بچے کی جسمانی صحت، ذہنی صحت اور نشوونما اس کی Personal Growth کیلئے ماں اور ممتایعنی ماں کی محبت بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں بعد میں یہ بچے کی شخصیت اور مستقبل کی ذہنی صحت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ بچے کی آئندہ شخصیت اور آنے والے کل کا دارومدار انہی دو چیزوں پر ہوتا ہے۔
.1ماں کی محبت
.2 بچے کا ماں سے تعلق
اگر اللہ نہ کرے ماں کا انتقال ہوجائے تو اس کی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔ یہ دکھ اور محرومی بچہ ساری زندگی محسوس کرتا ہے۔ ماں اور بچے کے درمیان محبت، الفت، انسیت کا جاری و ساری چشمہ اور تعلق دونوں کی یکساں آبیاری کرتا ہے اور یہ رشتہ دونوں کو اطمینان و انبساط اورخوشی سے ہمکنار کرتا ہے۔
ماں کی محبت اور شفقت سے محرومی کو ہم Maternal Deprivation کہتے ہیں اس کی چندوجوہات ہیں۔
باپ/ ماں کا انتقال، طویل بیماری، جسمانی معذوری، ذہنی معذوری، نفسیاتی بیماری، صاحب خانہ کی بیروزگاری، تنگی ترشی، گھر کا ٹوٹ جانا، طلاق، علیحدگی، ماں کا سارا دن ملازمت اور روزگار پر رہنا، جنگ، قحط، زلزلہ اوراس جیسے دوسرے امور۔
ماں کو بچے سے محبت ہے، بچہ محبت کرنا سیکھ لیتا ہے۔ اب وہ ساری عمر لوگوں سے محبت اور شفقت سے پیش آئے گا۔
اگر بچے کوماں کی محبت نہیں ملے گی تو وہ گرد و پیش سے نفرت کرنا سیکھ لے گا اور ساری عمر لوگوں سے نفرت کرتا رہیگا۔
ان نفسیاتی الجھنوں کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم بچپن اور لڑکپن میں پیش آنے والے حالات کا ماں سے محبت کے رشتے کااور باپ سے تعلق کا جائزہ لیں یا چھان بین کریں۔ آگے چل کر زندگی میں پیش آنے والے مسائل انہی روابط اور تعلقات کے چاروں طرف گھومتے ہیں۔ وہ بچے جو اپنی ماں سے محروم ہوجاتے ہیں طرح طرح کی نفسیاتی پریشانیوں کا شکار رہتے ہیں ملنے جلنے والوں کے ساتھ کام کرنے والوں سے ضرورت سے زیادہ محبت‘ توجہ کے طلب گار ہوتے ہیں۔ بسا اوقات یہ لوگ خطرناک حد تک کینہ پرور ہوجاتے ہیں اور بدلہ لینے کیلئے خطرناک حد تک بڑھ جاتے ہیں ان کی ساری زندگی انہی دائروں میں گھومتی رہتی ہے۔ آنے والی زندگی میں نہ وہ کسی سے محبت کرتے ہیں اور نہ محبت کرنا سیکھتے ہیں۔ ایک شرمساری اداسی، افسردگی ساری عمر ان کا پیچھا کرتی ہے۔ وہ ساری عمراضطراب اور بے چینی کا شکار رہتے ہیں وہ اس پر کیسے قابو پائیں انہیں نہیں معلوم کہ انہیںاپنے شدید جذبات، ہیجانات کو کیسے کنٹرول کرنا ہے۔ کس طرح خود کو طوفان سے محفوظ رکھنا ہے وہ اپنی ساری زندگی ان گتھیوں کو سلجھانے اور بھول بھلیوں میں اپنا رستہ تلاش کرنے کی اچھی بری کوشش میں گزار دیتے ہیں وہ خود اپنے ساتھ اور دنیا کے ساتھ قابل عزت تعلقات استوار نہیں کرپاتے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ماں کی محبت نہ ملنے سے بچے بڑے ہوکر بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی زندگی میں دباﺅ سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھ پاتے اور اگر دباﺅ کا سامنا کرنا پڑے تو وہ حالات سے نمٹنے کے لئے سماج دشمن اطوار اپناتے ہیں اور ان کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کرکجروی کا شکار ہوجاتی ہے۔ نفسیات اور عمرانیات میں اسے Anti Social Personality Psycopath کہتے ہیں۔ یہ لوگ اول عمر سے قانون شکنی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
اینٹی سوشل پرسنیلٹی کی علامات میں دوسروں کے حقوق کا پاس نہ کرنا‘ معاشرے کے رسموں رواج کا احترام نہ کرنا، دھوکہ دینا، جھوٹ بولنا، دوسرے لوگوں کو ذاتی فائدہ یعنی حصول لذت کیلئے استعمال کرنا، چڑچڑا پن ، لڑنا جھگڑنا، جارحانہ رویہ، دوسروں کا خیال نہ کرنا، مستقل مزاجی سے ملازمت نہ کرنا، غیر ذمہ داری، قرضہ کو واپس نہ کرنا، شرمندہ نہ ہونا، معافی نہ مانگنا۔
والدین کی طلاق ہونے کی صورت میں، سوتیلے باپ یا ماں کے مسترد کرنے کی وجہ سےUnhealthy Relationships بن جاتے ہیں اس تکلیف دہ صورتحال سے بچہ بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ یہ کم عمری کے تجربات آنے والی زندگی کا احاطہ کئے رہتے ہیں جس طرح انسان کا سایہ ساری عمر اس کا پیچھا کرتا ہے۔ اسی طرح یہ ناخوشگوار معاملات ساری عمر انسان کے ساتھ رہتے ہیں اوروقت گزرنے کے ساتھ شام کے سائے کی طرح یہ طویل سے طویل ہوتے چلے جاتے ہیں۔
بسااوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ماں اپنی جگہ موجود ہے مگر وہ غربت یا باپ کی بے روزگاری، بیماری یا اپنی بیماری کی وجہ سے بچے پر وہ توجہ نہیں دے پاتی جو بچہ کی Nourishment Nurturance جیسی ضرورت کا اہتمام کرسکے۔ ماں کی جگہ دادی، نانی لے لیتی ہے مگر وہ اپنی صحت و ضعیفی کی وجہ سے وہ توجہ نہیں دے سکتی اور محنت نہیں کرسکتی جو بچے کی پرورش کا بنیادی تقاضہ ہے اور یہ کام ملازمہ بھی نہیں کرسکتی۔
والدین کا بچوں کے ساتھ ناروا سلوک، مارپیٹ کرنا، گالی گلوچ کرنا، مسترد کرنا، غفلت، نظر انداز کرنا ایسا ہی ہے جیسے بچے کے سر پر باپ کا سائبان اور ماں کا سایہ نہ ہو۔ والدین اپنے بچوں کی اچھی اور معیاری پرورش کریں گے تو یہ آگے چل کر اچھے معاشرے اور اچھی ذہنی صحت کے ضامن ہوں گے۔
انسان کی کردار سازی اور شخصیت کی بڑھوتری میں اس کے گھر کا ماحول بہت اہم رول ادا کرتا ہے۔ ہم لوگ اپنے گھر، ہسپتال کی صفائی ستھرائی پر بہت زور دیتے ہیں، اسکول کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہیں مگر گھر، گھرانے، گرہستی کے ٹوٹنے اور بکھرنے کو بھول جاتے ہیں۔ انہی Broken homes سے نکل کر یہ بچے، نوجوان آگے چل کر اپنے دشمن آپ بن کر سماج کے تارپود بکھیرتے ہیں، ہر بچے کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لئے گھر، ماں کی محبت، باپ کا سایہ، بہن بھائی کا ساتھ بہت ضروری ہے۔ اگر بچے کو ماں کی محبت سے محروم کردیا جائے تو وہ بے راہ روی کا شکار ہوجاتا ہے۔ جس طرح بچے کی جسمانی ضرورت کیلئے وٹامن اور پروٹین ضروری ہیں اسی طرح ذہنی صحت کیلئے محبت اور ماں کی آغوش بہت ضروری ہے۔ ہر بچے کی اچھی نگہداشت معاشرے کی ذہنی فلاح و بہبود اور سماج کی ذہنی صحت کیلئے ضروری ہے۔ ٹوٹے پھوٹے گھرانے سے آنے والے بچے بڑے ہوکر باہر کی دنیا میں اپنی جگہ نہیں بناسکتے۔ اس مضمون کا اختتام ہم JohnBowlby کے دو جملوں پر کرتے ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 572
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں