میری پیدائش ایسے گھرانے میں ہوئی جہاں کھلی آزادی تھی‘ کوئی روک ٹوک نہ تھی، فلموں کو دیکھتی اور معاشرے کے برے رنگ میں رنگتی چلی گئی۔ خوبصورتی نے مجھے منفرد بنادیا۔ گو لوگ ہم سے نفرت کرتے تھے لیکن دین سے انحراف کرنے والے ہروقت میرے آگے پیچھے لگے رہتے۔ ہمارے ہمسائیوں میں ایک خوشحال اور مذہبی فیملی آکر رہنے لگی۔ اس فیملی میں بہت سے لوگ تھے، عجیب لوگ تھے، ہر وقت خوش رہتے، نمازیں کثرت سے پڑھتے اور ان کے گھر صبح و شام قرآن پاک کی آوازیں آتی تھیں اور ادھر میں نے گانے پوری آواز میں لگائے ہوتے۔ میں نے ان کے گھر جانا شروع کردیا۔ وہ اس بات کو جانتے تھے کہ میں اچھی لڑکی نہیں ہوں کیونکہ شریف لوگ ہمیں گھر میں نہیں آنے دیتے تھے۔ میں ان کے گھر جاتی۔ ان کے کچن میں گھس جاتی جو میرا دل کرتا تھا وہاں سے کھاتی۔ وہ لوگ مجھ سے نفرت نہیں کرتے تھے وہ تمام بہن بھائی مجھے اپنی ہی بہن سمجھتے۔ خاص طور پر ان کی والدہ جن کے سامنے ہر وقت قرآن پاک کھلا رہتا۔ درود شریف پڑھ رہی ہوتی۔ وہ محبت سے مجھے اپنے پاس بٹھالیتی۔ ان کے گھر میں جو بھائی رہتے تھے سب خوبصورت تھے لیکن درمیان والا لڑکا درمیانہ ہی تھا۔ قد شکل و صورت ہر لحاظ سے درمیانہ تھا لیکن اس کی آنکھوں اور دماغ میں غضب کی ذہانت تھی اور وہ اپنے پورے گھرانے میں ذہین تھا۔ وہ میرے بارے میں ہر چیز جانتا تھا لیکن خاموش رہتا اور تمام لوگوں سے نیک بھی لگتا تھا۔
وہ ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھتا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس کا تعلق حساس ادارے سے ہے۔ میں نے کئی بار اس کو برائی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی۔ ایک دفعہ میں تیار ہوکر عید ملنے ان کے گھر گئی۔ تو میں نے ادا سے اسے عید مبارک کہا۔ تو اپنے ہاتھ سے میرے گالوں کو چھوتے ہوئے کہا۔ بیٹا عید مبارک اور ساتھ ہی عیدی دے دی۔ میں غصے اور حیرانی سے اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔ پھر مجھے پتہ چلا کہ اس کی شادی ہونے والی ہے۔ اس کی شادی ہوگئی تو میں ولیمے پر گئی تو اس کی بیوی کو دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کی بیوی کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ حسن و جمال دیا ہوا ہے اور ساتھ ہی وہ عالم قرآن، حافظ قرآن بھی ہے اور میں خوبصورت ہوتے ہوئے بھی اس کے سامنے نوکرانی لگ رہی تھی۔ دل میں یہ محسوس ہوا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو یہاں بھی نوازتا ہے۔ وہ میاں بیوی آپس میں شدید محبت کرتے تھے۔ میں اس کے گھر جاتی رہی لیکن ان کا اخلاق پہلے والا ہی تھا۔
میرے تعلقات بڑھتے چلے گئے۔ دشمن عناصر لوگ بھی مجھے ملنے لگے۔ ان ملک دشمن لوگوں نے مجھے اس کے پیچھے یعنی احسن کے پیچھے لگادیا۔ بے حیائی، پیسے ہوتے ہوئے بھی میں اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ مجھے اس کی جاسوسی کے لئے باقاعدہ پیسے ملتے گئے لیکن احسن تو پتھر کا بنا ہوا تھا۔ وہ کبھی اپنے مقصد سے کبھی نہ ہٹا۔ اب تو ہم نے کالا علم بھی استعمال کرنا شروع کردیا۔ احسن اپنی بیوی سے لڑپڑتا مگر پھر صلح کرلیتا۔ ایک دن میں بغیر دستک دیئے ان کے کمرے میں داخل ہوگئی۔ احسن لیٹا ہوا تھا اور اس کی بیوی قرآن پاک اس کے سینے پہ کھولے پڑھ رہی تھی۔ میں نے کچھ دوائیاں سفوف ان کے کچن میں چیزوں میں ملا دیا تو احسن کو موشن لگ گئے۔ وہ ٹھیک ہی نہیں ہوتا تھا لیکن وہ برابر اپنی ڈیوٹی پہ جاتا رہا۔ پتہ نہیں اس کو کسی کی دعا تھی۔ اس پر کوئی داﺅ اثر نہیں کررہا تھا۔
میں نے ان لوگوں کے کہنے پر جو احسن کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ اس کی پاکباز اور معصوم بیوی پہ تہمتیں لگانی شروع کردی۔ یہ باتیں پورے محلے میں پھیلادیں حتیٰ کہ اس کے آفس میں بھی یہ جھوٹی باتیں پہنچانی شروع کردی۔ احسن کو سارا پتہ تھا مگر وہ تو پتھر تھا۔ اس نے اپنی بیوی کو کبھی کچھ نہیں کہا کیونکہ وہ زمانہ شناس آدمی تھا اور جانتا تھا کہ اس کی بیوی پاکباز ہے۔ اب احسن پر بھی جھوٹی تہمت لگادی۔ دونوں میاں بیوی کو ہم نے بدنام کردیا۔
ہر آدمی اب ان سے نفرت کرتا تھا لیکن اس بات کا اس کی بیوی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ سب کچھ میں کررہی ہوں۔ وہ مجھے اپنی بہن ہی سمجھتی رہی۔ احسن سے اس کے آفس والے بھی نفرت کرتے تھے لیکن اس کی فرض شناسی قابلیت اور سچے کردار کے سامنے کوئی کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کی بیوی جو حافظ قرآن پاکباز اور پردے کی پابند تھی۔ اس کو بھی پتہ چل گیا۔ آنسو اس کی آنکھوں سے رکتے نہیں تھے۔ وہ دن رات روئی اور مجھے خوف آنے لگا کیونکہ مجھے واضح معلوم ہوتا تھا کہ اس کے ساتھ کوئی روحانی چیز حصار کئے رہتی ہے کیونکہ جب وہ ہنستی رہتی تھی لیکن اب وہ سنجیدہ رہنے لگی۔
چہرہ نور سے بھرا ہوتا تھا کیونکہ میں نے آج تک اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی تھی۔ پھر وہ تنگ آکر واپس اپنے والدین کے پاس چلی گئی لیکن دونوں میاں بیوی میں پیار مثالی تھا۔ تقریباً اڑھائی سال کے بعد وہ میاں بیوی واپس اسی گھر میں آگئے۔ میری سرگرمیاں عروج پر تھیں لیکن انہوں نے مجھے کبھی کچھ نہیں کہا۔ احسن کی فرض شناسی اور ملک کی دوستی آج بھی ویسے ہی قائم ہے لیکن مجھے معلوم تھا ان نیک لوگوں پر جو میں نے تہمت لگائی ہے اس کی سزا مجھے ضرور ملے گی کیونکہ اس صاحب ایمان لڑکی کے آنسو مجھے بھولتے نہیں تھے۔ کچھ ہی عرصہ بعد میرے اپنے ہی بھائی نے میری ریڑھ کی ہڈی توڑ دی اور میں اپاہج ہوکر اپنے گھر میں پڑی ہوں اور مجھے یقین ہوگیا یہ سزا مجھے تہمت لگانے کی وجہ سے ملی ہے۔ تنہائی نے مجھے برباد کردیا ہے، اپنی مرضی سے نہ حرکت کرسکتی ہوں، نہ کھاسکتی ہوں۔ بے بسی مجھ پر برستی ہے۔ لوگ خیرات دے جاتے ہیں۔ اپنا دکھ کس کو کہوں کیونکہ جو میں نے بویا تھا وہی کاٹ لیا ہے۔ لیٹ لیٹ کر میرا جسم زخمی ہوگیا ہے۔ میری آنکھوں میں آنسو بھی ختم ہوگئے ہیں۔ سارے لوگ پوچھنے آتے ہیں مگر احسن کو بھی پیغام بھیجا کہ مجھے مل جاﺅ لیکن مجھے معلوم ہے وہ نہیں آئے گا کیونکہ نہ وہ پہلے آتا تھا اور میں نے اس کی صاحب ایمان بیوی پہ تہمت لگائی تھی۔ اس پر بھی لگائی۔ وہ خاموش رہا مگر قدرت نے مجھے ایسا بدلہ دیا ہے کہ میں عبرت کا نشان بن گئی ہوں۔ اللہ کےلئے کسی مرد یا عورت پہ بغیر تحقیق کے کوئی بات نہ کریں کیونکہ کسی پر ناجائز تہمت لگانا آسمان سے بھاری گناہ ہے۔ اس وجہ سے لوگوں کے گھر اجڑجاتے ہیں۔ نفرتیں پھیل جاتی ہیں۔ اب میںجس حال میںہوں اس میں توکوئی آنسو پونچھنے والا بھی نہیں ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں