بشیر بن خصاصیہ رضی اللہ عنہ کی زوجہ جہ ندمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر سے نکلتے دیکھا وہ غسل کرکے تشریف لارہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سرمبارک کو جھاڑا تو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مہندی کا رنگ نظر آیا‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس مہندی موجود ہے یہ تمہارے سروں کو پر نور بناتی ہے
مہندی "Lawsonia" کا تعلق Lythraceae خاندان سے ہے۔ مہندی کا پودا اپنے سرخ رنگ اور ادویاتی خوبیوں کی وجہ سے قدیم زمانے سے خوبصورتی کیلئے استعمال ہوتا آیا ہے۔ مہندی کی تاریخ 5000 سال قبل مصر سے شروع ہوتی ہے۔ قدیم مصری اس عقیدے کے ساتھ فرعون کی ممی بناتے وقت لاش کے ہاتھوں اور ناخن پر مہندی لگاتے تھے تاکہ موت کے بعد ان کی شناخت بطور فرعون ہوسکے۔ جبکہ قدیم زمانے میں عرب کے علاقوں میں مہندی کی پتیوں سے کپڑے کو خوشبودار بنانے کے لئے رنگا جاتا ہے۔ مہندی کی بے پناہ خصوصیات کی بناءپر عرب کے بعض حوالوں میں ساسے ”سید الریحان“ یعنی خوشبودار پودوں کا سردار کہا گیا ہے۔ خاص طور پر دمشق کے باریک کپڑے مہندی سے رنگے جاتے تھے۔ مغل بادشاہوں نے پہلی بار برصغیر میں مہندی کو بارہویں صدی میں متعارف کروایا۔ اس وقت صرف ملکہ، شہزادیاں اور امیر خواتین ہی مہندی لگاتی تھیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان کے خاندانوں میں مہندی کا رواج عام ہوگیا اور آج بھی بھارت میں فرید آباد، ایران، افغانستان، پاکستان عرب اور افریقہ کے گرم علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ مہندی بھیرہ اور میلسی جبکہ سندھ میں سب سے زیادہ مہندی نواب شاہ میں کاشت ہوتی ہے۔ مہندی سے ہاتھوں اور پیروں پر نہ صرف دیدہ زیب ڈیزائن بنائے جاتے ہیں بلکہ یہ اسلامی نقطہ نگاہ سے خواتین کیلئے کارِ ثواب بھی ہے۔
احادیث کی روشنی میں
حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ ایک عورت کے ہاتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مہندی سے خالی نظر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکیداً فرمایا کہ عورتوں کے ہاتھ مردوں کی طرح نہیں ہونے چاہیے بلکہ ان پر مہندی لگی ہونی چاہیے چنانچہ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہودی اور عیسائی خضاب نہیں کرتے تم ان کی مخالفت کرو (مسلم‘ بخاری) ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عبدالرحمن بن الاسود بن یغوث ان کا ہم جلیس تھا۔ ایک روز صبح آیا تو بالوں پر سرخ خضاب (مہندی) لگا ہوا تھا۔ لوگوں نے اس کی تعریف کی تو بتایا کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ زوجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لونڈی تحیلہ کے ہاتھ قسم دیکر حکم فرمایا کہ میں اپنے بالوں کو رنگوں اور فرمایا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی خضاب لگایا کرتے تھے (مﺅطا امام مالک) بشیر بن خصاصیہ رضی اللہ عنہ کی زوجہ جہندمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر سے نکلتے دیکھا وہ غسل کرکے تشریف لارہے تھے۔ انہوں نے اپنے سرمبارک کو جھاڑا تو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مہندی کا رنگ نظر آیا۔ (ترمذی) واثلہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس مہندی موجود ہے یہ تمہارے سروں کو پر نور بناتی ہے۔ تمہارے دلوں کو پاک کرتی ہے۔ قوت باہ میں اضافہ کرتی ہے اور قبر میں تمہاری گواہ ہوگی (ابن عساکر)۔
طبی خصوصیات
.1مہندی کے پتے رات پانی میں بھگو کر صبح نچوڑ کر ان کا رس شکر ملاکر اگرچالیس دے گا۔ .2مہندی کا لیپ لگانے سے جوڑوں کا درد، ورم اور جلن، کٹی جلد، جذام، پھوڑے اور پھنسیاں مکمل طور پر ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ .3جالینوس نے مہندی کا لیپ لگاکر چیچک کے مریضوں کی آنکھیں بچانے کا نسخہ بیان کیا۔ .4ایک نسخہ کے مطابق مہندی کے پتوں کو صابن کے پانی میں حل کرکے سر پر لگائیں تو بال سیاہی مائل ہوجاتے ہیں۔ .5مہندی کے ساتھ سنامکی پیس کر سرپر لگانا بہترین خضاب ہے۔ .6مہندی کا جوشاندہ جریان میں مفید ہے۔ .7مثانہ میں گرمی اور جلن کو بھی فائدہ دیتا ہے۔ .8مریض کے تکیہ میں اگرمہندی کے پتے بھر دیئے جائیں تو اسے جلد اور اچھی نیند آتی ہے۔ .9مہندی کا تیل سردرد کو ٹھیک کرتا ہے۔ .10مہندی کا تیل یا جوشاندہ کوڑھ کی ابتدائی صورت میں مفید پایا گیا ہے۔ .11ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑھاپے کو بدلنے کی بہترین ترکیب مہندی اور وسمہ ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں