Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

شہد کی مکھیوں کا رقصِ گفتگو (محمد اقبال زاہد، جھنگ)

ماہنامہ عبقری - جولائی 2010ء

شہد کی مکھیوں پر اب تک جس قدر تحقیق اور تجربے ہوئے ہیں دنیا بھر میں کسی حیوان پر اتنے تجربے نہیں کیے گئے۔ جرمنی کی میونخ یونیورسٹی کے پروفیسر کارل نان فرائس شہد کی مکھیوں پر پوری دنیا کے ماہرین حیوانیات کے نزدیک آخری سند تسلیم کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے یہ تجربات اوائل عمر سے شروع کیے تھے اور اب تک اس کام میں مصروف ہیں۔ گویا عمر عزیز کے چالیس سال انہوں نے صرف شہد کی مکھیوں کے مطالعے میں صرف کیے۔ پروفیسر کارل ہی نے سب سے پہلے یہ دریافت کیا تھا کہ شہد کی مکھیاں مختلف رنگوں میں امتیاز کرسکتی ہیں۔ انہیں دراصل یہ معلوم کرنے کی دھن تھی کہ شہد کی مکھیاں جب خوراک کا نیا منبع تلاش کرتی ہیں تو ایک دوسرے تک یہ خبر کس انداز میں پہنچاتی ہیں یعنی ”مکھیوں کی زبان“ کون سی ہے جس میں وہ گفتگو“ کرتی ہیں۔ اس دوران انہوں نے بہت سے تجربے کیے اور معلوم کیا کہ مکھیاں نہ صرف رنگوں کو پہچانتی ہیں بلکہ اس میں تمیز بھی کرسکتی ہیں۔ میونخ یونیورسٹی کے باغ میں جہاں بہت سی قسموں کے پھولوں کے تختے بچھے تھے پروفیسر کارل نے ایک لمبی سی میز بچھائی اور اس پر شہد سے بھرا ہوا ایک برتن رکھ دیا۔ برتن کے قریب ہی انہوں نے گہرے نیلے رنگ کا ایک کارڈ بھی رکھ دیا۔ باغ میں شہد کی مکھیاں اڑ رہی تھیں۔ بہت جلد انہوں نے شہد سے بھرے ہوئے برتن کا سراغ پالیا اور میز پر جمع ہونے لگیں۔ نیلے رنگ کا بڑا سا کارڈ انہوں نے اپنے بیٹھنے کے لیے چن لیا۔ پروفیسر کارل لکھتے ہیں: ”تین روز بعد میں نے شہد کا آدھا خالی برتن میز پر سے ہٹا لیا اور ایک دوسری میز پر سرخ، زرد، سبز اور نیلے رنگ کے چار کارڈ رکھ دیے، اس روز مکھیاں آئیں چند لمحوں تک شہد کا برتن تلاش کرتی رہیں اور پھر نیلے رنگ کے کارڈ پر جمع ہوکر دیر تک انتظار کرتی رہیں کہ شاید برتن آجائے۔ میں نے دیکھا کہ کوئی مکھی سرخ، سبز اور زرد رنگ کے کارڈ پر نہیں بیٹھی اسکا مطلب یہ تھا کہ انہوں نے چاروں رنگوں میں سے نیلا رنگ آسانی سے تلاش کرلیا۔ اسکے بعد میں ہفتوں تک تجربے کرتا رہا۔ نیلے رنگ کے بعد میں نے مکھیوں سے سیاہ، نارنجی، سبز اور زرد رنگ کی پہچان کروائی۔ انھی تجربوں کے دوران میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ شہد کی مکھیوں کو سرخ رنگ نظر نہیں آتا۔ بعد ازاں اس کا ثبوت یوں ملا کہ باغ میں جتنے بھی سرخ رنگ کے پھول تھے مکھیاں بہت کم ان پر بیٹھتی تھیں۔ شہد کی مکھیوں میں سونگھنے کی قوت کچھ زیادہ نہیں ہوتی۔ وہ کسی چیز کو بہت قریب سے سونگھ کر ہی پتہ لگاسکتی ہیں کہ یہ چیز ان کے کام کی ہے یا نہیں“۔ شہد کی ایک مکھی جب خوراک کا ذخیرہ دریافت کرلیتی ہے تو وہ دوسری مکھیوں کو یہ خبر کیسے پہنچاتی ہے؟ ڈاکٹر کارل یہی راز حل کرنے کی فکر میں تھے۔ سوچ سوچ کر انہوں نے ایک ترکیب پر عمل کیا۔ انہوں نے شہد کی مکھیوں کے لیے ایک خاص چھتا بنوایا۔ اس کے چاروں طرف شیشے لگائے جن میں مکھیوں کی آمد و رفت کے لیے سوراخ رکھے گئے۔ اس طرح چھتے کے اندر انہیں آسانی سے مصروف عمل دیکھا جاسکتا تھا اور ان کے مشتعل ہوکر ایک دم حملہ کردینے کا خدشہ بھی نہ تھا۔ ڈاکٹر نے اپنی تجربہ گاہ کے اندر میز پر شہد کا برتن رکھ دیا اور مکھیوں کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔ چھتے میں اس وقت پانچ سو کے قریب پالتو مکھیاں موجود تھیں۔ آخر ایک مکھی نے شہد کے برتن کا معائنہ کیا۔ ڈاکٹر نے اس مکھی کو پکڑ کر اس کے اوپر نشان لگایا اور اس کو چھوڑ دیا یہ مکھی سیدھی چھتے کی طرف گئی ڈاکٹر کارل نے یہ واقعہ یوں لکھا ہے: ”مکھی پہلے تو شہد کے اوپر منڈلاتی رہی پھر اس نے شہد کو چوسا اور کھڑکی سے باہر نکل کر چھتے کی جانب اڑ گئی۔ میں اس کے تعاقب میں گیا اور جب یہ سوراخ کے اندر سے چھتے میں داخل ہوگئی تو میں نے قریب جاکر معائنہ کیا چونکہ اس مکھی پر میں نے نشان لگادیا تھا اس لیے اسے شناخت کرنے میں ذرا دقت نہ ہوئی۔ چھتے کے اندر جاتے ہی وہ ایک جگہ پر بیٹھ گئی اور پھر تیزی سے رقص کرنے لگی۔ ایک منٹ تک وہ اسی طرح چکر لگاتی رہی حتیٰ کہ دوسری مکھیاں اس کی جانب متوجہ ہوگئیں۔ یکایک اس مکھی نے رقص بند کردیا اور سب سے پہلے چھتے سے باہر نکلی اس کے پیچھے سینکڑوں مکھیاں نکل آئیں اور تجربہ گاہ میں رکھے ہوئے برتن پر جمع ہونے لگیں اور ایک بار پھر انہوں نے شہد کے برتن کے گرد رقص کیا۔“
Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 618 reviews.