خاندانی نظام تباہ ہورہا ہے مگر ہم کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے‘ امریکہ اور یورپ کی نقل پر ہمارے یہاں بھی اولڈ ہاﺅس (بوڑھوں کے لئے گھر) قائم ہونا شروع ہوگئے جبکہ میرے خیال میں اولڈ ہاﺅس پاکستان میں کیا بلکہ دنیا میں کسی بھی ملک میں نہیں ہونے چاہئیں
کیا بوڑھا ہونا ایک جرم ہے؟ کیاآج اولاد کے پاس ان والدین کے لئے وقت نہیں ہے، جنہوں نے اس کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا؟ کیا ہمارے بچے ہمیں قبر تک سہارا نہیں دے سکتے؟ کیا اولاد کی اچھی پرورش نہ کرنا ہمارا جرم ہے؟ اولاد یہ کیوںسمجھتی ہے کہ ماں باپ کو ان کی ضرورت نہیں؟ یہ ایسے سوال ہیں جو ہر وہ شخص کرتا ہے جس کی اولاد اس کی عزت نہیں کرتی یا اولاد نے والدین کو گھر سے دربدر کردیا ہے، ہمارا معاشرہ آجکل ٹوٹ رہا ہے۔ خاندانی نظام تباہ ہورہا ہے مگر ہم کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے، امریکہ اور یورپ کی نقل پر ہمارے یہاں بھی اولڈ ہاﺅس (بوڑھوں کے لئے گھر) قائم ہونا شروع ہوگئے ہیں جبکہ میرے خیال میں اولڈ ہاﺅس پاکستان میں کیا بلکہ دنیا میں کسی بھی ملک میں نہیں ہونے چاہئیں۔ بزرگ خاندان کو قائم رکھتے ہیں اور بزرگوں کی دعاﺅں سے گھر آباد رہتے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ والدین تو دس بچوں کو پال سکتے ہیں مگر دس بچے ایک ماں اور باپ کو نہیں پال سکتے۔
گھریلو ناچاقیاں اولاد کے والدین سے جھگڑے اس معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے‘ ان تمام جھگڑوں کی اصل وجہ والدین کی بچوں کو نبوی صلی اللہ علیہ وسلم طریقوں کے مطابق تربیت نہ کرنا ہے کیونکہ شروع دن سے والدین یہ سوچتے ہیں کہ بچوں کا مستقبل اچھا ہوجائے ان کی آمدنی اچھی ہوجائے۔ معاشرے میں ان کا ایک مقام بن جائے ان تمام کاموں کی وجہ سے ان کو نہ دین سکھایا۔ دین نہ سکھا کر اللہ کو بھی ناراض کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی اولاد جس کو راضی کرنے کی فکر تھی ماں باپ کے سرپر مسلط ہوجاتی ہے۔ آج کے معاشرے کے اندر دیکھیں کہ کس طرح اولاد اپنے ماں باپ کی نافرمانی کررہی ہے جب اولاد سرپر مسلط ہوگئی تو اب ماں باپ بیٹھے رو رہے ہیں کہ اولاد دوسرے راستے پر جارہی ہے۔ ارے! جب تم نے شروع ہی سے اس کو ایسے راستے پر ڈالا جس کے ذریعہ ان کا ذہن بدل گیا ان کے خیالات بدل گئے ان کی سوچ بدل گئی تو اب انجام بھی ویسا ہی ہوگا۔ اولاد کو دین کی طرف لانے کی فکر اتنی ضروری ہے جتنی اپنی اصلاح کی فکر اولاد کو صرف زبانی سمجھانا کافی نہیں جب تک اس کی فکر اور تڑپ ایسی نہ ہو جیسے دہکتی ہوئی آگ کی طرف بچہ بڑھ رہا ہو اور آپ اس کو لپک کر جب اٹھا نہیں لیں گے اس وقت تک آپ کو چین نہیں آئے گا ایسی ہی تڑپ یہاں بھی ہونا ضروری ہے۔
مغربی ممالک میں سنا تھا کہ بوڑھے والدین کو اولاد نرسنگ اور اولڈ ہوم بھیج دیتی ہے لیکن اب پاکستان میں بھی نرسنگ اور اولڈہوم قائم ہوگئے ہیں۔
کئی والدین اولاد کی وجہ سے فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ایدھی ہوم میں ایسے والدین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کی اولاد ہے۔ سات آٹھ لڑکے ہونے کے باوجود وہ ایدھی ہوم میں لاوارثوں والی زندگی گزار رہے ہیں،
سہراب گوٹھ کے قریب رہنے والی ایک خاتون (جو صحافی بھی ہیں) نے بتایا کہ میرا تعلق ایک بہت بڑے خاندان سے ہے۔ میرے دادا انڈیا میں کروڑوں کی زمین و جائیداد چھوڑ کر آئے تھے۔لاہورمیں ہمارا بہت بڑا خاندان ہے میری شادی کراچی میں ہوئی، میرے سات بچے ہیں، شوہر کا 20 سال پہلے بیماری کی وجہ سے انتقال ہوگیا میں نے مختلف اخبارات اور رسالوں میں نوکری کی اور اپنی اولاد کی پرورش بھی کی مگر والد کا سایہ سر پر نہ ہونے کی وجہ سے بچے زیادہ نہیں پڑھ سکے ایک حادثہ میں میری ٹانگ ٹوٹ گئی اور میں بستر پر لیٹ گئی جس کی وجہ سے گھر میں فاقے ہونے لگے تو بچوں نے چھوٹی موٹی نوکریاں شروع کردیں، اس دوران بچوں کی شادی کی عمر ہوگئی تو میں نے جیسے تیسے ان کی شادی کردی، اب ایک بیٹی اور بیٹا رہ گیا ہے جن کی شادی کرنا باقی ہے۔
ڈیفنس میں ایک بزرگ نے بتایا کہ میرے 10 بچے ہیں جن میں 6 لڑکیاں اور 4 لڑکے ہیں۔ میری بیگم کا چند سال پہلے انتقال ہوگیا،میری لاپرواہی اور عدم توجہتھی جس کی وجہ سے بچوں کی بہتر پرورش نہیں ہوسکی، بچوں نے ناجائز کاموں کے ذریعے کمائی کرنا شروع کردی۔ میں نے ان کے تیور دیکھ کر بہت کوشش کی کہ وہ غلط کام نہ کریں مگر انہوں نے میری بات نہیں مانی مگر ان کے پیسے سے میں نے بیٹیوں کی اچھی جگہ شادیاں کردیں، چاروںلڑکے اپنی مرضی کی زندگی جی رہے ہیں۔ میں نے جب گھر میں آئے روز پولیس آنے کی شکایت کی، تو لڑکوں نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ میں ان کے معاملات میں دخل دیتا ہوں ان کو ان کی مرضی کی زندگی جینے نہیں دیتا، میں پچھلے 5 سال سے کیماڑی میں رہتا ہوں اور عمر زیادہ ہوجانے کی وجہ سے مزدوری بھی نہیں کرسکتا۔
صدر میںمانگنے والی ایک بزرگ خاتون نے بتایا کہ میں دو بیٹوں اور چھ بیٹیوں کی ماں ہوں۔ لکھنو سے میٹرک پاس کیا تھا۔ 1944ءمیں شادی ہوگئی تو تعلیمی سلسلے کو خیرباد کہنا پڑا۔ 1947ءمیں شوہر اور دو بچوں کے ساتھ پاکستان آئی دہلی میں شوہر کا کاروبار تھا لیکن پاکستان آتے وقت چند سو روپوں کی پوٹلی کے سوا کچھ ساتھ نہیں لائے تھے۔ یہاں آکر قسمت نے رنگ دکھایا۔ اتنے روپے نہیں تھے کہ شوہر کچھ کاروبار کرسکتے۔ پیٹ بھرنے کیلئے ہاتھ پر ہاتھ دھرے تو نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ ہمارے ارد گرد بھی ہم ہی جیسے لٹے پٹے لوگ تھے۔ مجبوراً شوہر نے ایک فٹ پاتھ پر کھلونے، آلو چنے وغیرہ کا ٹھیلا لگالیا۔ اس سے اتنا ہوا کہ کھانے پینے کےلئے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے نہ پڑے مگر وقت کے ساتھ ساتھ مسائل بڑھتے رہے اور دمے کی وجہ سے شوہر بھی بیمار ہوگیا چند سال بیمار رہنے کے بعد اس کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے گھر کی ذمہ داریاں میرے اوپر آگئیں۔ میں نے محنت مزدوری کرکے دو بیٹیوں کی شادی کردی ہے۔
قارئین!اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ والدین اولاد پر سدا سایہ کیے نہیں رہتے‘ عبقری کے توسط سے اتنا کہنا چاہوں گا کہ اللہ کیلئے اپنے والدین کی قدر کریں۔ والدین کی عظمت میں سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور ایک واقعہ سنا کر مضمون کا اختتام کرتا ہوں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو فرزند اللہ تعالیٰ کی دوستی اور محبت کی خاطر اپنے والدین کے چہرے کی طرف نظر کرے گا اس کے نامہ اعمال میں ایک مقبول حج کا ثواب لکھا جائے گا اور جس فرزند کی زبان والدین کے پاوں کو بوسہ دیتی ہے اللہ تعالیٰ ہزار سال کی عبادت کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیتا ہے ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ایک گنہگار نوجوان جو بہت بدکار تھا فوت ہوا بعد میں وہ لوگوں کے خواب میں آیا‘ انہوں نے دیکھا کہ وہ حاجیوں کے ہمراہ جنت میں مزے سے ٹہل رہا ہے لوگوں نے اس پر بڑا تعجب کیا اور اس سے سبب پوچھا کہ ہمارے خیال میں تم نے کوئی نیک عمل نہیں کیا اور یہ سعادت و نعمت تمہیں کہاں سے ملی اس نے کہا بات تو ایسے ہی ہے لیکن میری ماں بوڑھی تھی جس وقت میں گھر سے باہر نکلتا اپنا سر اس کے قدموں میں رکھ دیتا۔ میری ماں مجھے دعا دیتی اللہ تعالیٰ تجھے بخش دے اور حج کا ثواب تجھے نصیب کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کی دعا قبول کرلی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں