بالوں کی خشکی
میرے بالوں میں بہت خشکی رہتی ہے بہت سے شیمپو استعمال کرلیے پر فرق نہیں پڑا ۔ خشکی کو ختم کرنے کے لیے کوئی ٹوٹکہ بتادیں۔ (ماریہ،جہانیاں)
مشورہ:میتھی کے بیج خشکی کا خاتمہ کرتے ہیں۔ بازار سے میتھی دانہ جسے میتھرے بھی کہتے ہیں ایک پائو خریدیں۔ بازار میں ہی پسوائیے۔ گھر میں پیسنے سے گرائنڈر خراب ہو جاتے ہیں۔ اب بالوں کے حساب سے دو تین چمچ میتھی دانہ کا سفوف تھوڑے پانی میں بھگوئیے۔ صبح اس میں آپ تھوڑا سا دہی ملائیے اور پھر بالوں کی جڑوں میں اچھی طرح لگا لیجئے۔ ایک گھنٹے بعد سردھوئیے‘ ہربل شیمپو کریں اور چوتھائی لیموں کا رس نکال کر تھوڑے سے پانی میں ملا کر سر میں لگائیے۔ یہ سب مشکل لگے تو چند قطرے لیموں کا رس ہتھیلی پر ڈال کر بالوں کی جڑوں میں لگالیں۔ بالوں کی خشکی چند دنوں میں دور ہو جائے گی۔تھوڑے سے دہی کو تین دن پڑا رہنے دیں، چوتھے روز اس میں دو چمچ گھیگوار کا گودا کانٹے سے مل کر ملائیں۔ دہی خشکی دور کرتا ہے۔ کچھ خواتین دہی میں سرسوں کا تیل ملاکر سر میں اچھی طرح لگاتی او ر آدھے گھنٹے بعد دھو لیتی ہیں۔ اس سے بھی بالوں کی خشکی دور ہوتی ہے اور بال چمکدار ہو جاتے ہیں۔ آدھا کلو ناریل، تل یا سرسوں کے تیل میں میتھی دانہ کو ٹ کر ملائیے۔ تقریباً پانچ چمچ ڈالیے اور دو چمچ کلونجی ملاکر دھوپ میں بیس دن رکھ دیجئے۔ بعد میں یہ تیل سر میں لگائیے، خشکی نہیں رہے گی۔ اسی طرح چقندر کے پتے اور ایک چقندر سرسوں کے تیل میں جلا کر اسے سر پر لگائیے۔ چقندر کو چھلکوں سمیت گول کاٹ لیں۔ ایک ایک قتلہ تیل میں ڈالیے وہ جل جائے تو نکال کر دوسرا ڈالیے۔ آخر میں پتے ڈال کر چولہا بند کردیں۔ یہ تیل بھی بالوں کیلئے بہت مفید ہے۔ بال مضبوط اور خشکی دور کرتا ہے۔
اسے لگانے سے بال گرنے سے محفوظ رہتے ہیں۔
لہسن ضرور کھائیے
کئی بار لہسن کھانے کی کوشش کی مگر طبیعت میں عجب بے چینی ہوئی۔ لہسن کھانے کا کوئی ایسا طریقہ جس سے طبیعت بحال رہے۔ (اہلیہ مسعود‘کراچی)
مشورہ:لگتا ہے آپ کا مزاج گرم ہے اب پتا نہیں آپ نے کونسا لہسن کھانے کی کوشش کی ہے۔ ہمیشہ دیسی لہسن لینا چاہیے۔ ایک یا دو دانے کھائیے۔ پرانے حکیم ہرا دھنیا اور تین دانے لہسن سل بٹہ پر پیس کر کھلاتے تھے۔ ہرے دھنیے کی وجہ سے لہسن کی تیزی اور گرمی ختم ہو جاتی۔ آپ ایک پیالی دہی لیں۔ اس میں چار دانے لہسن کوٹ کر ملائیے۔ ہرادھنیا چوتھائی پیالی کاٹ کر ڈالیں اور کانٹے سے اچھی طرح پھینٹ کر کھالیجئے۔نزلہ زکام میں برس ہا برس سے لہسن کی چٹنی کھائی جاتی ہے۔ پہلے دو گٹھیاں لہسن کی چھیل لیجئے۔ پھر تین چار ہری مرچ، دس بارہ لال مرچ ثابت، آدھی چمچ سفید زیرہ، نمک لے کر چٹنی پیس لیں۔ نزلہ بہہ رہا ہو گلے میں خراش ہوتو بیسن کی روٹی پکوا کر اس پر تھوڑا سا گھی لگائیے اور چٹنی کے ساتھ کھالیں۔ ویسے بھی لہسن کی چٹنی پیس کر بوتل میں بھر لیجئے اس میں ہرا دھنیا، پودینہ ضرور ملائیے۔ ہمارے ہاں دالوں میں لہسن کا بگھار لگایا جاتا ہے۔ اس سے ذائقہ آتا ہے۔ لہسن کا بنا بنایا اچار بھی بازار میں دستیاب ہے۔
آپ کھانے کے ساتھ لے سکتے ہیں۔ جن لوگوں کو لہسن موافق آجائے، ان کے لیے یہ مفید ہے۔ روزانہ صبح ایک یا دو دانے لہسن کے کھالیے جائیں تو صحت بہتر رہتی ہے۔ بازار میں لہسن کے کیپسول بھی دستیاب ہیں۔ لیکن سب سے بہتر تازہ لہسن ہے۔ بلڈپریشر میں بھی مفید ہے۔ جنہیں بواسیر کی شکایت ہو، وہ دہی کے ساتھ لہسن کھائیں۔ آپ بھی دہی کے رائیتے میں لہسن ملاکر کھائیے نقصان نہیں ہوگا۔ کچا لہسن کھا کر اچھی طرح منہ صاف کرلیں تاکہ بدبو نہ رہے۔ بدبو کی وجہ سے کچھ لوگ لہسن کی چٹنی تھوڑے سے گھی میں بھون کر کھاتے ہیں۔ اس طرح بو ختم ہو جاتے ہیں۔
بچہ بہت روتا ہے
میرا بچہ چار ما کا ہے۔ بہت روتا ہے حالانکہ صحت بالکل ٹھیک ہے میں پریشان ہو جاتی ہوں چھوٹے بچے اتنا کیوں روتے ہیں؟ (ک، لاہور)
مشورہ:بچے بلاوجہ نہیں روتے۔ ان کی زبان نہیں ہوتی ورنہ وہ ضرور وجہ بتاتے۔ بچے کا لباس سوتی اور آرام دہ ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ مائیں بچے کو صاف نہیں رکھتیں۔ ایک بار پیمپر لگادیا تو آدھا دن گزار دیتی ہیں۔ ہر گھنٹے بعد دیکھناچاہیے، بچے نے اس میں کچھ کر تو نہیں دیا۔ گندگی سے بھی بچے پریشان ہوتے ہیں۔ بچے کا بستر دیکھنا چاہیے۔ ایک بچہ ساری رات روتا رہا۔ صبح پتا چلا کہ اس کے نیچے چابیاں پڑی تھیں جو اسے چبھتی رہیں۔ کمر پر نشان بھی پڑگیا۔ بچے کو ڈکار نہ دلائی جائے تب بھی وہ روتا ہے۔ جب بھی بچے کو دودھ پلائیے اس کے بعد تب بھی وہ روتا ہے جب بھی بچے کو دودھ پلائیے اس کے بعد کندھے سے بچے کو لگا کر آہستہ آہستہ ہاتھ سے اس کی پشت سہلائیے۔ بچہ ڈکار لے تو پھر بستر پر لٹائیے۔ چھوٹے بچوں کے پیٹ میں ہوا بنتی رہتی ہے جو ڈکار کے ذریعہ خارج ہوتی ہے۔ بچے کی صفائی کا خیال رکھا جائے تو بچہ روتا نہیں آرام سے سو جاتا ہے۔ پیشاب اور نجاست بھرا پیمپر بھی بچے کو تنگ کرتا ہے۔ بچے کو صاف کرکے پائوڈر چھڑکیے کارن فلور بھی چھڑک سکتے ہیں۔ سرسوں کے تیل میں پانی ملا کر لگائیے۔ بچے کو تھوڑی دیر کپڑوں سے آزاد بھی رکھنا چاہیے۔
زیتون کا تیل
میری پنڈلیاں سخت اور کھردری ہوگئی ہیں۔ آنکھ کے نیچے جھریاں پڑ رہی ہیں۔ میرے یہ مسئلے حل کردیجئے پنڈلیوں کا رنگ بھی کالا ہورہا ہے۔ (کلثوم بی بی، لاہور)
رات کو سونے سے پہلے آپ باقاعدگی سے زیتون کا تیل پنڈلیوں پر ملوائیے، اس سے بہت فرق پڑ جائے گا۔ آپ پیالی میں تین چمچے زیتون کا تیل لیجئے پھر اس میں تھوڑی سی ملتان مٹی ملائیے۔ ملتان مٹی میں گلاب کا عراق ڈال کر مٹی بھگو دیں۔ کچھ دیر بعد ایک چمچہ شہد ملائیں۔ پھر آدھی چمچ پسی ہوئی دار چینی ملاکر پنڈلیوں پر لیپ کیجئے۔ جب یہ لیپ سوکھنے لگے تو ہاتھ سے اچھی طرح مل مل کر اتارلیں۔ پنڈلیاں دھوئیں، خشک کرکے ان پر گھیکوار کا گودا لگائیے اور خشک ہونے دیں۔ تین دن اس طرح کیجئے۔ پھر رات کو زیتون کا تیل لگوا کر سوئیے۔ پنڈلیاں نرم پڑ جائیں گی نیز رنگ بھی صاف ہوگا۔ایک چمچہ زیتون کا تیل لیجئے۔ اس میں چھ قطرے لیموں کا رس ملائیں۔ اسے آنکھ کے نیچے جھریوں پر لگائیے۔ انگلی سے ہلکا مساج کریں آنکھوں کے نیچے کی جلد صاف رہے گی۔ زیتون کا تیل آپ اپنے معالج کے مشورے سے پی بھی سکتی ہیں۔ سردی کا موسم میں آپ گاجر کا رس لیجئے۔ زیتون کا تیل خشکی کے لیے بے حد مفید ہے۔ جو لوگ زیتون کے تیل کا استعمال کرتے ہیں خشکی سے بچے رہتے ہیں۔ لگانے سے بال مضبوط ہوتے ہیں ان میں چمک آجاتی ہے اور گرنا بھی ختم ہو جاتا ہے۔
کھانے کے برتن
کھانا پکانے کے لیے آج کل لڑکیاں نان اسٹک برتن خریدتی ہیں۔ میں نے سنا ہے، مقامی طور پر بننے والے برتن صحیح نہیں ہوتے آپ ان کے بارے میں ضرور بتائیے۔ شادی بیاہ میں لڑکیاں یہی برتن خریدنا چاہتی ہیں۔ یہ خراب تو نہیں ہوتے؟ کیونکہ ہم نے کبھی ان برتنوں میں کھانا نہیں کھایا (ام عرفان، رائیونڈ)
پہلے زمانے میں تانبے کے برتن ہوتے تھے۔ پھر سلور ایلومینیم کے برتن آگئے۔ ان کے متعلق بھی لوگوں نے ڈرایا کہ ان دیگچیوں میں کھانا نہ پکائیں۔ پھر جرمن سلور کے برتن آئے۔ اب نان اسٹک برتنوں کی بھرمار ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ان برتوں کو خصوصی طور پر جانچا جاتا ہے تاکہ کھانا بالکل محفوظ رہے اور کھانے والا کسی بیماری کا شکار نہ ہو۔ دراصل ان برتنوں کی تیاری میں کچھ کیمیکل استعمال ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تھوڑا بہت عنصر غذا کے ساتھ شامل ہوکر صحت کو نقصان دیتا ہے۔ تجربات کی بنا پر برتن بنانے والی کمپنیوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسے کیمیکل استعمال کرنے میں احتیاط برتیں۔
ایک خاص درجہ حرارت پر برتنوں کے کیمیکل خارج ہونے لگتے ہیں۔ بہتر ہے کہ کسی بھی ایسے برتن کو چولہے پر خالی نہ رکھیے۔ پہلے زمانے میں تانبے ،پیتل کے برتنوں پر ہر ماہ قلعی کرائی جاتی تھی۔ لوہے کی کڑاہیوں میں حلوائی دودھ ابالتے تھے۔ ان ہی میں کھویا بنتا حلوہ جات تیار ہوتے۔ ایک زمانے میں سٹین لیس سٹیل کے برتن استعمال میں آئے۔ ان میں کھانا کناروں سے لگ کر جل جاتا تھا۔ پھر چاندی کے برتنوں کا استعمال ہوا۔ اس سے پہلے مٹی کی ہانڈی کا رواج تھا۔ آج بھی کچھ گھرانوں میں مٹی کی ہنڈیاں میں دودھ ابالا جاتا ہے۔ اس کا ذائقہ بہت اچھا ہوتا ہے۔ مٹی کی ہنڈیا میں ساگ اور سبزی دال بھی بڑی لذیذ بنتی ہے۔
مٹی کی ہنڈیا چٹخنے سے بچانے کے لیے اس میں پہلے گڑ کے چاول بنتے تھے یا پائے پکاتے جاتے تاکہ ہنڈیا ٹوٹنے سے بچ جائے۔ لیکن اب تک زمانے کے ساتھ ساتھ برتنوں کا رواج بھی بدل چکا ہے۔ آپ نان اسٹک برتن خریدیے لیکن اچھے والے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں