آسٹریلیا میں پایا جانے والا کینگرو جس کی زندگی عجائبات سے معمور ہے کہتے ہیں اڑھائی تین سو سال پہلے ایک یورپی سیاح دنیا کے سب سے چھوٹے براعظم میں پہنچا تو اس نے ایک عجیب وغریب جانور ادھر ادھر اچھلتے کودتے دیکھا۔ وہ بہت حیران ہوا۔ ایسی ڈیل ڈول والی مخلوق اسے پہلے کہیں نظر نہیں آئی تھی۔ اس کے پیٹ کے نیچے تھیلی سی تھی جس میں سے جھانکتا بچہ اسے بہت ہی پیارا لگا۔ اس نے قریب کھڑے ایک مقامی باشندے سے اس جانور کا نام پوچھا مگر وہ شخص شاید اس کی بات نہ سمجھا اور اس نے مقامی زبان میں معذرت کرتے ہوئے کہا ”کینگرو“ (میں نہیں جانتا)۔ سیاح یہ سمجھا کہ اس نے اس عجیب الخلقت جانور کا نام ”کینگرو“ بتایا ہے۔ اس نے ڈائری میں یہ نام نوٹ کیا اور آگے بڑھ گیا۔ اس حسن اتفاق سے یہ معصوم صورت جانور دنیا بھر میں ”کینگرو“ کے نام سے مشہور ہوا۔دنیا کی عجیب و غریب مخلوقات میں سے بعض چیزیںبڑی حیران کن خصوصیات کی حامل ہیں اور آسٹریلیا کا جانور کینگرو ان میں سرفہرست ہے۔ اس کا تعلق دنیا کے ان قدیم حیوانات سے ہے جن کی نسل تیزی سے مٹتی جارہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ان تھیلی دار جانوروں کے آباءو اجداد جنوبی امریکہ سے انٹارکٹکا کے راستے اس دور میں آسٹریلیا آئے تھے جب یہ دوسرے براعظموں سے نہیں کٹا تھا اس وقت آسٹریلیا اور اس کے ملحقہ جزیروں میں تھیلی دار جانوروں کی بے شمار نسلیں موجود تھیں جن میں سے اب صرف چھپن باقی ہیں اور یہ بھی اس لیے بچ گئیں کہ انہیں ایک الگ تھلک براعظم میں باہر سے زیادہ ترقی یافتہ جانوروں کی آمد کا خطرہ درپیش نہ تھا۔بعض کینگرو ایسے ہیں جن کی شکل و شباہت اور جسمانی حالت ہرن‘ بارہ سنگھے یا خرگوش سے ملتی جلتی ہے۔ بعض ریچھ سے مشابہ ہیں۔ کچھ کینگرو ایسے بھی ملتے ہیں جو بندروں کی طرح اونچے درختوں پر آسانی سے چڑھ جاتے ہیں۔ کوئنز لینڈ میں بکثرت بسنے والے کینگرووں میں سے دو اقسام بڑی دلچسپ ہیں جن کا وزن ایک پونڈ اور لمبائی فٹ سے زیادہ نہیںہوتی اور شکل چوہوں سے ملتی جلتی ہے جبکہ سرخ کینگرو کا وزن دوسو پونڈ اور قد سات فٹ تک اونچا ہوتا ہے اور یہ میدانی علاقوں میں رہتا ہے۔
آسٹریلیا کا یہ سرخ کینگرو عجیب شان کا جانور ہے کہ جب یہ کھلے میدان میں پوری قوت سے فضاءمیں چھلانگ لگاتا ہوا دوڑتا ہے تو بڑا دلکش منظر دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کی رفتار پچیس تیس میل فی گھنٹہ ہے جبکہ چیتا اتنے ہی وقت میں75 میل سفرطے کرلیتا ہے۔ گویا کینگرو کی رفتار چیتے کی رفتار کا ایک تہائی ہے۔ کہتے ہیں کہ کوئنز لینڈ میں پائے جانے والے کینگرووں کے پنجے قدرت نے اس انداز میں بنائے ہیں کہ جب وہ پتھریلی چٹانوں پر دوڑتے ہیں تو ان کے پیر‘ پتھروں پر اچھی طرح جم جاتے ہیں اور پھسلنے نہیں پاتے۔ اگر ان کے اندر یہ خوبی نہ ہوتی تو ان کی نسل بہت جلد ختم ہوجاتی کیونکہ بلند اور نوکیلی چٹانوں پر کودنا اور دوڑنا خطرے سے خالی نہ ہوتا۔
فطرت نے کینگرو کی ایک چھوٹی نسل ”رو“ میں یہ خوبی رکھی ہے کہ وہ سخت چارے پر بھی گزارا کرلیتا ہے جبکہ دوسرے تھیلی دار جانور اسے پسند نہیں کرتے۔ آسٹریلیا کے شمال مغربی جزیرے ”بیرو“ میں ایک سیاح نے ایسا ہی ایک کینگرو تصویریں اتارنے کیلئے پکڑا اور اس کے سامنے پھل اور سلاد سے بھرا کارد بورڈ کا ایک ڈبہ رکھ دیا۔ اسے دیکھ کر کینگرو کے منہ میں پانی بھر آیا اور وہ اس کی جانب لپکا۔ سیاح نے جو بڑی دلچسپی سے اس کی حرکات کا جائزہ لے رہا تھا فوراً کیمرہ کندھے سے اتارا مگر اس سے پہلے کہ وہ کینگرو اور ڈبے کی تصویریں بناتا ڈبہ غائب ہوچکا تھا قریب جاکر دیکھنے پر معلوم ہوا کہ پھل اور سلاد تو جوں کے توں پڑے تھے جبکہ ڈبہ کینگرو صاحب چٹ کرگئے تھے۔
”بومر“ کینگرو اکیلا کبھی نہیں پھرتا بلکہ ہمیشہ اپنے گروہ کے ساتھ علی الصبح گھاس چرنے نکل کھڑا ہوتا ہے اور رات گئے لوٹتا ہے۔ گرمیوں کے دنوں میں ان کا ٹھکانہ گھنے درخت اور اونچے پودے ہوتے ہیں۔ ہاتھیوں اور گینڈوں کی طرح کینگرووں کے قبیلے کا بھی ایک سردار ہوتا ہے جو ان سب میں اونچا مضبوط اور زیادہ عمر رکھتا ہے۔وہ جدھر جاتا ہے‘ تمام کینگرو اس کی پیروی کرتے ہوئے وہی راہ اپناتے ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 557
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں