(پریشان اور بدحال گھرانوں کے الجھے خطوط اور سلجھے جواب)
ناکامی کی وجہ سے انتقاماً دونوں غلط راہ پر جا نکلے
سوال: میں 1940ء میں ایک درمیانے درجے کے مذہبی گھرانے میں پیدا ہوا ۔میٹرک تک معمولی نمبروں سے پاس ہوتا رہا مگر بعد میں ذہن بہتر ہو گیا اور صرف 22 سال کی عمر میں ایم اے اور ایل ایل بی فرسٹ کلاس میں پاس کر لیا۔ تعلیم کے دوران ہی میری پسند سے خاندان میں ہی میرا نکاح کر دیا گیا۔اس نکاح میں میرے ابا نے میری طرفداری کی مگر میری امی نے مخالفت کی تھی۔وکالت کے دوران میری ملاقات ایک محترمہ سے ہوئی جو ایک بڑے سرکاری افسر کی بیوی تھیں اور ان کے چار بچے تھے اس کے باوجود بات اتنی بڑھی کہ ہم نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔میں نے امی جان پر احسان کر کے اپنی منکوحہ کو طلاق دے دی مگر افسوس یہ کہ ہماری کوشش بارآور نہ ہو سکی اور وعدے کے باوجود کہ ہم ہمیشہ پاکیزہ زندگی گزاریں گے۔ناکامی کی وجہ سے انتقاما ً دونوں غلط راہ پر جانکلے اور قدرت نے ہم سے اس گناہ کا یہ بدلہ لیا کہ ہم کو ایک خوبصورت بچہ عطیہ دیا۔ان کے شوہر کا تبادلہ ہو گیا اورمیں اس قدر پریشان ہوا کہ اچھی خاصی وکالت چھوڑ دی کاروبار کیا تو بیس ہزار کا گھاٹا اٹھایا۔آخر ایک جگہ نوکری کر لی۔ جلد ہی ترقی ہو گئی اور میری تنخواہ بارہ سو ہو گئی اس ملازمت کے دوران شادی کی اور اللہ تعالیٰ نے ایک بچے سے نوازا۔ قدرت کی ستم ظریفی یہ کہ میرا تبادلہ بھی اسی شہر میں ہو گیا جہاں محترمہ ہیں۔ان سے ملا اپنے بچے کو پیار کیا۔انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر کو یقین ہو چکا ہے کہ یہ بچہ ان کا نہیں۔سب سے بڑی وجہ یہ کہ بچہ مجھ سے مشابہ ہے ان کے شوہر میرے اس معصوم بچے پر بے انتہا ظلم کرنے لگے ہیں جس کو وہ محترمہ برداشت کر سکتیں ہیں نہ میں۔
جب سے میں نے یہ سنا ہے بچہ مجھے ہر وقت یاد آتاہے رو رو کر میری آنکھیں سوج گئی ہیں۔ محترم حکیم صاحب مجھے بتائیے کہ میں کیا کروں بچہ حاصل نہیں کر سکتا اس کی ذلت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔ میرے دوست میری اس حالت پر یشان ہیں۔میرے ماتحت کہتے ہیںکہ صاحب کو کیا ہو گیا ہے۔خدا کے لئے کچھ بتائیے۔(عظمت اللہ)
جواب: محترم عظمت اللہ صاحب! یہ تمام کائنات چند فطری اصولوں کے تحت چل رہی ہے ان فطری اصولوں میں جب بھی کوئی رخنہ ڈالتا ہے تو اس کی تباہی لازمی ہو جاتی ہے ۔ان فطری اصولوں کی بنیاد پر ہم نے چند اخلاقی ضابطے رکھے ہیںان کی بنیاد ایک طرف ہم نے خود اپنے تحفظ کے پیش نظر رکھی ہے۔دوسری طرف ان کا تعلق فطری اصولوں سے بھی ہے ۔یہ بات نفسیات سے بعید ہو گی اگر میں یہ کہوں کہ آپ نے ان اصولوں میں ایک نہیں بہت سے رخنے ڈالے ہیںجس کی سزا آج آپ بھگت رہے ہیں ۔میرا مشاہدہ ہے کہ کوئی انسان برائی کرنے کے بعد اس کے نتائج سے بچ نہیں سکتاخواہ آپ اسے تو ہم پرستی کہہ لیں یا فطری اصولوں کا حاصل جمع ۔مگرمیرا مشاہدہ ہر بار صحیح ثابت ہوا ہے آپ نے سب سے پہلا رخنہ اس وقت ڈالا تھا جب چار بچوں کی ماں سے راہ و رسم بڑھائی دوسرا بہت بڑا اور خطر ناک رخنہ اس وقت ڈالا جب آپ نے ایک معصوم اور بے گناہ لڑکی کو محض اپنے جذبات کی تسکین کیلئے طلاق دے دی۔ تیسرا بد ترین رخنہ اس وقت ڈالا جب کہ آپ نے ان محترمہ سے تعلقات قائم کرلئے اتنا کچھ کرنے کے بعد یہ کیسے ممکن تھا کہ آپ اس برائی کے نتائج سے محفوظ رہتے۔اور اب آپ ایک اور رخنہ ڈالنے کی سعی کر رہے ہیں۔جس کا نتیجہ اس سے زیادہ المناک ہو سکتا ہے اور وہ ہے ان محترمہ سے تجدید ملاقات اور بچے سے تعلق۔فرض کیجئے کہ آپکے ان جذبات کی بنا پر وہ صاحب ان محترمہ کو طلاق دے دیتے ہیں تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا آپ اپنی موجودہ ازدواجی زندگی میں ایک بار پھر شگاف ڈالیں گے۔اگر آپ اپنے جذبات کی آسودگی کی خاطر محض اس خود فریبی کو سامنے رکھیں کہ آپ محض بچے کی خاطر اس سے نکاح ثانی کر لیں گے تو گویا آ پ اس بچے کی تمام زندگی پر حرامی ہونے کا ٹھپہ لگادیں گے ظاہر ہے آپ ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے لیکن میں صرف یہ کہنا چاہتا تھاکہ آپ کی ان ملاقاتوں کا انجام بھیانک ہو سکتا ہے۔
اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ وہ محترمہ اگر نیک نیت ہیں اورآپ سے ازسر نو ناجائز تعلق قائم کرنا نہیں چاہتیں تو انہیں چائیے کہ کسی طرح شوہر کو یہ یقین دلا دیں کہ یہ بچہ انہیں کا ہے اور اس کا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ آپ ان سے قطعی طور پر قطع تعلق کر لیں اس طرح آپ نہ صرف اپنی زندگی کو محفوظ کر سکیں گے بلکہ اس بچے کے مستقبل کو بھی کانٹوں سے بچا لیں گے۔ یہ بھول جائیے کہ وہ آپ کا بچہ ہے اس لئے کہ سو فیصد تو وہ محترمہ بھی یہ نہیں بتا سکتیںکہ وہ آپ ہی کا ہے ہو سکتا ہے کہ انہیں غلطی ہوئی ہو اس کی مشابہت یہ تو ضروری نہیں کہ آپ سے مشابہت محض اسی لئے ہے کہ وہ آپ کا ہے اس کی اور بھی وجوہ ہو سکتی ہیں۔مجھے یقین ہے کہ اگر وہ محترمہ آپ سے قطعی الگ رہیں تو کچھ عرصہ بعد ان کے شوہر بچے کو اپنا سمجھنے پر مجبور ہونگے انہوں نے یہ شک محض اس لئے دل میں پیدا کر لیا ہے کہ ان محترمہ نے انہیں شک کی ہوا دینے کیلئے کوئی وجہ جواز دی ہو گی۔ اپنے رویے سے یا اپنی گفتگو سے نہ سو فیصد ان کے شوہر کو یہ یقین ہو گا کہ وہ اس کا بچہ نہیں ہے اس لئے شک کی بنا پر آپ اپنی فکر کی راہ بدل سکتے ہیں۔اگر آپ نے اپنا رویہ نہ بدلا تو پھر اس بار آپ جو رخنہ ڈالیں گے وہ بہت ہی المناک اور بھیانک ہو گا۔
دوسرے لڑکے بھی تو ہیں
سوال :۔ میں میڈیکل کے سال اول میں ہوں مجھے شروع ہی سے ڈاکٹری سے کوئی دلچسپی نہیں رہی مگر گھر والوں کے مجبور کرنے پر میڈیکل میں داخلہ لے لیا ۔ میرے ایک چچا ایک ڈاکٹر ہیں ۔ سکو ل میں اچھی پوزیشن سے پا س ہوتا رہا ہوں مگر سال اول کے ٹیسٹ میں بری طر ح ناکام رہا۔ میں گھر والوں سے کہتا ہوں کہ میں یہ مضامین نہیں پڑھ سکتا تو وہ کہتے ہیں کہ دوسرے لڑکے بھی تو ہیںعجیب الجھن میں ہوں بتائیے کیا کر وں؟ (آر۔ اے ۔ قریشی)
جواب:۔ محترم قریشی صاحب والدین کی یہ تمنا ہو تی ہے ۔ کہ وہ اپنی اولا د کو ایسی تعلیم سے آراستہ کریں جس سے وہ آئندہ زندگی بہتر گزار سکے ۔ مگر بسا اوقات والدین یہ بھول جاتے ہیں کہ مخصوص تعلیم کے لیے ذہن کا اس مخصوص شعبے کے لیے تیار ہو نا بے انتہا لا زم ہے اور پھر میڈیکل تو اچھا شوق رکھنے والے لڑکوں کے لیے بھی مشکل ہوا کر تا ہے ۔ ان کو بھی دن رات محنت کر نی پڑتی ہے ۔ جب میڈیکل میں آپ کو شوق ہی نہیں تو پھر محنت کیسے کریں گے ۔ میرے خیال میں توآپ کو اپنے والدین سے کھل کر بات کر نی چاہئے ۔ فضول وقت برباد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں