نیکی خیرخواہی اور دوسروں کی بھلائی کے جذبات کے علاوہ دیگر تمام جذبات ایک حد میں رہیں تو بہتر ہے۔ لیکن اچھے جذبات اگر بے عمل ہوں تو ان سے کیا فائدہ۔ کسی نہ کسی حد تک ہم اچھے اور نیک خیالات کو عملی زندگی میں بروئے کار لاسکتے ہیں۔ اچھے اور نیک جذبات سے مراد معاشرے کیلئے مفید اور مثبت جذبات اور امنگوں سے ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ مہذب طرز عمل اور کسی حد تک ایثار کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم کو خودپسندی‘ ذاتی مقصدیت اور لالچ سے بچ کر یعنی اپنے منفی جذبات پر قابو پاکر چلنا ہے۔جذبات سے گھبرانا اور ان کو غیرضروری سمجھنا غلط ہے۔ جذبات زندگی کا بڑا لطیف اور خوب صورت حصہ ہیں اگر کوئی شخص کسی عظیم نقصان پر غمزدہ یا اداس نہیں ہوتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے اعصاب درست نہیں‘ چنانچہ اسے کسی ماہر نفسیات یا معالج اعصاب سے رجوع کرنا چاہیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غم یا تکلیف کو محسوس کرنا اور اس کو بیان کرنا صحت کیلئے مفید ہے اور جو لوگ اپنے جذبات کو دبائے رکھتے ہیں‘ ان میں مرض سے مزاحمت کی قوت بہت کمزور ہوجاتی ہے۔ خوشی‘ محبت‘ دلیری‘ سرشاری اور ایثار ان گنت انسانی جذبات اور احساسات میں سے چند ہیں جن کی نوعیت مثبت ہے۔ ان کے محور پر سماج کے پہیے گھومتے رہتے ہیں۔ ان کے برعکس نفرت غصہ‘ خودغرضی خود پسندی اور لالچ وغیرہ فرد اور معاشرے کے لیے مضرجذبات ہیں۔ یہ طرح طرح کے فتنے اور فساد کی جڑ ہیں‘ چنانچہ پوری انسانی تاریخ کی روشن قوتیں ہمیشہ سے ان کو مٹانے کی جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں