ابھی سفر حج سے واپسی ہوئی ہے پورے سعودی عرب میں تاریخ کا انوکھا معاشی بحران شروع ہوا ہے‘ یہی معاشی بحران 1918ء میں تھا‘ جب جنگ عظیم اول اپنے اختتام کو پہنچی‘ یہودی اور عیسائی ایک دوسرے کو قتل کرتے ہوئے اتنا آگے نکل گئے کہ لاکھوں سے زیادہ جانیں ختم ہوئیں اور ایٹم بم بنانے کے خواب نظر آنے لگے اور پھر دوسری جنگ عظیم میں جو 1941 ءسے 1945ء تک لاکھوں جانوں کی بھینٹ کے ساتھ ساتھ ہیرو شیما اور ناگا ساکی ایٹم بم کا نشانہ بن گئے‘ آج وہی سعودی عرب ہے جو پھر سے اسی معاشی بحران کی طرف بُری طرح لپٹا ہوا ہے۔ یہ بحران آخرکار کیسے ختم ہوگا؟ سعودی عرب جس کا پرانا نام حجاز تھا کی واپسی کیسے ہوگی؟ یہ سوالات ہیں اور ان کے جوابات فی الحال تسلی بخش دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس وقت جو بات آپ سے میں کرنا چاہوں گا اور میرے خیال میں یہ وقت کی نہیں ہروقت کی اہم ضرورت ہے وہ وہاں کے تارکین وطن ہیں جنہیں وہاں اجنبی کہتے ہیں۔ اجنبیوں پر ٹیکس پر ٹیکس اور مشکلات سے مشکلات آئیں اور اتنی بڑھیں کہ مجھے ایسے لوگ اپنے وطن واپس لوٹتے ہوئے نظر آئے اور ملے یا پھر ان کے احوال سننے کو ملے جو پچاس سال سے بھی یہاں رہ رہے تھے کہ اپنے وطن کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں چاہے وہ اسلامی ملک ہو یا غیراسلامی انسان کیوں جاتا ہے؟ یقیناً معاشی حالات بہتر کرنے کیلئے ننانوے فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں جو معاشی بحران میں یا خاندانی غربت اور تنگدستی میں یا پھر چند لوگ ایسے ہیں جو اچھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہاں اچھی نوکری لیکن اس وقت ہمیں جو چیز زیادہ سننے کو ملی وہ وہاں کے گلے شکوے برائیاں غیبتیں اور نفرت کا انوکھا ایسا نظام جو گمان خیال اور الفاظ میں شاید نہ آسکے۔ اگر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو وہاں رہنے والا ہر شخص اپنے وطن کوچھوڑ کرگیا۔ شروع شروع میں ان حضرات نے بہت زیادہ مہمانی اور میزبانی کی مجھے یہاں تک سننے سنانے کو ملا کہ سختیاں اور دوسرے نظام کو خراب کرنے میں خود ہمارا ہاتھ ہے‘ ہم نے انہیں مشورے دئیے۔ اب جب ہمارے حالات بہتر ہوئے کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے وطن میں کوٹھیاں‘ بنگلے‘ گاڑیاں‘ بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور ان کے لاکھوں کے اخراجات‘ سونے کے زیور‘ چوڑیاں‘ ہیروں کے سیٹ اور بہت بڑی بڑی پراپرٹی حتیٰ کہ فیکٹریاں اور ملیں سعودی عرب کے کاروبار سے لگائیں۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے وہاں زندگیاں گزاریں اور وہاں کے مال اور چیزوں سے آج وہ خوشحال ہوگئے۔ کیا اچھا لگتا ہے کہ ہم انہیں برا کہیں؟ مجھے اس بات کا سوفیصد احساس ہے کہ ہر معاشرہ میں خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں اور اسی طرح ہر فرد خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ سعودی عرب اور اس کی عوام کو ہروقت اعتراض اور تنقید کا نشانہ بنانا۔ ہمیں اپنی خامیاں نظر کیوں نہیں آتیں؟ کتنے تارکین وطن ایسے ہیں جنہوں نے وہاں غبن کیے‘ چوریاں کیں‘ دھوکے دئیے اور دو نمبر کام کیے۔ جدہ میں بنی مالک نام کا ایک علاقہ ہے جہاں ہردو نمبر کاغذ اور ہردونمبر کام کرنے والے سعودی نہیں ہیں اجنبی ہیں۔ پھر ایسا کیوں ہوا؟ انہوں نے ہمیں جی بھر کر کھلایا‘ بچے پلے‘ بڑے ہوئے‘ جوان ہوکر شادیاں ہوئیں‘ ان کی اولادیں ہوئیں اور پھر یہاں تک کہ ہم خود خوشحال ہوگئے۔ مجھے مکہ مکرمہ میں ایک صاحب کے گھر جانا ہوا بہت بڑا گھر تھا جس میں انسان باآسانی صحت اور فٹنس کیلئے چہل قدمی کرسکے یعنی اتنا بڑا گھر تھا اس کے نیچے کا حصہ بہت بڑا تہہ خانہ تھا جس میں ساری سونے کے زیور بنانے کی فیکٹری تھی وہ گزشتہ 45 سال سے وہاں مقیم ہے مجھے ان کے سابقہ حالات کی اس لیے خبر ہے کہ میں انہیں خاندانی طور پر جانتا ہوں ان کا خاندان ایک نہایت سفید پوش گھرانہ تھا لیکن آج ان کی زندگی میں دائیں بائیں سونے کے ڈھیر ہیں یہ سب سونا کہاں سے ملا؟ ۔قارئین! ہمیں کچھ تو سوچنا چاہیے کہ وہ صحابہ و اہل بیت کی اولادیں ہیں۔ پرسوں 27 اگست بروز پیر مجھے ایک سعودی سے ملاقات کا موقع ملا جس گھر میرا قیام تھا اور شام کو میری فلائٹ تھی وہاں وہ ملاقات کیلئے تشریف لائے‘ سعودی آرمی میں ہوتے ہیں‘ دوسی قبیلہ زہرانی سے ان کا تعلق تھا اور بڑے بڑے صحابہ حتیٰ کہ انہوں نے مجھے یہ بات بتا کر حیران کردیا کہ وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ
کے قبیلے اور خاندان سے ہیں۔ وہ اس وقت روزے سے تھے کیونکہ پیر اور جمعرات کا روزہ رکھنا اور ایام بیض ہر اسلامی ماہ کے تیرہ چودہ اور پندرہ تاریخ کا روزہ رکھنا ان کا معمول ہے۔ مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی نہ صرف وہ روزے سے ہیں بلکہ ان کے گھر کے تمام افراد حتیٰ کہ بچے بھی روزے سے تھے۔ عرب کی صفات میں ہے چھوٹے سے چھوٹا نمازی‘ ہر بات پر لا الہ الا اللہ غصے کے وقت اللھم صل علی محمد کہنا‘ مہمان نوازی‘ توحید اور کتنی عجیب بات ہے کہ جتنا اللہ کے نبی ﷺ کے نام کے ساتھ یہ محبت کرتے ہیں کہ شاید کوئی کرتا ہوگا۔ اگر تو محبت کرنا ڈھول بجانا اور بھنگڑے ڈالنے کا نام ہے تو اس محبت کو نہ وہ جانتے ہیں اور نہ مانتے ہیں۔ آئیے! اپنے رزق میں بے برکتی سے بچتے ہوئے غیبت‘ دھوکہ فریب اور ان لوگوں کے ساتھ نفرت کا اظہار نہ کریں بلکہ میں اپنے ہم وطنوں کو اور خود اپنے آپ کو یہ بات کہوں گا کہ آپ اگر باعزت رزق‘ صحت‘ خوشیاں کامیابیاں چاہتے ہیں تو پھر نفرت چھوڑ دیں چاہے وہ کسی ملک سے‘ قوم سے‘ مسلک‘ مذہب‘ فرقے سے یا کسی علاقے سے۔ یقین جانیے! یوں نفرت آپ چھوڑیں گے اور یوں محبت کے پودے لگائیں گے رزق‘ عزت‘ برکت‘ صحت کے آپ کیلئے آسمان سے انوکھے فیصلے ہوں گے۔ یہی پیغمبر اسلام ﷺ کا پیغام ہے‘ میڈیکل سائنس اور نفسیات کا پیغام بھی یہی ہے کیونکہ صحت مند زندگی درگزر اور معاف کرنے کا نام ہے اور لوگوں کی اچھائیوں پر نظر رکھنے کا نام ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں