اس موسم میں نمی کی زیادتی سے تیار شدہ غذاوں کا تعفن پیدا ہونا اور انہیں پھپھوندی لگنا عام مسئلہ ہے اور متعفن غذا کا استعمال نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ ایسی غذا معدہ میں پہنچنے کے بعد نظام انہضام کو شدید متاثر کرکے قے اور اسہال کی تکلیف کا باعث بنتی ہے
جب جون کے اواخر اور جولائی کے ابتدائی مہینہ میں آسمان پر سورج اپنی پوری تابانی سے چمک رہا ہوتا ہے اور اس کی گرم اور تیز شعاعیں انسانوں اور حیوانات کے سروں پر پڑ کر شدید گرمی اور بے چینی کا احساس پیدا کرتی ہیں تو مخلوق الٰہی کی زبان سے خالق کے حضور الفاظ دعا یوں ادا ہوتے ہیں کہ الٰہی اپنی رحمت کی بارش نازل فرما تو پھر اللہ تعالیٰ کو اپنے گناہگار بندوں پر رحم آجاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے شمال سے بادلوں کے کچھ ٹکڑے انسانی آبادی کی طرف بڑھتے نظر آتے ہیں جن کے تعاقب میں سیاہ و سفید بادلوں کا غول کا غول ہوتا ہے۔ باران رحمت کے نزول کی شدید تمنائیں جب دلوں میں تڑپتی ہیں تو زبانوں پر اس کا تذکرہ آجاتا ہے۔ بادلوں کے کچھ ٹکڑے سورج کی طرف لپک کر اس کی تیز اور اذیت ناک شعاعوں کے زمین تک پہنچنے میں حائل ہوجاتے ہیں۔ تب انسان کی بیقراری کو کچھ سکون آتا ہے۔ بادلوں کے یہ آسمان پر پھیل کر اس کا رنگ نیلگوں کی بجائے سیاہ کردیتے ہیں۔ انسانی نگاہیں بڑی بے تابی سے آسمان کو تک رہی ہوتی ہیں۔ یکایک پانی کے چند قطرے زمین کی طرف آتے دکھائی دیتے ہیں اور اس کے بعد خوب موسلادھار بارش ہوتی ہے۔ موسم برسات کی بارشوں کی ابتدا اسی طرح ہوتی ہے۔
موسم برسات کی آمد اور باران رحمت کے نزول سے مرجھائے ہوئے پودوں میں جان آجاتی ہے اور درختوں کے پتوں سے مٹی دھل کر ان کا قدرتی حسن نکھر جاتا ہے۔ بے آباد نظر آنے والے کھیتوں میں سبزہ اگنا شروع ہوجاتا ہے اور دنوں ہی دنوں میں کھیت سرسبز نظر آنے لگتے ہیں۔ پرندے خوشی سے چہچہاتے ہیں۔ گرمی کے مارے ہوئے انسانوں کی جان میں جان آجاتی ہے۔ الغرض یہ موسم گرمی سے تڑپتے ہوئے انسانوں اور حیوانوں کیلئے خوشی کا پیغام لاتا ہے چونکہ ہوا میں آبی بخارات کا تناسب بڑھ جاتا ہے لہٰذا اس موسم میں قیام و طعام کے سلسلے میں چنداں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں چند ضروری ہدایات درج ذیل ہیں۔
1۔ موسم برسات میں کبھی ہوا تیز چلنے لگتی ہے تو طبیعت کو سکون اور فرحت حاصل ہوجاتی ہے مگر بعض دفعہ ہوا چلنا بالکل بند ہوجاتی ہے تب طبیعت میں گھٹن اور بے چینی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس حالت میں حشرات الارض زمین سے اپنی اپنی بلوں (گھروں) سے باہر نکل آتے ہیں اسی لیے اس موسم میں اکثر سانپوں اور بچھووں سے واسطہ پڑا رہتا ہے۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ زمین پر لیٹنے سے گریز کیا جائے کیونکہ اس طرح زہریلے جانوروں کے ڈسنے کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر زہریلے جانوروں کے ڈسنے کے واقعات موسم برسات میں ہی ہوتے ہیں۔
٭ موسم برسات میں بارشیں اور گھٹن بھی زیادہ ہی ہوتی ہے اس لیے سلکی ملبوسات گھٹن کے وقت شدید اذیت ناک صورت حال پیدا کردیتے ہیں۔ لہٰذا ایسا لباس زیب تن کیا جائے جس میں پسینہ کو جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔ مثلاً سوتی کپڑے سے تیار شدہ ڈھیلا لباس بہت اچھا رہتا ہے۔ اگر ایسے ملبوسات پہنے جائیں جو پسینے کو جذب نہ کریں تو اس سے گرمی دانے زیادہ نکلتے ہیں اور اگر کسی شخص کا مزاج اس نوعیت کا ہو کہ اس کے جسم پر پھوڑے پھنسیاں زیادہ نکلتے ہوں تو ان کو غیرجاذب پسینہ لباس سے زیادہ اذیت پہنچتی ہے۔
٭موسم برسات میں بارشوں کی کثرت کے باعث جگہ جگہ پانی جوہڑوں کی شکل میں کھڑا ہوجاتا ہے اور اس کھڑے پانی پر مچھر پرورش پاتے ہیں اور ملیریا کی افزائش کا باعث بنتے ہیں۔ نیز رات کے وقت یہی مچھر آرام کی نیند میں حائل ہوتے ہیں۔ مچھر کے خاتمہ کیلئے ضروری ہے کہ کھڑے پانی کے نکاس کا انتظام کیا جائے اور کھڑے پانی پرمٹی کا تیل چھڑک دیا جائے اس کی ایک باریک تہہ سے مچھر کے سپورز کو ہوا نہیں ملتی اور وہ مرجاتے ہیں اور ان کی افزائش کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کونین یا حب کرنجوہ کو ہفتہ میں دو دفعہ استعمال کرنے سے بھی انسان ملیریا سے محفوظ رہتا ہے۔
بارشوں کی کثرت سے زمین اکثر گیلی اور نمدار رہتی ہے۔ اسی لیے دیواروں میں دوران بارش برقی رو آجاتی ہے اسی طرح برقی تاروں کے ٹوٹنے سے بھی بعض دفعہ شدید جانی نقصان ہوجاتا ہے اس لیے بہت احتیاط کی ضرورت ہے اور برقی تار کے ٹوٹنے کی صورت میں اسے خشک لکڑی سے دور کردینا چاہیے۔ اس کے علاوہ موسم گرما میں گرمی کی شدت کی وجہ سے برقی تاروں کے اوپر کا پلاسٹک کا کور بوسیدہ ہوجاتا ہے اور بارش کے قطرات اس پر پڑتے ہیں تو یہ پلاسٹک پھٹ جاتا ہے جس کے نتیجہ میں برقی تاریں ننگی ہوجاتی ہیں اور اکثر اس سے برقی کرنٹ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔برسات کی ابتداءسے پہلے ہی برقی رو کی ضروری مرمت کروالینی چاہیے۔
موسم برسات میں اکثر ہیضہ بھی وبائی صورت اختیار کرلیتا ہے اس کی اصل وجہ ہوا میں رطوبت کی زیادتی ہوتی ہے جس سے جراثیم کو پنپنے کا موقع خوب ملتا ہے اور نظام انہضام بھی زیادتی رطوبت سے کمزور ہوچکا ہوتا ہے لہٰذا ہیضہ کے جراثیم پینے کے پانی کے ذریعے شامل ہوکر مرض پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ ان دنوں پینے کے پانی اور دودھ وغیرہ کو اچھی طرح ابال کر استعمال کیا جائے تاکہ ان میں موجود جراثیم تلف ہوجائیں۔ خاص طور پر موسم برسات میں ابلا ہوا پانی ٹھنڈا کرکے استعمال کرنا ہی فائدہ مند ہے۔
موسم برسات میں اکثر افراد کو کثرت سے پھوڑے پھنسیاں نکلتی ہیں ان کے ازالہ کیلئے روزانہ دن میں دو تین دفعہ پابندی سے اچھے صابن‘ نیم سوپ‘ کاربالک سوپ یا ڈیٹول کے ساتھ غسل کرنا چاہیے نیز موسم برسات میں کثرت سے نیم پر لگنے والا پھل نمولی کو کھاتے رہنا چاہیے اس سے پھوڑے پھنسیوں سے نجات مل جاتی ہے۔
اس موسم میں نمی کی زیادتی سے تیار شدہ غذاوں کا تعفن پیدا ہونا اور انہیں پھپھوندی لگنا عام مسئلہ ہے اور متعفن غذا کا استعمال نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ ایسی غذا معدہ میں پہنچنے کے بعد نظام انہضام کو شدید متاثر کرکے قے اور اسہال کی تکلیف کا باعث بنتی ہے اس لیے موسم برسات میں غذائی اعتبار سے خصوصی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے خصوصاً دہی بھلے‘ آلو‘ رائتہ اور آلو کا سالن دوسرے وقت کیلئے نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ یہ اشیاءبہت جلد متعفن ہوجاتی ہیں۔ پیاز غذا میں بہت زیادہ مفید ہے اور موسم برسات میں لاحق ہونےوالے اکثر عوارضات میں بہت نافع ہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 516
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں