Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

معراج پہلوان اور قدرت کا انتقام (ڈاکٹر عبدالغنی فاروق)

ماہنامہ عبقری - جولائی 2010ء

ازل سے قدرت کا یہی نظام چلا آرہا ہے انسان اپنے کیے کا بدلہ ضرور چکاتا ہے جس کا دوسرا نام مکافات عمل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مباح کاموں میں طلاق کو سب سے مبغوض ترین قرار دیا ہے۔ مادیت پرستی کے اس دور میں طلاق کو بالکل بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا‘ ذرا سے جھگڑے پر یا ناچاقی کی وجہ سے ایک بستا ہوا آنگن آتش کدہ بن جاتا ہے۔ چند واقعات قارئین کی نذر ہیں۔ پڑھیے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ معراج پہلوان میرے گاﺅں سے چار فرلانگ کے فاصلے پر دوسرے گاﺅں میں رہتا ہے۔ اس نے شادی کی تو اسے بیوی بہت اچھی ملی۔ عبادت گزار، فرمانبردار اور خوش اخلاق لیکن معراج کے مزاج میں تنگی اور تندخوئی بہت زیادہ تھی۔ وہ بات بات پر بیوی سے الجھتا اور اس کی پٹائی کرتا تھا۔ ماں سمجھاتی تو اس سے بھی بدتمیزی کرتا تھا حتیٰ کہ تقریباً دو سال کے بعد ہی اس نے اسے طلاق دے دی۔ پہلوان نے دوسری شادی کی، اس بیوی سے اس کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ بڑا بیٹا پانچ سال کا تھا، جو کرنٹ لگنے سے مر گیا۔ دوسرا بیٹا اب نو جوان ہے اور پکا سچا بدمعاش ہے اور باپ کے لئے سخت بدنامی کا سبب بنا ہوا ہے۔ چاروں بیٹیاں نوجوان ہیں۔ بڑی کی عمر پچیس سے تجاوز کرگئی ہے لیکن رشتے نہیں ملتے۔ اس کے رزق سے برکت اٹھ گئی ہے۔ اب وہ مزدوری کرنے پر مجبور ہے جبکہ پریشانیوں اور غموں نے اسے نیم جان کردیا ہے اور زندگی جہنم کا نمونہ بن گئی ہے۔ ہمارے گاﺅں کے مہر شفیع کی شادی ہوئی تو اسے بیوی بہت اچھی ملی۔ نیک، عبادت گزار اور حلیم الطبع۔ بدقسمتی سے رفیق اور اس کا سارا خاندان جاہل اور بے عمل تھا۔ ان لوگوں نے اس لڑکی کی کوئی قدر نہ کی، بلکہ وہ مختلف انداز سے اسے آئے دن پریشان کرتے اور کہتے ”یہ نمازیں ہی پڑھتی رہتی ہے۔ اسے قرآن پڑھنے کے سوا کچھ آتا ہی نہیں۔ یہ گونگی ہے۔ بولتی نہیں“ آخر کار مہر شفیع نے اسے ایک ہی سال کے بعد طلاق دے دی۔ مہر شفیع نے دوسری شادی کی تو وہ لڑکی پہلی بیوی کے بالکل برعکس تھی۔ یہ بیوی زبان دراز، جھگڑالو، بے عقل اور بے عمل، تنگ آکر اسے انہوں نے الگ مکان میں منتقل کردیا۔ اس بیوی سے مہرشفیع کی چھ بیٹیاں پیدا ہوئیں اور صرف ایک بیٹا، اس کا گھرہر وقت عموماً جنگ و جدال کا میدان بنارہتا تھا۔ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتے بلکہ بندے خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ یہ قرآن کا فیصلہ ہے خیرمہر شفیع کی پہلی مطلقہ بیوی کی جلد ہی شادی ہوگئی، اسے بہت اچھا خاوند مل گیا۔ سسرال والے اس کی بہت قدر کرتے ہیں وہ اپنے گھر میں بہت خوش ہے۔ پروفیسر عرفان ذکی کا تعلق ایک مذہبی، تعلیم یافتہ اور زمیندار گھرانے سے تھا، وہ ایم اے عربی تھے اور ایم اے اسلامیات بھی۔ نوجوانی میں ان کی شادی اپنی چچازاد سے ہوئی۔ ان کے چچا ان کے گاﺅں میں بلکہ پڑوس ہی میں رہتے تھے لیکن حیرت انگیز طور پر پروفیسر عرفان نے شادی کے دوسرے ہی روز اپنی بیوی کو یہ کہہ کر طلاق دے دی کہ یہ لڑکی مجھے پسند نہیں حالانکہ یہ لڑکی ان کیلئے ہرگز اجنبی نہیں تھی اور ان کی دیکھی بھالی تھی۔ دونوں گھرانے باپ اور چچا خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے مگر کیا کرسکتے تھے کیونکہ عرفان صاحب بہت ہی ضدی، اکھڑ مزاج اور خواہش پرست انسان تھے۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد پروفیسر عرفان نے بڑا ہی عجیب مطالبہ کردیا کہ میں چھوٹے بھائی لقمان کی منگیتر سے شادی کروں گا۔ یہ لڑکی اپنے امیر والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔ وسیع جائیداد کی مالک تھی اور خوبصورت تھی۔ قصہ کوتاہ یہ کہ والدین اور سارے خاندان کو ان کے مطالبے کے سامنے جھکنا پڑا اور عرفان کی شادی اپنے چھوٹے بھائی کی منگیتر سے ہوگئی۔ طلعت شادی سے پہلے مکمل تندرست اور صحت مند تھی۔ اسے کوئی معمولی سا بھی روگ نہ تھا مگر عرفان صاحب کے گھر میں آتے ہی پراسرار طور پر اسے کئی بیماریوں نے آلیا۔ اس کے ہاتھوں اور پاﺅں پر کئی جلدی تکلیفیں نمودار ہوگئیں کہ نہ وہ باورچی خانے میں کام کرنے کے قابل رہی اور نہ لانڈری میں کوئی خدمت انجام دے سکتی۔ چولہے کے قریب جاتی تو ہاتھوں پر چھالے بن جاتے اور کپڑے دھونے لگتی تو صابن والے پانی سے اس کے پاﺅں پر سوجن ہوجاتی۔ اس کے علاوہ بھی متعدد عجیب و غریب بیماریوں نے اسے گھیرلیا۔ تیسرے چوتھے روز وہ بیٹھے بیٹھے بے ہوش ہوجاتی اور اس کے منہ سے جھاگ بہنے لگتی۔ اس پر خاموشی کے دورے پڑتے اور کئی کئی دن تک گم سم رہتی۔ بڑی بوڑھیوں نے عرفان صاحب کو بتایا کہ طلعت پر جنات کا سایہ ہے۔ چنانچہ موصوف حالانکہ صحیح العقیدہ مسلمان تھے۔ پھر بھی روایتی پیروں کے چکر لگانے لگے اور ہفتے، عشرے بعد وہ فرحت کی قمیض یا بنیان اٹھاکر کسی عامل کے ہاں حاضری دینے کیلئے چل پڑتے اور یہ سلسلہ بغیر کسی تعطل کیلئے عرصہ دراز تک چلتا رہا۔ اللہ نے عرفان صاحب کو دو بیٹیاں اور ایک بیٹا عطا کیا۔ بیٹا سب سے چھوٹا تھا لیکن ذرا ذہین نہ تھا۔ اس کا پڑھائی میں اور اسکول میں دل ہی نہ لگا۔ بہت مشکلوں سے گھسٹ گھسٹ کر اس نے میٹرک کیا اور پھر انہوں نے اسے ایک کاروبار میں لگادیا، مگر وہ چنداں کامیاب نہ ہوا۔ جوان ہونے پر اس کی شادی کی مگر کئی سالوں کے انتظار کے بعد بھی وہ اولاد سے محروم ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ طلعت کی بیماریوں میں شدت آتی چلی گئی، حتیٰ کہ یہ خبر پروفیسر عرفان اور ان کے کنبے پر بم بن کر گری کہ وہ کینسر میں مبتلا ہے اور یہ خاصا پھیل چکا ہے۔ حیرت انگیز طور پر عرفان صاحب اس انکشاف کے بعد علاج کی طرف سے لاتعلق سے ہوگئے اور طلعت عرفان صاحب کے ایک دوست کے گھر میں آگئی اور وہاں ڈیڑھ دو ماہ تک بے یار و مددگار پڑی رہی۔ عرفان صاحب روزانہ شام کو آتے، رسمی مزاج پرسی کرتے اور چلے جاتے، حتیٰ کہ اسی کیفیت میں وہ ایک روز دم توڑ گئی۔ وفات کے وقت طلعت کی عمر چالیس سال سے کچھ زیادہ تھی اور چونکہ اسوقت تک اس کے والدین زندہ تھے، اس لئے عرفان صاحب کو اس کی جائیداد میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 603 reviews.