قبر نے جگہ نہ دی
ایک صاحب نے بتایا کہ میں بلدیہ میں ملازم تھا۔ بلدیہ کے ذمہ لاوارث لاشوں کو دفنانا بھی شامل ہے۔ ایک دفعہ ایک لاوارث لاش کے دفن کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ قبر کھودی گئی، جب قبر مکمل تیار ہو گئی کہ لاش کو دفن کرتے ہیں تو اچانک قبر گر گئی اور مٹی کا ڈھیر بن گئی۔ پھر قبر کھودی پھر جب مکمل تیار ہوئی تو پھر گر گئی۔ گورکن تھک کر چور ہو گئے اور ان کی بری حالت تھی۔ تمام جسم پھوڑے کی طرح دکھنے لگا۔ تیسری دفعہ قبر کھودی گئی اور قبرستان سے ادھر ادھر گری پڑی اینٹیں اکٹھی کر کے چاروں طرف دیوار بنا کر اور چھت سی بنا کر مٹی ڈال دی تاکہ نہ گرے ۔ ہمارے چہروں پر عجیب سا خوف طاری تھا۔ بصد مشکل مٹی ڈال کر قبر کا منہ بند کر دیا کہ اچانک قبر کے اندر سے کڑ کڑاھٹ کی آواز سنی۔ وہ عجیب قسم کی آواز تھی جس کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ آواز ایسی تھی جیسے کوئی شخص پتلی سوکھی لکڑی کو پاﺅں کے نیچے دباتا ہے تو چرچرانے کی آواز نکلتی ہے بالکل ویسی آواز قبر کے اندر سے آئی تھی۔ تمام لوگوں نے آواز سنی اور تمام لوگ خوف زدہ تھے اور جلدی جلدی واپس جانا چاہتے تھے ۔ اس کے بعد دل ہلا دینے والی آوازیں آنے لگیں اور قبر کے اندر سے تین دفعہ کڑ کڑانے کی آوازیں آئیں۔ جس طرح لکڑی کو ہاتھ میں لے کر یا گھٹنے پر رکھ کر توڑتے ہیں۔ اس طرح ہڈیوں کے توڑنے کی اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی آواز تھی۔ ان حالات میں قبرستان میں رکنا اور باقی مٹی ڈالنا مشکل ہو گیا۔ ہر طرف افراتفری مچ گئی اور ہم بھاگ کر قبرستا ن سے نکلے اور و ہ رات بہت بھاری تھی۔ خوف کی وجہ سے نیند نہ آئی اور کئی دنوں تک خوف کی کیفیت طاری رہی اور عجیب قسم کی بے چینی‘ ڈر اور اضطراب تھا کہ نامعلوم کس گناہ کی پکڑ میں یہ شخص مبتلا تھا انسان جب گناہ کرتا ہے، اللہ کی نا فرمانی کرتا ہے توبھول جاتا ہے کہ قبر میں جانا ہے۔ کیا پتہ قبر جگہ دیتی ہے یا نہیں؟
جیسی کرنی ویسی بھرنی
ہمارے پڑوس میں ایک پٹواری صاحب رہا کرتے تھے‘ گھر میں دولت کی ریل پیل تھی۔ کھانا پینا اچھا تھا۔ لوگوں کا آناجانا رہتا تھا۔ گویا گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ اگر کوئی چیز نہیں تھی تو وہ تھا ” سکون“ ۔ پٹواری صاحب نے دو شادیاں کیں پہلی بیوی سے ایک بیٹی ہے‘ بیٹی بھی نہایت خوبصورت اور صحت مند تھی مگر بیٹی انتہائی منہ پھٹ اور بد زبان تھی اور بات بات پر بگڑجاتی تھی۔ بے جا پیار اور دولت نے اس کے مزاج کو بگاڑ دیا تھا۔ اس بیٹی نے اپنے ماںباپ کے ناک میں دم کیا ہوا تھا۔ ماں باپ تو کیا خود پڑوسی بھی تنگ تھے۔ کیونکہ جب بیٹی کو غصہ آتا تو پھر وہ بے قابو ہو جاتی۔ ہمارے گھر اس کی ماں کا آنا جانا تھا۔ ایک دن اس کی ماں نے اپنے دل کا حال سنایا اور عجیب بات کہی کہ سنا ہے جیسی کرنی ویسی بھرنی ۔ سب متوجہ ہو گئے کہ پٹواری کی بیوی یہ کیا کہہ رہی ہے۔ اس نے کہا کہ میں بھی غصہ کی بہت تیز تھی مگر اب بچے جوان ہو گئے ہیں تو غصہ کم ہو گیا ہے۔ میں بھی اسی طرح ماں کے ساتھ لڑتی تھی اور میں نے بھی غصہ میں آ کر ایک دفعہ اپنی ماں کو جوتا مارا تھا لیکن میری بیٹی تو روزانہ مجھے جوتے مارتی ہے اور زور زور سے رونے لگی۔ کہنے لگی کہ مجھے بہت پچھتاوا ہے۔ اپنی غلطی کا احساس ہے مگر مجبور اور بے بس ہوں اور پریشان ہوں ۔روزانہ اپنی غلطی کی معافی مانگتی ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ میں نے اپنی امی کو جوتا ماراتھا۔ مجھے اس ایک جوتے مارنے کی سزا میںروزانہ جوتے پڑتے ہیں مگر اس وقت میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور اب میری بیٹی کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔
بیٹے نے والد کو جوتا کیوں مارا؟
ایک دوست نے ایک واقعہ سنایا ہے کہ ہمارے قریب ہی ایک گھرانہ رہتا ہے۔ والد کی عمر 60‘ 65 سال کے قریب ہے۔ لیکن ان کے چہرے پر خوشحالی کے آثار نہیں ہیں بلکہ پریشانی اور ویرانی ٹپکتی رہتی ہے۔ معاشی لحاظ سے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود ان کے گھر میں ہر وقت دنگا فساد رہتاہے۔باپ اور بیٹا ہر وقت آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں اور لڑائی کی بظاہر وجہ بھی سمجھ نہیں آتی ۔ باپ اور بیٹا ایک دوسرے کو بہت زیادہ گالیاں دیتے ہیں۔ ایک دن والد روتا ہوا آیا ‘ انتہائی دکھ کے لہجے میں روتے ہوئے شکایت کی کہ آج بیٹے نے انتہا کر دی ہے۔ پہلے تو بیٹا مجھے گالیاں دیتا تھا لیکن آج نے مجھے جوتا اتار کر مارا ہے۔ سب لوگ اکٹھے ہوگئے۔ بیٹے کو بلایا گیا ‘ ایک بزرگ جو قریب ہی رہتے ہیں اور اس خاندان کو عرصہ دراز سے جانتے ہیں اور اس لڑکے کے دادا کو بھی جانتے ہیں ،وہ بلا کر بیٹے کو نصیحت کرنے لگے کہ والد کا مقام بہت اونچا ہے۔ جس نے بھی والد کو مارا ہے وہ ہمیشہ ذلیل و خوار ہوا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی رسوائی ملتی ہے۔ جب یہ بزرگ بیٹے کو نصیحت کر رہے تھے بجائے بیٹے کے والد نے رونا شروع کر دیا اور روتے روتے ہچکی بندھ گئی اور بار بار یہی کہتا تھا کہ یہ بزرگ صحیح فرما رہے ہیں۔ لوگوں نے سمجھا بجھا کر باپ بیٹے کو گھر بھیج دیا اور بیٹے نے آئندہ نہ مارنے کا وعدہ کیا۔ جب تمام افراد چلے گئے تو وہ بزرگ رک گئے ‘ ہم صرف 2‘ 3 آدمی بچ گئے تھے ‘ ان بزرگ نے عجیب بات بتائی کہ آپ بیٹے کو نصیحت کر رہے تھے اور صلح کی باتیں کر رہے تھے۔ بزرگ نے کہا کہ آپ نے ایک بات نوٹ کی ہو گی کہ جب میں بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو باپ زارو قطار رو رہا تھا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ شخص خود بیٹا تھا اور اس کا باپ زندہ تھا اس نے اپنے والد کو جوتا مارا تھا اور میں نے اس شخص کو جو اس وقت باپ ہے، یہی نصیحت کی تھی کہ والد کا مقام بہت بڑا ہے لیکن اس نے میری بات نہ مانی۔ آج اس کے بیٹے نے اس کو جوتے سے مارا ہے۔ یہ مکافات عمل ہے ۔ وقت کا پہیہ چل رہا ہے جس نے آج جو کچھ زیادتی کی اُس کو اِس کا جواب ضرور ملے گا، مگر انسان سوچتا نہیں ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں