Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

زندگی، موت (مولانا وحید الدین خان)

ماہنامہ عبقری - جولائی 2010ء

انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے مجبور ہے کہ وہ کسی کو عظمت کا مقام دے۔ یہ انسانی نفسیات کا تقاضا ہے۔ اب جو شخص اللہ کو عظیم سمجھے وہ موحَد ہے، اور جو آدمی کسی اور چیز کو عظیم سمجھ لے وہ مشرک۔ قرآن میں سابق اہلِ کتاب کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے بعد کے زمانہ میں اپنے احبار اور رہبان کو اپنا رب بنالیا (التوبہ 31) یہ ایک مثال کی صورت میں بتایا گیا ہے کہ دورِ زوال میں قوموں اور امتوں کا حال کیا ہوتا ہے۔ وہ توحید پرستی کے مقام سے گر کر اکابر پرستی کی بیماری میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ قوم جب زندہ ہو تو وہ اقدار (values) کی پرستار ہوتی ہے اور جب وہ مُردہ ہوجائے تو اس کے قومی اکابر اس کی پرستاری کا مرکز بن جاتے ہیں۔ یہی ایک لفظ میں، زندہ اور مردہ قوم کا خلاصہ ہے۔ زندہ قوم مقاصد کو اہمیت دیتی ہے اور مردہ قوم رجال کو۔ زندہ قوم حال میں جیتی ہے اور مردہ قوم گزرے ہوئے ماضی میں، زندہ قوم تنقید کا استقبال کرتی ہے اور مردہ قوم تنقید پر بپھر اٹھتی ہے۔ زندہ قوم حقیقی ایشو پر کھڑی ہوتی ہے اور مردہ قوم فرضی ایشو پر۔ زندہ قوم کو ہر ایک اپنا دوست نظر آتا ہے اور مردہ قوم کو ہر ایک اپنا دشمن۔ زندہ قوم اپنا مستقبل آپ بناتی ہے اور مردہ قوم دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول رہتی ہے۔ زندہ قوم کی صفت تحمل اور برداشت ہے اور مردہ قوم کی صفت عدم تحمل اور عدم برداشت۔ جب کسی قوم کے افراد میں وہ علامات ظاہر ہوجائیں جو مردہ قوم کی علامت ہوا کرتی ہیں تو اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ ساری طاقت تربیت اور تیاری کے محاذ پر لگائی جائے۔ افراد میں ازسرِنو زندگی کی اسپرٹ پیدا کرنا ہی اس وقت کرنے کا اصل کام بن جاتا ہے۔ دورِ عروج کا قومی پروگرام پیش قدمی ہوتا ہے اور دورِ زوال کا قومی پروگرام تیاری۔ دورِ عروج میں آگے بڑھنے کا نام عمل ہوتا ہے اور دور زوال میں پیچھے ہٹنے کا نام عمل۔ دور عروج میں قوم اپنے اختتام میں ہوتی ہے اور دور زوال میں وہ دوبارہ اپنے آغاز میں پہنچ جاتی ہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 586 reviews.