیں مارنا، ٹین ایجرز کے من پسند مشاغل ہیں۔ والدین کو اکثر و بیشتر ان کے یہ مشاغل گراں گزرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے تعمیری کاموں میں اپنا وقت صرف کریں اور زیادہ سے زیادہ پڑھائی پر توجہ دیں۔بچوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس عمر میں کھلنڈرے پن اور تفریح کی ضرور ت ہے لیکن اسی دور میں اپنا کیریئر بھی بنانا ہے اور مستقبل کیلئے منصوبہ بندی بھی کرنی ہے۔ مشاغل ضرور اختیار کیجئے لیکن اس طرح کہ آپ کی پڑھائی متاثر نہ ہو۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس عمر میں تفریح کا الگ ہی مزہ ہوتا ہے لیکن ایسے مشاغل اختیار کرنے سے پرہیز کیجئے جو نہ صرف آپ کیلئے نقصان دہ ہوں بلکہ آپ کے والدین کیلئے بھی ذہنی اذیت کا باعث بنیں۔ ایک خاتون نے بتایا کہ ”جب میرا 19سالہ بیٹا گھر سے بائیک لے کر نکلتا ہے تو میری جان سولی پر لٹکی رہتی ہے اور میں اس کی طرف سے بے حد فکر مند رہتی ہوں کیونکہ وہ محض تھرل اور تفریح کیلئے دوستوں کے ساتھ بہت تیز بائیک چلاتا ہے۔“ اس طرح بہت سے والدین کو بچوں سے یہ شکایت رہتی ہے کہ وہ کئی کئی گھنٹے فون مصروف رکھتے ہیں۔ گھر والے کہیں فون نہیں کر سکتے اور ان کی لمبی لمبی کالز کی وجہ سے بل بہت زیادہ آتا ہے جو گھر کا بجٹ متاثر کرتا ہے۔ اگرمنع کیا جائے تو بچے برا مناتے ہیں۔ یہاں والدین کو چاہیے کہ بچوں کو محبت اور شفقت سے سمجھائیں کہ جس طرح ان کے دوست ان کیلئے اہم ہیں اسی طرح خاندان کے افراد بھی ان کیلئے اہم ہیں اور ان کی بھی اپنی ضروریات ہوتی ہیں۔ بچوں کے تعاون کرنے کی صورت میں ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی کیجئے۔ نوجوان بڑی حد تک اپنے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔ آپ کی کامیابیاں اور ناکامیاں آپ کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ والدین رہنمائی کر سکتے ہیں مگر اپنے مستقبل کی سمت کا تعین کرنا خود آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ خود اپنے دوست نہیں ہیں تو کوئی دوسرا آپ کا دوست نہیں بن سکتا۔ مثبت انداز سوچ اپنائیے اور ایک بھرپور شخصیت کے ساتھ دنیا کا مقابلہ کیجئے۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 716 reviews.